سوال (6162)
ڈیموکریسی نظام کے بارے کیا رائے ہے جبکہ یہ نظام مسلمانوں کی خلافت اور شریعت کے متبادل آیا ہے اور آج سو سال ہوگئے ہیں مسلمان اپنے خلیفہ کو آج تک نہیں چن سکے اسکا بوجھ کس پر ہوگا؟
جواب
پیارے بھائی سب سے پہلے آپ کو خلافت کا مفہوم کلیئر کرنا چاہئے کہ شریعت میں خلافت کیا ہے۔
خلافت میں مندرجہ ذیل دو پہلو ہوتے ہیں۔
1۔ ایک یہ کہ کسی جگہ ملک یا شہر پہ سلطنت (قبضہ یا حکومت یا غلبہ) حاصل کس طریقے سے کرنا ہے۔
2۔ دوسرا یہ کہ غلبہ صاحل کرنے کے بعد وہاں قوانین کون سے نافذ کرنے ہیں۔
اب یاد رکھیں اسلام میں پہلے پہلو پہ کوئی واضح حکم نہیں ہے پس چاہے آپ کو سلطہ مملوکیت سے مل جائے یا بادشاہت سے یا جنگ سے حاصل ہو جائے یا پھر شوری سے (جسکو آج کل الیکشن سے تشبیہ دی جاتی ہے)۔
اصل مسئلہ جس کا شرعی بھی حکم ملتا ہے اور فطری حکم بھی ہے وہ دوسرا پہلو ہے کہ جب آپ کو سلطہ مل گیا تو اب آپ نے قوانین کون سے نافذ کرنے ہیں۔
اب یہ قوانین دو طرح کے ہوتے ہیں۔
ایک وہ جو اللہ کے ہی لاگو کرنا ہوتے ہیں اور جس میں لا طاعۃ لمخلوق فی معصیۃ الخالق کرنا فرض ہوتا ہے مثلا حدود اللہ کہلاتے ہیں یاحرمت شراب و سود وغیرہ۔
دوسرے وہ جو شریعت میں مباح ہوتے ہیں اور وہ حاکم لوگوں کی بھلائی کے لئے نافذ کرتا ہے جیسے ٹریفک وغیرہ کے قوانین تو یہ قوانین حکمران اپنی مرضی مشورہ سے نافذ کر سکتے ہیں۔
پس خلافت کا اصل رونا تو ان قوانین کے نفاذ میں ہے نہ کہ اسکو حاصل کرنے میں ہے۔
خلافت کا درست مفہوم سمجھنے کے بعد اب ہم ڈیموکریسی کا درست مفہوم سمجھتے ہیں۔
ڈیموکریسی یا جمہوریت نے اوپر والے دونوں پہلو اپنے تابع کر لئے ہیں پس اگر جمہوریت خالی پہلا پہلو ہی اپنے تابع کرتی تو اس پہ گنجائش نکالی جا سکتی تھی مگر دوسرا پہلو جو اس نے اپنے تابع کر لیا ہے یعنی پارلیمنٹ کے تابع کر لیا ہے تو یہ بالکل جائز نہیں ہے۔ واللہ اعلم
اب جہاں تک اس کے بوجھ کا جو ڈر ہے تو ہمیں اپنی استطاعت کے مطابق اس کے بارے آگاہی دینی چاہئے کہ ہمارے لئے شرعی احکامات کو لاگو کرنا اور غیر شرعی چیزوں مثلا شراب سود جوا وغیرہ جو جمہوریت نے جائز کیا ہوا ہے اسکو ختم کرنا چاہئے اور یہ جمہوریت کو تبدیل کر کے یا جمہوریت کا رد کر کے کیا جا سکتا ہے یعنی یا تو ہم جمہوریت کا رد کریں ورنہ پھراس کیپرزور اور علی الاعلان کوشش کریں کہ یہ والی شق ہی نکلوا دیں کہ سود کو حرام کرنے کے لئے پارلیمنٹ کی ووٹنگ ہونی ہی نہیں چاہئے اور شراب کے حرام ہونے کے لئے پارلیمنٹ کی ووٹنگ ہونی ہی نہیں چاہئے اور تمام شرعی احکامات کے لئے کوئی ووٹنگ کروانے کی ضرورت نہیں (کم از کم وہ احکامات جو تمام مکاتب فکر کے ہاں متفق ہیں)۔
فضیلۃ العالم ارشد حفظہ اللہ




