’مذہبی ملازمین’ اور ’دینی خدمتگاروں‘ کی ’خدمت‘ کا موضوع ایک بار پھر سوشل میڈیا پر عام ہورہا ہے۔ اب تک اس پر جتنا پڑھنے لکھنے اور سوچنے کی توفیق ملی ہے، اس کی روشنی میں عرض کرسکتا ہوں کہ اس زبوں حالی کا ذمہ دار پورا معاشرہ ہی ہے، جس میں مہتممین اور عوام سب برابر کے شریک ہیں، اور بہت ساری جگہوں پر خود دینی ملازمین بھی اس کی ایک وجہ ہیں۔
1۔ عوام:
دینی کام کو کام نہیں سمجھا جاتا، اور اس میں وقت صرف کرنے والوں کی ضروریات کو سمجھا نہیں جاتا۔ گاؤں، دیہات اور شہر میں کسی بھی پبلک سروس پلیس کے لیے جس قدر افرادی و مالی وسائل کی ضرورت ہوتی ہے، کیا مسجد کے لیے بھی اسی قدر انتظامات ہوتے ہیں؟ بالکل نہیں۔
عوام میں سب سے غیر سنجیدہ اور ناسمجھ وہ دانشور حضرات ہیں، جو ایسے مواقع پر علمائے کرام کو ’کاروبار‘ اور دین کا کام فی سبیل اللہ کرنے کا مشورہ دے رہے ہوتے ہیں۔ عالم دین کے لیے کاروبار کرنا حرام نہیں ہے، لیکن اس پس منظر میں یہ احمقانہ بات کرنا ایسے ہی ہے، جیسے کوئی فوجی، ڈاکٹر، انجینئر، جج وغیرہ کو یہ مشورہ دے کہ آپ اپنی ضروریات اپنے کاروبار سے پوری کریں ، جبکہ ملک و قوم کی خدمت فی سبیل اللہ کیا کریں…!
ایسے لوگ دین اور اہل دین کو ہی نہیں، وہ کسی بھی فیلڈ اور اس میں کام کے تقاضوں سے نابلد ہوتے ہیں!!
2ـ مہتمم حضرات:
بہت سارے ذمہ داران ایسے ہیں، جن کے پاس فنڈنگ وغیرہ کے مسائل نہیں ہیں، لیکن اس کے باوجود وہ اپنے ملازمین کی خدمت میں کوتاہی کرنا اپنی مہارت و چالاکی سمجھتے ہیں۔ ھداہم اللہ۔ ہر مہتمم و متولی امام مسجد اور مدرس کو اپنی جگہ پر رکھ کر سوچ لے، اور جتنا اپنے لیے فکر مند ہے، اتنا اس کا بھی خیال کرلے، مسئلہ حل ہوجائے گا۔ ان شاءاللہ۔
اہلِ دین کے بارے میں لوگوں کو جس قدر غلط فہمیاں ہیں، وہ بھی اسی طبقے کے افراد کے ٹھاٹھ باٹھ اور کر و فر کے سبب ہے!! کیونکہ جب لوگ مولویوں کے شاہانہ لائف اسٹائل کا ذکر کرتے ہیں، تو اس سے مراد یہی لوگ ہوتے ہیں!
3ـ دینی ملازمین:
افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اس ضمن میں کام کرنے والے بہت سارے لوگ نہ اپنی ذات کے حوالے سے حساس ہیں اور نہ ہی ذمہ داریوں کے حوالے سے سنجیدہ ہیں۔ کیونکہ محنت کے ساتھ کام کرنے والا مخلص آدمی کچھ دیر سے ہی سہی، لوگوں کی مجبوری اور ضرورت بن جاتا ہے، اور اسے اپنی ضروریات و سہولیات کے حوالے سے زیادہ پریشانی نہیں رہتی۔
بہرصورت
معاشرے میں جتنی دین کی قدر ہے، ہمارا رویہ اسی کا عکس ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ لوگوں کو دین سے محبت تو نہ ہو، لیکن اہلِ دین پر جان و مال نچھاور کرنا فخر سمجھتے ہوں! جن کے نزدیک آپ معاشرے کا ایک غیر ضروری حصہ ہیں، وہ بجٹ میں آپ کا حصہ کیوں مقرر کریں گے؟ پارلیمنٹ میں آپ کے علاقے کا جو نمائندہ موجود ہے، کبھی ان سے اس موضوع پر بات کریں، قوی امید ہے کہ انہیں آپ کی بات سمجھ ہی نہیں آئے گی۔
معاشرے کی دینی حالت کے مختلف مظاہر ہیں، جن میں سے ایک دین کے لیے وقف شدہ لوگوں کے ساتھ ہمارے رویے ہیں۔ اللہ ہم سب کو اپنی اپنی ذمہ داری کو سمجھنے اور ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

یہ محض ایک خیال نہیں، بلکہ حقیقت ہے کہ

معاشرے کو زوال سے نکالنے والے اگر کوئی لوگ ہیں، تو وہ علماء ہیں، اور اس عظیم مشن میں اگر ان کے دست وبازو بننے کی صلاحیت کسی میں ہے، تو وہ ’اسلام پسند، اصحابِ خیر‘ ہیں، جو دنیا کی خوشحالی کی ضمانت بھی دینداری کو ہی سمجھتے ہیں۔ اور ان کے نزدیک بہترین وقت اور مال وہ ہے، جو اللہ کے دین کے لیے صَرف ہوتا ہے۔
علماء کی قدر کا مطلب ’ علم وتحقیق‘ کی قدر ہے، ہمیں سمجھ آرہی ہے کہ نہیں، لیکن یہ حقیقت ہے کہ علماء ومحققین کی ناقدری کرکے ہم بہت بڑی کوتاہی کے مرتکب ہورہے ہیں، معاشرے سے علم وتحقیق رخصت ہورہی ہے. علماء ومحققین کی باقاعدہ سرپرستی، کفالت اور توجہ وقت کی اہم ضرورت ہے، اور اس کام کو کسی بھی مسجد ومدرسہ یا دینی پراجیکٹ سے کم نہیں سمجھنا چاہیے۔

حدیث و قراءت کے بہت بڑے امام ابو محمد سلیمان بن مہران الاعمش کے بارے میں آتا ہے، مجلسِ حدیث میں جاکر محنت سے 6 احادیث یاد کرکے آئے، دہراتے دہراتے گھر داخل ہوئے، آگے سے آواز آئی : ’’گھر میں آٹا نہیں ہے…‘‘ یہ سنتے ہی چھے کی چھے احادیث بھول گئیں، اور آٹا ذہن پر سوار ہوگیا. ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ جو ایک تاجر تھے، گھر کا سارے کا سارا مال حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں میں رکھ دیا کرتے تھے، جب خلیفہ بنے تو تجارت چھوڑ کر بیت المال کی تنخواہ کو قبول کیا اور کہا کہ تجارت کے ساتھ میں اس ذمہ داری کا حق ادا نہیں کرسکتا، خود کو مسلمانوں کے لیے وقف کرتا ہوں، اور بیت المال سے حسب ضرورت تنخواہ لے کر گزارہ کروں گا۔

ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے نام سے آج کون واقف نہیں؟ لیکن ان کے علمی وتحقیقی کام میں ان کے وہ بھائی کس قدر حصہ دار ہوں گے، جنہوں نے انہیں معاشی طور پر یکسوئی فراہم کی. اگر تو یہ سوچیں کہ کسی مولوی صاحب کی فقیری میں ان کا سہارا بننا ہے تو شاید آپ امام مسجد کو دیے جانے والے چند ٹکوں پر بھی مطمئن نہیں ہوں گے، لیکن اگر سمجھیں کہ ہم معاشرے میں جہالت، لادینیت اور کفر کے بہتے ہوئے سیلاب کے سامنے سدِ سکندری تعمیر کر رہے ہیں، ہم حزب الشیطان کے مقابلے میں حزب الرحمن کا حصہ بن رہے ہیں تو پھر یقینا آپ اس میں زیادہ سے زیادہ شرکت کرنا چاہیں گے۔
#خیال_خاطر