سوال (1314)
میرا سوال کورٹ میرج کے متعلق ہے ،
ایک لڑکی، جو کہ طلاق یافتہ ہے، اور خود مختار بھی اور گھر کی کفیل بھی، اس نے اپنے گھر اپنی پسند ظاہر کی دین کی بنیاد پر،
گھر والے لڑکے سے ملے بھی اور پھر کبھی ہاں اور کبھی رشتے سے انکار کر دیتے، اور جہاں گھر والے کہتے وہاں وہ لڑکی راضی نہیں تھی،
لڑکی کے انکار پر گھر والوں نے لڑکی پر بہیمانہ تشدد کیا اور گھر میں باندھ کر قید کر دیا پھر ایک دن جیسے اس لڑکی کو موقع ملتا ہے وہ وہاں سے راہ فرار اختیار کرتی ہے، اور دو راستوں کا اختیار کرتی ہے یا خود کشی یا اپنی پسند کے مطابق شادی جب وہ اس لڑکے سے رابطہ کرتی ہے تو وہ لڑکے کا کورٹ میرج کا ارادہ نہیں ہوتا لیکن جب صورت حال سنتا اور دیکھتا ہے تو آمادگی ظاہر کر دیتا ہے کہ کہیں میرے انکار پر یا واپس اسے اس کے گھر پہنچانے پر یہ لڑکی دوبارہ موقع پا کر کہیں خود کشی نا کر لے یہ سوچ کر وہ کورٹ میرج کر لیتا ہے ، یہ رشتہ دین کی بنیاد پر تھا ، اور اب وہ دین کے مزید قریب ہوئے جس بنیاد پر پسند تھی اور اللّٰہ دین کی خدمت کا کام بھی لے رہا ہے، 3 بچے بھی ہیں، بعد میں لڑکی کے گھر والوں نے فرداً فرداً معافیاں مانگتے رہے ہیں۔
کیا یہ رشتہ ٹھیک ہے، ساری صورتحال آپ کو واضح کی ہے تا کہ آپ اس سب کی روشنی میں جواب دیں۔
جزاک اللہ خیرا کثیرا و احسن الجزاء فی الدنیا والآخرۃ
اللّٰہ آپ سب علما کا حامی و ناصر ہو آمین یارب العالمین
جواب
کورٹ میرج اور ولی کے بغیر نکاح فقہاء میں مختلف فیہ مسئلہ ہے، بعض علمائے کرام جیسا کہ احناف اس کو درست قرار دیتے ہیں، لیکن ہمارے نزدیک راجح موقف یہ ہے کہ ولی کے بغیر نکاح درست نہیں ہے۔ چاہے عورت کنواری ہو یا شادی شدہ۔
اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے:
“فَلَا تَعْضُلُوهُنَّ أَن يَنكِحْنَ أَزْوَاجَهُنَّ”. [سورۃ البقرہ:232]
’ تو تم انہیں اپنے خاوندوں سے نکاح کرنے سے نہ روکو۔
ایک دوسرے مقام پر کچھ اس طرح فرمایا :
“وَلَا تَنكِحُواْ ٱلْمُشْرِكَٰتِ حَتَّىٰ يُؤْمِنَّ ۚ وَلَأَمَةٌ مُّؤْمِنَةٌ خَيْرٌ مِّن مُّشْرِكَةٍۢ وَلَوْ أَعْجَبَتْكُمْ ۗ وَلَا تُنكِحُواْ ٱلْمُشْرِكِينَ حَتَّىٰ يُؤْمِنُواْ “.[البقرة: ٢٢١]
’اور تم مشرک عورتوں سے نکاح مت کرو یہاں تک کہ وہ ایمان لے آئیں، اور مؤمنہ بندی زیادہ بہتر ہے مشرکہ عورت سے اگرچہ وہ (مشرکہ عورت) تمہیں پسند کیوں نہ ہو، اور تم (مسلمان عورتوں کا) نکاح نہ کراؤ مشرک مردوں سے یہاں تک کہ وہ ایمان لے آئیں “۔
ان آیات میں عورت کے ولی کو عقدِنکاح کے بارہ میں مخاطب کیا گیا ہے ۔اوراگر معاملہ ولی کی بجائے، صرف عورت سے متعلق ہوتا، تو پھر اس کے ولی کو مخاطب کرنے کی ضرورت ہی نہیں تھی ۔
کیونکہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
’لَا نِكَاحَ إِلَّا بِوَلِيٍّ‘.[ سنن ابوداود: 2085]
’ولی کے بغیر نکاح نہیں ہوتا‘۔اسی طرح رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
“أَيُّمَا امْرَأَةٍ نَكَحَتْ بِغَيْرِ إِذْنِ وَلِيِّهَا فَنِكَاحُهَا بَاطِلٌ فَنِكَاحُهَا بَاطِلٌ فَنِكَاحُهَا بَاطِلٌ”.[سنن ابوداود:2083]
’ جوعورت بھی اپنے ولی کے بغیر نکاح کرے اس کا نکاح باطل ہے ۔اس کا نکاح باطل ہے ۔ اس کا نکاح باطل ہے‘۔
اس لیے ہمارے نزدیک یہ نکاح ہوتا ہی نہیں ہے۔ البتہ چونکہ آپ لوگ نکاح کرچکے ہیں، اور اکٹھے رہ رہے ہیں اور اولاد بھی ہو چکی ہوئی ہے، اور اب اولیاء بھی راضی ہو چکے ہیں، لہذا وقتی طور پر میاں بیوی دونوں کو جدا کرکے، استبراء رحم کے بعد نئے سرے سے اولیاء کی موجودگی میں نکاح کر لیا جائے۔
باقی سوال میں جو کہا گیا ہے کہ ہم دین کی وجہ سے ایک دوسرے کو پسند کرتے ہیں اور اسی وجہ سے کورٹ میرج کیا ہے. وغیرہ. تو یاد رکھیں دین کی وجہ سے پسندیدگی کے سبب ماں باپ کی نافرمانی، گھر سے بھاگنا، خود کشی کا ارادہ کرنا، یہ سب حرام کام جائز نہیں ہو جاتے!
لہذا اگر ہم دین کی بنیاد پر کوئی کام کرنا چاہتے ہیں تو اس کے لیے دینی تعلیمات کی پابندی ضروری ہے۔
فضیلۃ العالم حافظ خضر حیات حفظہ اللہ