سوال (228)

ایک شخص ہمیں شادی کا کھانا بھیجتا ہے ، حالانکہ اس کے شادی کے فنکشن میں ڈھول اور باجے وغیرہ کا ہمیں علم نہیں ہے تو کیا ایسا کھانا ہمارے لیے جائز ہے ؟ اس علاوہ کیا کوئی دعوت دے وہاں ڈھول اور باجے وغیرہ ہوں ، ہم جا کر سلامی کے طور پر پیسے دیتے ہیں ، کیا ہمارے پیسے ان کے کھانے کے عوض ہوجاتے ہیں ، اس لیے ہم دل میں یہ خیال کریں کہ ہم نے جو پیسے دیے ہیں ، دراصل وہ کھانے کے لیے دیے تھے ، کیا ایسا کرنا ٹھیک ہے ، ہماری رشتے داری کا بھی مسئلہ ہے ، نہ جائیں تو رشتہ داری ختم ہونے کا خطرہ ہے ؟

جواب:

اس طرح کا ماحول اسلامی ماحول نہیں ہے ، لیکن قطع رحمی تو نہیں ہوسکتی ہے ، آپ بڑی محبت و پیار سے سمجھا کر انکار کردیں کہ یہ آپ کے معاملات ہیں ہم نہیں آسکتے ہیں ، یہ آپ کا تقوی ہے ، کبھی انسان چلا جائے ، کبھی احتراماً حاضری دے کر آجائے اور ان کو یہ بول دیں کہ آپ کے یہ معاملات ہیں ہم اس کو جائز نہیں سمجھتے ہیں ۔ اس وجہ سے آپ کھانے پر حلت و حرمت کا فتویٰ نہیں لگا سکتے ہیں ، باقی آپ کا پیسے دے کر اس کو حلال کردینا یہ غیر ضروری بات ہے کیونکہ سب کو پتا ہے کہ ان مواقع تحفہ تحائف کا ماحول ہوتا ہے ، بلکہ اس سے سامنے والے کے ساتھ غلط بیانی بھی ہوجائے گی ، باقی یہ صورت کہ ہم گئے نہیں ہیں ایسی جگہ سے کھانا آگیا جہاں ڈھول دھماکے تھے ، تو یہ مسلمان کا کھانا ہے ، ان کی شادی کا کھانا ہے ، کھانے پر فتویٰ نہیں لگا سکتے ہیں ، اگر آپ اجتناب کرتے ہیں تو یہ آپ کا تقویٰ ہے ۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ