دھویں میں گُھٹی سانسیں
دھواں، جو کچھ گھروں سے اٹھ رہا ہے
نہ پورے شہر پر چھائے تو کہنا
جاوید اختر کا یہ شعر مبنی بر حقیقت ہے، اس لیے کہ دھواں کسی دل سے اٹھے یا مکانات اور مضافات سے، یہ انسان کا سانس لینا ضرور محال کر دیتا ہے۔ شہروں اور بستیوں سے اٹھنے والا دھواں اور گَردوغبار انسان کی صحت کے ساتھ ساتھ چہروں کو بھی بگاڑ رہا ہے، یہ نوعِ انسانی کے اردگرد مسلسل خطرات کے حصار بڑھاتا جا رہا ہے اور اگر آلودگی سے اٹے اس ماحول کو سنجیدگی سے نہ لیا گیا تو کرّہ ارض کا وجود بکھر کر رہ جائے گا۔ندیم ماہر نے کچھ ایسے ہی ماحول کا تذکرہ یوں کیا ہے۔
گَردوغبار یوں بڑھا، چہرہ بکھر گیا
ملبوس تھا میں جس میں، لبادہ بکھر گیا
کل رات جگنوؤں کی سمندر پہ بِھیڑ تھی
لگتا تھا روشنی کا جزیرہ بکھر گیا
لاریب سانسوں کا پیہم چلنا ہی زندگی کی علامت ہُوا کرتا ہے اور ان کا رک جانا موت کو جنم دیتا ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ آلودگی سے اٹی فضاؤں میں سانسیں روپوش ہونے لگتی ہیں، دَم گُھٹنے لگتا ہے۔ آلودگی گھروں میں ہو یا کھلی فضاؤں میں، یہ انسانی جسموں میں گُھلی ہو یا سوچ اور فکر میں، زندگی کے لیے ہر لمحے اور ہر پَل کو اجیرن اور دُکھی بنا ڈالتی ہے۔ پراگندہ ماحول، انسان کی چھاتی ہی کو دق نہیں کرتا بلکہ خیالات میں بھی گھٹن، حَبس اور تعفّن پیدا کر دیتا ہے۔ شہرت بخاری نے بہت عمدہ شعر کہا ہے۔
کچھ ایسا دھواں ہے کہ گُھٹی جاتی ہیں سانسیں
اس رات کے بعد آؤ گے شاید نہ کبھی یاد
یہ اعدادوشمار انتہائی چونکا دینے والے ہیں کہ دنیا بھر میں مرنے والے ہر آٹھویں شخص کی موت کا سبب آلودگی ہے۔ 2012 ء کے دوران یہی آلودگی 80 لاکھ لوگوں کو نگل گئی تھی، اس سے بھی زیادہ افسوس ناک بات یہ ہے کہ ان مرنے والوں میں 43 لاکھ ایسے لوگ تھے جو گھروں کے اندر کی آلودگی کے سبب مر گئے تھے۔ یہ اموات زیادہ تر جنوبی اور مشرقی ایشیا کے غریب اور متوسط درجے کے ممالک میں ہوئیں۔ نصف سے زائد اموات کا سبب لکڑی اور کوئلے کے چولھوں سے اٹھنے والا دھواں تھا جب کہ بیرونی فضا میں آلودگی کے باعث مرنے والے لوگوں میں سے 90 فی صد کا تعلق ترقی پذیر ممالک سے تھا۔ عالمی ادارہ ء صحت کا کہنا ہے کہ بیرونی فضائی آلودگی چِین اور بھارت جیسے ممالک کے لیے ایک بہت بڑا سنگین مسئلہ بن چکی ہے۔ زندہ رہنے کے لیے ہر شخص کو سانس لینا پڑتی ہیں اور جو بھی شخص آلودہ فضا میں سانس لیتا ہے اس کے پھیپھڑوں میں ایسے ننّھے ننّھے ذرّات چلے جاتے ہیں جو پھیپھڑوں کی تباہی کا سبب بنتے ہیں۔ فضائی آلودگی، دل کی سوجن کا سبب بھی بنتی ہے اور اس سے دل کے دورے کے امکانات بھی بڑھ جاتے ہیں۔
کچھ عرصہ قبل ” انوائر مینٹل ہیلتھ پراسپیکٹو“ نامی ادارے نے 9 ممالک کے 30 لاکھ سے زائد نوزائیدہ بچوں کا جائزہ لے کر یہ رپورٹ مرتّب کی تھی کہ جو حاملہ خواتین آلودہ فضا میں رہتی ہیں، اُن کے ہاں پیدا ہونے والے بچوں کا وزن دوسرے بچوں کی نسبت کم ہوتا ہے۔ 2012 ء ایک ایسا سال تھا کہ اس دوران ماحول کو آلودہ کرنے والی گیسوں کی سطح میں ریکارڈ اضافہ نوٹ کیا گیا۔ 2012 ء کے دوران فضا میں صرف کاربن ڈائی آکسائیڈ کی شرح 393.1 پی پی ایم تھی جو کہ 2011 ء کے مقابلے میں 2.2 پی پی ایم زیادہ تھی۔
آلودگی ایک تسلسل کے ساتھ بڑھتی جا رہی ہے۔ 2012 میں عالمی ادارہ ء صحت دنیا کے 10 آلودہ شہروں کی رپورٹ جاری کی تھی جن میں سے چار کا تعلق ایران، تین پاکستانی، دو بھارتی جب کہ منگولیا کا ایک شہر تھا۔ ایران کے شہر اہواز کو فضائی آلودگی کے لحاظ سے دنیا کا سب سے زیادہ آلودہ شہر قرار دیا گیا تھا، جب کہ دوسرے نمبر پر منگولیا کا شہر الان بتور تھا۔ بھارتی شہر لدھیانہ اور کوئٹہ کی فضاؤں میں موجود آلودگی کی شرح برابر تھی ، جس کی وجہ سے ان دونوں شہروں کو مشترکہ طور پر دنیا کے چوتھے نمبر پر آلودہ شہر سمجھا گیا تھا۔امریکی ائر انڈیکس کے مطابق فضا میں گَرد کے ذرات (پی پی ایم 2.5) کی تعداد 35 مائیکروگرام فی مکعب میٹر سے زیادہ نہیں ہونی چاہیے جب کہ 28 اکتوبر 2019 کو لاہور کی فضا میں اِن ذرات کی تعداد 10 گنا زیادہ تھی جس کی وجہ سے 2019 ء میں لاہور کو دنیا سب سے زیادہ آلودہ شہر سمجھ لیا گیا تھا مگر اب اس درجہ بندی میں نئی دہلی پہلے نمبر پر ہے جس کی وجہ دیوالی کا تہوار ہے جس میں بے تحاشا پٹاخے چلائے جاتے ہیں۔آئی کیو ائر کی نئی فہرست میں 10 آلودہ ترین شہروں میں لاہور اور کراچی بھی شامل ہیں۔
ہمارے مذہب اسلام کی ایک خاصیت یہ بھی ہے کہ یہ ہمہ قسم کی آلودگی، غلاظت اور نجاست سے بچنے کی ترغیب دیتا ہے۔ نبیِ کریمؐ لباس، جسم اور خیالات تک کی طہارت کو پسند فرماتے۔ نبیِ مکرّمؐ نے نجاست سے بچنے کی تلقین فرمائی ہے۔ سیرت النبیؐ کا مطالعہ کریں تو معلوم ہو گا کہ آپؐ نے کسی سایہ دار درخت کے نیچے بھی پیشاب کرنے سے منع فرمایا ہے، یہی نہیں بلکہ آپؐ نے پیشاب میں بے احتیاطی کرنے کو بھی جہنّم میں جانے کا سبب بیان فرمایا ہے۔
انسان خوشبوؤں کو پسند کرتا ہے، لوگ معطّر فضاؤں میں فرحت اور تازگی محسوس کرتے ہیں۔ اب تو جدید سائنس یہ بھی ثابت کر چکی ہے کہ ہر جان دار کے بدن سے ایک کیمیائی مادہ خارج ہوتا ہے جسے فیرامون کہتے ہیں۔ ہر انسان کے فیرامون کی اپنی باس ہوتی ہے۔ یہ فیرامون نامی مادہ کسی بھی انسان کی شخصیت کو مسحور کن بنانے میں نمایاں کردار ادا کرتا ہے۔ احمد مشتاق نے بدن کی خوشبو کو یوں بیان کیا ہے۔
رات پھر رنگ پہ تھی اس کے بدن کی خوشبو
دل کی دھڑکن تھی کہ اُڑتے تھے لہو میں جگنو
بدن سے اٹھنے والی فیرامون فرحت آمیز نہیں ہو گی تو لوگ اس سے کنّی کترائیں گے۔ کسی بھی انسان کی مجموعی طور پر صفائی ستھرائی اور پاکیزہ طرزِ زندگی سے ہی اس کی فیرامون کی باس خوش گوار احساس دے سکتی ہے۔ سو صاف رکھیے اپنے جسم، گھر، گلی، محلّے، شہر اور ملک کو، اس کے ساتھ ساتھ اپنے خیالات کو بھی آلودگی سے بچائیے! مثبت سوچ اور عمدہ فکر ہی صحت مند زندگی اور عظیم معاشرے کی تشکیل میں ممدومعاون ثابت ہوا کرتی ہیں۔
(حیات عبداللہ… انگارے)
 
					 
			 
								 
							 
							 
							 
							 
							 
							




 
				 
				 
				 
				 
				 
				 
				 
				 
				 
				 
				 
				 
				 
				 
				 
				 
				 
				 
				 
				 
				 
				 
				 
				 
				 
				 
				 
				 
				 
				 
				 
				 
				 
				