دفاع صحابہ بزبان قرآن
صحابہ کرام وہ مقدس اور پاکیزہ ہستیاں ہیں، جن کی عظمت و شان کو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی فرامین میں بیان کیا ہے، اللہ نے اپنے کلام میں صحابہ کرام کا بھرپور دفاع کیا ہے اور ان کے مرتبے کو بلند کیا ہے، اللہ تعالیٰ نے یہ واضح کر دیا ہے کہ قیامت تک کسی بھی شخص کی زبان کو ان پاکباز ہستیوں کے خلاف کچھ کہنے کی جرات نہیں ہے، اللہ نے ان کی جنت کا فیصلہ پہلے ہی سنا دیا ہے اور جو شخص ان کے بارے میں برا بھلا کہے گا یا ان کی عزت میں کسی قسم کی کمی کرے گا، وہ اپنی آخرت کو تباہ کر لے گا۔
(1) صحابہ کرام پر منافقین کا طنز اور قرآن کا نزول:
غزوۃ تبوک کے موقع پر جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انفاق کی اپیل کی تو بڑے بڑے مال دار منافقین ہاتھ سکیڑ کر بیٹھ رہے، لیکن مخلص اہل ایمان مال لانے لگے تو یہ ان پر باتیں چھانٹنے لگے، جب کوئی شخص زیادہ مال لاتا تو یہ منافقین اسے ریا کار کہتے تھے اور جب کوئی تھوڑا مال یا غلہ لا کر پیش کرتا تو یہ کہتے کہ بھلا اللہ کو اس کی کیا ضرورت ہے؟ دونوں صورتوں میں مذاق اڑاتے تھے اور ٹھٹھا کرتے تھے۔ یہ وہ موقع تھا جب عمر رضی اللہ عنہ اپنا نصف مال لے آئے تھے، اس خیال سے کہ اگر بڑھ سکا تو آج ابوبکر رضی اللہ عنہ سے بڑھ جاؤں گا، جب ابوبکر رضی اللہ عنہ آئے تو گھر کا سارا مال لے آئے تھے، اسی دوران غزوۃ تبوک کی تیاری کے وقت عثمان رضی اللہ عنہ نے ایک ہزار دینار لا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جھولی میں رکھ دیے ہیں۔ اس وقت صحابہ کرام کی دفاع میں اللہ تعالیٰ آیت نازل کی تھی۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
“اَلَّذِيۡنَ يَلۡمِزُوۡنَ الۡمُطَّوِّعِيۡنَ مِنَ الۡمُؤۡمِنِيۡنَ فِى الصَّدَقٰتِ وَالَّذِيۡنَ لَا يَجِدُوۡنَ اِلَّا جُهۡدَهُمۡ فَيَسۡخَرُوۡنَ مِنۡهُمۡؕ سَخِرَ اللّٰهُ مِنۡهُمۡ وَلَهُمۡ عَذَابٌ اَلِيۡمٌ. اِسۡتَغۡفِرۡ لَهُمۡ اَوۡ لَا تَسۡتَغۡفِرۡ لَهُمۡؕ اِنۡ تَسۡتَغۡفِرۡ لَهُمۡ سَبۡعِيۡنَ مَرَّةً فَلَنۡ يَّغۡفِرَ اللّٰهُ لَهُمۡؕ ذٰلِكَ بِاَنَّهُمۡ كَفَرُوۡا بِاللّٰهِ وَرَسُوۡلِهٖؕ وَاللّٰهُ لَا يَهۡدِى الۡقَوۡمَ الۡفٰسِقِيۡنَ” [سوة التوبة: 79,80]
«وہ لوگ جو صدقات میں خوش دلی سے حصہ لینے والے مومنوں پر طعن کرتے ہیں اور ان پر بھی جو اپنی محنت کے سوا کچھ نہیں پاتے، سو وہ ان سے مذاق کرتے ہیں۔ اللہ نے ان سے مذاق کیا ہے اور ان کے لیے درد ناک عذاب ہے۔ ان کے لیے بخشش مانگ، یا ان کے لیے بخشش نہ مانگ، اگر تو ان کے لیے ستر بار بخشش کی دعا کرے گا تو بھی اللہ انھیں ہرگز نہ بخشے گا۔ یہ اس لیے کہ انھوں نے اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ کفر کیا اور اللہ نافرمان لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا»
(2) صحابہ کرام کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تنبیہ:
سورۃ عبس نابینا صحابی عبداللہ بن ام مکتوم رضی اللہ عنہ کے بارے میں اتری تھی، ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مشرکین میں سے ایک بڑا آدمی بیٹھا تھا کہ ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ آئے اور کچھ مسائل پوچھنے لگے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی طرف سے منہ پھیر لیا اور توجہ اس بڑے آدمی کی طرف رکھی، اس پر یہ سورت اتری تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو صحابہ کرام کے بارے میں تنبیہ کی ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
“عَبَسَ وَتَوَلّٰٓى ۞ اَنۡ جَآءَهُ الۡاَعۡمٰىؕ ۞ وَمَا يُدۡرِيۡكَ لَعَلَّهٗ يَزَّكّٰٓى”[سورة عبس: 3-1]
«اس نے تیوری چڑھائی اور منہ پھیر لیا۔ اس لیے کہ اس کے پاس اندھا آیا۔اور تجھے کیا چیز معلوم کرواتی ہے شاید وہ پاکیزگی حاصل کر لے»
(3) سیدنا عائشہ رضی اللہ عنھا کی دفاع قرآن سے:
جب سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا پر منافقین کی طرف تہمت لگائی گئی تھی، اس دوران نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی سخت پریشانی میں مبتلا تھے، اور امی عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا نے رو رو کر اپنی بری حالت کر لی تھی، لیکن آسمان سے اللہ تعالیٰ نے وحی نازل فرما کر دفاع کیا تھا۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
“اِنَّ الَّذِيۡنَ جَآءُوۡ بِالۡاِفۡكِ عُصۡبَةٌ مِّنۡكُمۡ ؕ لَا تَحۡسَبُوۡهُ شَرًّا لَّـكُمۡ ؕ بَلۡ هُوَ خَيۡرٌ لَّـكُمۡ ؕ لِكُلِّ امۡرِىٴٍ مِّنۡهُمۡ مَّا اكۡتَسَبَ مِنَ الۡاِثۡمِ ۚ وَالَّذِىۡ تَوَلّٰى كِبۡرَهٗ مِنۡهُمۡ لَهٗ عَذَابٌ عَظِيۡمٌ”[سورة النور: 11]
«بے شک وہ لوگ جو یہ بہتان لائے ہیں وہ تمھی سے ایک گروہ ہیں، اسے اپنے لیے برا مت سمجھو، بلکہ یہ تمھارے لیے بہتر ہے۔ ان میں سے ہر آدمی کے لیے گناہ میں سے وہ ہے جو اس نے گناہ کمایا اور ان میں سے جو اس کے بڑے حصے کا ذمہ دار بنا اس کے لیے بہت بڑا عذاب ہے»
(4) “صحابہ کی مجلس اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو تنبیہ”:
سیدنا سعد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مندرجہ ذیل آیت ہم چھ لوگوں کے بارے میں نازل ہوئی: میرے، ابن مسعود، صہیب، عمار، مقداد اور بلال رضی اللہ عنھم کے سلسلے میں، قریش کے لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ ہم ان کے ساتھ بیٹھنا نہیں چاہتے ہیں، آپ ان لوگوں کو اپنے پاس سے نکال دیجیے، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں وہ بات داخل ہوگئی جو اللہ تعالیٰ کی مشیت میں تھی تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
“وَلَا تَطۡرُدِ الَّذِيۡنَ يَدۡعُوۡنَ رَبَّهُمۡ بِالۡغَدٰوةِ وَالۡعَشِىِّ يُرِيۡدُوۡنَ وَجۡهَهٗ ؕ مَا عَلَيۡكَ مِنۡ حِسَابِهِمۡ مِّنۡ شَىۡءٍ وَّمَا مِنۡ حِسَابِكَ عَلَيۡهِمۡ مِّنۡ شَىۡءٍ فَتَطۡرُدَهُمۡ فَتَكُوۡنَ مِنَ الظّٰلِمِيۡنَ” [سورة الانعام: 52]
«اور ان لوگوں کو دور نہ ہٹا جو اپنے رب کو پہلے اور پچھلے پہر پکارتے ہیں، اس کا چہرہ چاہتے ہیں، تجھ پر ان کے حساب میں سے کچھ نہیں اور نہ تیرے حساب میں سے ان پر کچھ ہے کہ تو انھیں دور ہٹا دے، پس تو ظالموں میں سے ہو جائے» [صحيح مسلم: 2413، سنن ابن ماجة: 4128]
(5) “زید بن ارقم کا دفاع: قرآن سے شہادت”:
سیدنا زید بن ارقم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں غزوۃ تبوک میں شریک تھا، میں نے منافقوں کے سردار عبداللہ بن ابی کو یہ کہتے سنا ہے کہ جو لوگ مہاجرین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جمع ہیں ان پر خرچ نہ کرو تاکہ وہ خود ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جدا ہوجائیں گے۔ اس نے یہ بھی کہا اب اگر ہم مدینہ لوٹ کر جائیں گے تو عزت والا وہاں سے ذلت والوں کو نکال باہر کرے گا۔ میں نے اس کا ذکر اپنے چچا سعد بن عبادہ انصاری رضی اللہ عنہ سے کیا، انہوں نے اس کا ذکر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بلایا میں نے تمام باتیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سنا دیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عبداللہ بن ابی اور اس کے ساتھیوں کو بلایا، انہوں نے قسم کھالی ہے کہ انہوں نے اس طرح کی کوئی بات نہیں کہی تھی۔ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ کو جھوٹا سمجھا اور رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی کو سچا سمجھا۔ مجھے اس کا اتنا صدمہ ہوا کہ ایسا کبھی نہ ہوا تھا، پھر میں گھر میں بیٹھ رہا، میرے چچا نے کہا کہ میرا خیال نہیں تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تمہاری تکذیب کریں گے اور تم پر ناراض ہوں گے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے سورۃ المنافقون نازل کی تھی، اس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بلوایا اور اس سورت کی تلاوت کی اور فرمایا کہ اے زید! اللہ تعالیٰ نے تم کو سچا قرار دے دیا ہے۔ [صحيح البخاري: 4900]
ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
“يَقُوۡلُوۡنَ لَئِنۡ رَّجَعۡنَاۤ اِلَى الۡمَدِيۡنَةِ لَيُخۡرِجَنَّ الۡاَعَزُّ مِنۡهَا الۡاَذَلَّ ؕ وَلِلّٰهِ الۡعِزَّةُ وَلِرَسُوۡلِهٖ وَلِلۡمُؤۡمِنِيۡنَ وَلٰـكِنَّ الۡمُنٰفِقِيۡنَ لَا يَعۡلَمُوۡنَ” [المنافقون: 8]
«وہ کہتے ہیں یقینا اگر ہم مدینہ واپس گئے تو جو زیادہ عزت والا ہے وہ اس میں سے ذلیل تر کو ضرور ہی نکال باہر کرے گا، حالانکہ عزت تو صرف اللہ کے لیے اور اس کے رسول کے لیے اور ایمان والوں کے لیے ہے اور لیکن منافق نہیں جانتے»
(6) “وہ جن کے ایمان کو اللہ نے پسند فرمایا”:
آج کل ہر کس و ناکس صحابہ کرام کے ایمان پر اپنی زبانیں دراز کرتا ہے، تاکہ وہ گمراہ اور روافض کی طرف داد حاصل کر سکے اور اس کو شہرت ملے، ان چیزوں کی وجہ سے وہ دنیا کی پاکباز ہستیوں کے ایمان کے لیے ترازو قائم کرتا ہے، کہتا ہے کہ فلاں صحابی کا ایمان اس درجہ کا تھا، نعوذ باللہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد فلاں فلاں صحابی مرتد ہوگئے تھے۔
یاد رکھنا چاہیے کہ صحابہ کرام کوئی تاریخی شخصیات نہیں ہیں، بلکہ وہ قرآن شخصیات ہیں، ان پاکباز ہستیوں کے دلوں کو اللہ تعالیٰ نے ایمان کے لیے پرکھا تھا۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
“اِنَّ الَّذِيۡنَ يَغُضُّوۡنَ اَصۡوَاتَهُمۡ عِنۡدَ رَسُوۡلِ اللّٰهِ اُولٰٓئِكَ الَّذِيۡنَ امۡتَحَنَ اللّٰهُ قُلُوۡبَهُمۡ لِلتَّقۡوٰىؕ لَهُمۡ مَّغۡفِرَةٌ وَّاَجۡرٌ عَظِيۡمٌ” [الحجرات: 3]
«بے شک وہ لوگ جو اللہ کے رسول کے پاس اپنی آوازیں پست رکھتے ہیں یہی لوگ ہیں جن کے دل اللہ نے تقویٰ کے لیے آزما لیے ہیں، ان کے لیے بڑی بخشش اور بہت بڑا اجر ہے»
(7) “صحابہ کرام کا مثالی ایمان: کفر، فسق اور عصیان سے دوری”:
اللہ تعالیٰ کا امتحان لینے کے بعد ان کے دلوں میں ایمان کو مزین کردیا ہے، اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرام کے لیے کفر، فسق اور عصیان کو ناپسند کیا ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
“وَلٰـكِنَّ اللّٰهَ حَبَّبَ اِلَيۡكُمُ الۡاِيۡمَانَ وَزَيَّنَهٗ فِىۡ قُلُوۡبِكُمۡ وَكَرَّهَ اِلَيۡكُمُ الۡكُفۡرَ وَالۡفُسُوۡقَ وَالۡعِصۡيَانَؕ اُولٰٓئِكَ هُمُ الرّٰشِدُوۡنَۙ” [الحجرات: 7]
«اور لیکن اللہ نے تمھارے لیے ایمان کو محبوب بنا دیا اور اسے تمھارے دلوں میں مزین کر دیا اور اس نے کفر اور گناہ اور نافرمانی کو تمھارے لیے ناپسندیدہ بنا دیا، یہی لوگ ہدایت والے ہیں»
(8) “ایمانِ صحابہ پر سوال ، ربِ جلیل کا جواب”:
جب منافقین سے کہا گیا تھا کہ صحابہ کرام کی طرح ایمان لائیں تو انہوں نے کہا ہے کہ ہم ان بے وقوف لوگوں کی طرح ایمان لائیں۔ تو فوراً اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
“وَاِذَا قِيۡلَ لَهُمۡ اٰمِنُوۡا كَمَاۤ اٰمَنَ النَّاسُ قَالُوۡاۤ اَنُؤۡمِنُ كَمَاۤ اٰمَنَ السُّفَهَآءُ ؕ اَلَاۤ اِنَّهُمۡ هُمُ السُّفَهَآءُ وَلٰـكِنۡ لَّا يَعۡلَمُوۡنَ” [البقرة: 13]
«اور جب ان سے کہا جاتا ہے ایمان لائو جس طرح لوگ ایمان لائے ہیں، تو کہتے ہیں کیا ہم ایمان لائیں جیسے بے وقوف ایمان لائے ہیں؟ سن لو! بے شک وہ خود ہی بے وقوف ہیں اور لیکن وہ نہیں جانتے»
(9) “اللہ کا فیصلہ: سچا ایمان صحابہ کا ایمان ہے”:
ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
“وَالَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا وَهَاجَرُوۡا وَجٰهَدُوۡا فِىۡ سَبِيۡلِ اللّٰهِ وَالَّذِيْنَ اٰوَوْا وَّنَصَرُوۡۤا اُولٰۤئِكَ هُمُ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ حَقًّا ؕ لَّهُمۡ مَّغۡفِرَةٌ وَّرِزۡقٌ كَرِيۡمٌ” [الأنفال: 74]
«اور جو لوگ ایمان لائے اور انھوں نے ہجرت کی اور اللہ کی راہ میں جہاد کیا اور وہ لوگ جنھوں نے جگہ دی اور مدد کی وہی سچے مومن ہیں، انھی کے لیے بڑی بخشش اور باعزت رزق ہے»
(10) “قرآنی گواہی: صحابہ کرام کے پاک دل”:
ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
“اِذۡ جَعَلَ الَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا فِىۡ قُلُوۡبِهِمُ الۡحَمِيَّةَ حَمِيَّةَ الۡجَـاهِلِيَّةِ فَاَنۡزَلَ اللّٰهُ سَكِيۡنَـتَهٗ عَلٰى رَسُوۡلِهٖ وَعَلَى الۡمُؤۡمِنِيۡنَ وَاَلۡزَمَهُمۡ كَلِمَةَ التَّقۡوٰى وَ كَانُوۡۤا اَحَقَّ بِهَا وَاَهۡلَهَاؕ وَكَانَ اللّٰهُ بِكُلِّ شَىۡءٍ عَلِيۡمًا” [الفتح: 26]
«جب ان لوگوں نے جنھوں نے کفر کیا، اپنے دلوں میں ضد رکھ لی، جو جاہلیت کی ضد تھی تو اللہ نے اپنی سکینت اپنے رسول پر اور ایمان والوں پر اتار دی اور انھیں تقویٰ کی بات پر قائم رکھا اور وہ اس کے زیادہ حق دار اور اس کے لائق تھے اور اللہ ہمیشہ سے ہر چیز کو خوب جاننے والا ہے»
تحریر: افضل ظہیر جمالی