كُل جماعتی دفاعِ شعائر اللہ اعلامیہ
اَلْحَمْدُ ِللهِ رَبِّ الْعَالَمِيْنَ ، وَالْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِيْنَ ، وَالصَّلاَةُ وَالسَّلاَمُ عَلٰى خَاتَمِ الْأَنْبِيَاءِ وَالْمُرْسَلِيْنَ ، وَعَلٰى آلِهٖ وَأَصْحَابِهٖ أَجْمَعِيْنَ، أَمَّا بَعْدُ:
مورخہ8 صفر 1447ھ بمطابق 3 اگست 2025ء، بروز اتوار، بمقام: مرکز قرآن وسنہ (53 لارنس روڈ) لاہور، پاکستان
’’رسول کریمﷺ، صحابہ کرام واہل بیت عظام اور شعائر اسلامیہ کی توہین، تنقیص اور تعریض کی شرعی وقانونی حیثیت‘‘
کے عنوان پر تمام مکاتب فکر کے علماء ومشائخ، جماعتوں کے قائدین اور دانش وروں کا یہ متفقہ اعلامیہ پیشِ خدمت ہے:
اسلام کتاب وسنت کا نام ہے
[1]۔ کتاب وسنت پرعمل پیرا ہونا، اس کی نشر واشاعت اور غالب کرنے کی کوشش کرنا ہر مسلمان کا بنیادی دینی فریضہ ہے۔ فروغِ اسلام اور حفاظتِ دین کے لیے کتاب وسنت کی روشنی میں امر بالمعروف ونہی عن المنکر ملتِ اسلامیہ کا منہاج ہے۔
[2]۔ حفاظتِ دین کے پیش نظر تحفظِ ناموسِ رسالتﷺ ، دفاعِ صحابہ و اہلِ بیت اور تعظیم شعائرِ اسلام کی جدوجہد واجباتِ شرعیہ میں سے ہے۔
1- ناموسِ رسالتﷺ اورمنصبِ نبوت کا تحفظ
- خاتم الرسل و الانبیاء ﷺ کو ہر قسم کے نظریات و شخصیات پر مقدم رکھنے، غیر مشروط محبوب ومطاع۔
- [3] ماننے اور ثابت کرنے کی جدوجہد؛ ناموسِ رسالت و منصبِ رسالت پر ایمان کا بنیادی تقاضا ہے۔
- عقل، فطرت، لغت اور تاریخ کے بالمقابل حدیثِ نبوی کی حجیت کاصراحتاً و ارادتاً انکار کرنا۔
- [4]، کلی انحراف یا استہزا کرنا ، توہینِ نبوت کے مترادف اور منصب ِ نبوت پر ڈاکہ زنی ہے۔ ایسا کرنے والا ملتِ اسلامیہ سے خارج ہے۔ اسی طرح کتاب وسنت کے مسلّمات اور اجماعِ اُمت۔
- [5]کے خلاف محاذ آرائی سراسرگمراہی ہے۔ جبکہ کنایتاً ًجزوی طور پر انکار کرنے والا گمراہ ہے۔
- کتاب وسنت اور اجماعِ اُمت کی روشنی میں مسلمانوں کا یہ بنیادی عقیدہ ہے کہ حضرت محمد ﷺ اللہ تعالیٰ کے برحق آخری رسول ہیں۔ آپ ﷺ کے بعد سلسلۂ نبوت اور وحیِ نبوت نہ صرف منقطع ہوا ہے بلکہ مکمل ختم ہو چکا ہے۔ لہٰذا اب جو شخص عقیدہ ختمِ نبوت کاانکار کرے اور یہ سمجھے کہ آپ ﷺ کے بعد کوئی نیا رسول یا نبی آ سکتا ہے اُس کے کافر، مرتد اور زندیق ہونے میں کوئی شبہ نہیں ہے۔
- [6] شانِ رسالت میں صراحتاًوارادتاً توہین، تنقیص اور تعریض
- [7] کرنا کفر، ارتداد، عہد شکنی اور دین دشمنی ہے، جس کا مرتکب شرعی اعتبار سے سزائے موت
- [8] کا حق دار ہے ، البتہ اس سزاکااختیارعدالت اور حکومت کوحاصل ہے۔
2- توہینِ رسالت کے مجرموں کی فوری سزا
- حالیہ بلاسفیمی سازش کا سدباب کرنا، پاکستانی مسلم حکومت کی آئینی وقانونی ذمہ داری ہے۔
- توہینِ ناموسِ رسالتﷺ کو روکنے اور عالمی سطح پر اسے جرم تسلیم کروانے کے لیے حکومت کو اپنا بھرپور کردار ادا کرنا چاہیے۔
- جن مجرموں کوسزا سنائی جاچکی ہے، ان پر قانون وشریعت کی رو کے مطابق فوری عمل کیا جائے۔
- توہینِ مقدسات سے متعلقہ زیرِسماعت مقدمات کا بلا تاخیر فیصلہ کیا جائے۔
- قانون توہینِ رسالت کو غیرمؤثر بنانے اور ترمیم کروانے کی کوشش کرنے والے پروٹیکشن گروپ کی اندرونی وبیرونی فنڈنگ کو بند کیا جائے، سوشل میڈیا وغیرہ پر ایسے توہین آمیز مواد اوراس کو پھیلانے والے عناصر پر فوری پابندی لگائی جائے اور قرار واقعی سزا دی جائے۔
- توہینِ رسالت کیسز کی غیرمعمولی اہمیت کے پیش نظر بین المسالک تحفظ ”شعائر اللہ فورم“ قائم کرکے متحرک کیا جائے۔
3- مقامِ صحابہ واہل بیت رضی اللہ عنہم
- انبیاء کرام oکے بعد جملہ صحابہ کرام واہل بیت عظام رضی اللہ عنہم واجب الاحترام اور افضل ترین
- [10] نفوسِ قدسیہ ہیں، جنہیں اللہ تعالیٰ نے سید المرسلین ﷺ کی رفاقت
- [11] وصحبت، تبلیغ اور اقامتِ دین کے لیے چنا[12]۔
- وہ رسول اللہ ﷺ کی تربیت کا بہترین ثمر، اللہ تعالیٰ کی جماعت
- [13] اور معیارِ ایمان[14] ہیں۔
- ان کو مغفرتِ ذنوب[15] اورجنت کی حتمی بشارتوں، الفائزون، المفلحون، رضي الله عنهم
- [16] اور وکُلًّا وَّعَدَ اللهُ الحُسْنٰی[17] کی سندیں حاصل ہیں۔
- اگرچہ ان کے ایمانی اور اُخروی درجات میں تفاوت ہے، جیسا کہ خلفائے راشدین
- [18]، عشرہ مبشرہ[19]، اہلِ بیت[20]، اصحابِ بدر اور اصحابِ شجرة ] وغیرہ۔ یہ سب کے سب اللہ تعالیٰ سے راضی اور اللہ تعالیٰ ان سے راضی ہے۔
- وہ تفسیر، حدیث، فقہ اور علم وعمل کے ہر شعبہ میں سب سے بڑے اور اوّلین امام[21] ہیں۔
- صحابہ کرام واہل بیت رضی اللہ عنہم نبوت کے عینی گواہ اور سفیر ہیں، نزول ِ قرآن کے اولین مخاطب، حاضرینِ مجلس اور براہِ راست دین سمجھنے والے اور عدالت وامانت کے ساتھ اسےآگے نقل کرنے والے ہیں۔
- ملتِ اسلامیہ کو انہی کی بیان کردہ روایاتِ دین کے ذریعے اسلام اور اس کے جملہ احکام واعمال کی نعمت ملی۔ لہٰذا ان کے بعد ہونے والی تمام نیکیوں کا اجر اُن کو ملتا[22] ہے۔
- صحابہ کرام واہل بیت رضی اللہ عنہم کی اتباع کرنے والے محدثین ، مفسرین، فقہاء، زُہاد؛ اہل السنّہ والجماعہ اور ملتِ اسلامیہ کے مقتدیٰ و رہنما ہیں۔
- صحابہ کرام واہل بیت رضی اللہ عنہم کا روایتِ دین اور فکر وعمل میں منہج اختیار کرنا اسلام کی اساس ہے۔[23]
- جنتی گروہ صرف وہی ہے جو صحابہ کرام واہل بیت عظام کے راستے [24] پر رہے۔
4- صحابہ واہلِ بیت رضی اللہ عنہم کے متعلق اہل السنّہ والجماعہ کا اجماعی عقیدہ
- تمام صحابہ کرام اور اہلِ بیت رضی اللہ عنہم عادل[25] اور امین ہیں۔
- ان سے محبت کرنا دین[26]، ایمان، احسان[27] اور شرعی فریضہ ہے۔
- وہ رسول کریم ﷺکو سب سے زیادہ محبوب[28] ہیں، ان سے بغض رکھنا اللہ کے غیظ وغضب اور قہرو عذاب کا موجب ہے۔
- سیدنا ابوبکر، سیدنا عمر، سیدنا عثمان، سیدنا علی، سیدنا طلحہ، سیدنا زبیر، سیدنا حسن، سیدنا حسین، سیدنا ابوسفیان، سیدنا معاویہ، سیدنا عمروبن عاص، سیدنا مغیرہ بن شعبہ، سیدنا عمار بن یاسر، سیدنا ابو موسیٰ اشعری، سیدہ عائشہ و دیگر اُمہات المومنین اور جمیع صحابہ کرام و اہلِ بیت عظام رضی اللہ عنہم
- [29] میں سے کسی کی شان میں کسی بھی پلیٹ فارم پر صراحتاًیا اشارۃً توہین، تنقیص[30]اور تعریض کرنا بدعت، نفاق، طغیان اور اسلام میں طعنہ زنی و دین دشمنی ہے[31]۔
- ان پر تبرّا کرنا، تہمت لگانا[32]، تکفیر کرنا، اعتراضات اٹھانا اور ان کی عدالت و ثقاہت کی بابت شبہات
- [33] پیدا کرنا؛ ایمان کے منافی، اُمتِ مسلمہ کے اجماعی عقیدہ سے انحراف، موجبِ فسق ونفاق اور بدعت وضلال ہے۔
5- مشاجراتِ صحابہ سےمتعلق اہل السنّہ والجماعہ کا عقیدہ ومنہج
- صحابہ کرام واہلِ بیت عظام رضی اللہ عنہم کا باہمی اختلاف کتاب وسنت کی اطاعت و اتباع اور عقائد واُصول میں نہیں تھا بلکہ انتظامی اجتہادی امور میں تھا جو کہ فقہ الواقع کا تجزیہ کرنے کی بنا پر تھا [34]، لہٰذا مشاجراتِ صحابہ کے بارے صرف خیر کی بات کرنا یا خاموش رہنا [35] اہل السنّہ والجماعہ کا اجماعی عقیدہ ومنہج[36] ہے جبکہ مشاجراتِ صحابہ میں بحث ونظر کرنا امت کو اعتقادی وعملی فتنہ میں مبتلا کرنا ہے۔[37]
- صحابہ کرام واہلِ بیت عظام رضی اللہ عنہم کے اختلاف کو بنیاد بناکر ان میں سے کسی کی توہین، تنقیص، تعریض کرنا، کسی بھی قسم کا تجزیہ وتبصرہ یا تحقیقات پیش کرنا اور زبان درازی کرنا سراسر باطل عمل اور واضح گمراہی ہے [38] کیونکہ اختلافات میں ہر دو طرف کے صحابہ کرام واہلِ بیت عظام رضی اللہ عنہم علم ،اخلاص اور خیر خواہی کی بنیاد پر مجتہد ہونے کے ناطے سے اکہرے یا دوہرے اجر سے کبھی محروم نہیں رہے۔ [39]
6- صحابہ کرام واہلِ بیت رضی اللہ عنہ کی توہین وتنقیص کرنے والا سنگین سزا کا مستحق ہے!
- صحابہ کرام و اہل بیت عظام رضی اللہ عنہم کی صراحتاً و کنایتاً توہین و تنقیص، شرعی[40] قانونی سزا کی موجب ہے۔
- تاریخ اسلامیہ میں ایسے بدبختوں کو ہمیشہ سنگین سزاؤں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
- اکثر بلادِ اسلامیہ میں نافذ العمل قوانین کی طرح پاکستان میں قانونی عمل کو مکمل کیا جائے۔
- پاکستانی اسمبلیوں میں ناموسِ صحابہ واہل بیت بِل 1993ء، تحفظِ بنیادِ اسلام بِل 2020ء پیش ہوئے ہیں۔
تحفظِ ناموسِ صحابہ واہلِ بیت ایکٹ 2023ء وغیرہ منظوری کے بعد ایوان صدر میں دستخط نہ ہونے کی بنا پر دوسالوں سے التوا کا شکار ہے، جس کو مکمل کرکے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے گستاخوں پرشرعی اور قانونی سزا فوری نافذ کی جائے۔
7– صحابہ کرام واہل بیت عظام رضی اللہ عنہم کی توہین، تنقیص اور تعریض کرنے والا، اہل السنّہ والجماعہ کے منہج، مسلَّمات اور اجماعی عقائد سے منحرف اور گمراہ ہے، اس کا اہل السنّہ والجماعہ سے کوئی تعلق نہیں!
- خواہ وہ کوئی عام آدمی ہو یا کوئی خطیب وواعظ اور ذمہ دار ہو، یا کسی ادارے، تنظیم اورجماعت کا فرد ہو۔
- ایسے ہر شخص کی تمام اہلِ سنت مکاتبِ فکر ہر مجلس میں خوب سرزنش اور مکمل بائیکاٹ کریں۔
- نصیحت کے لوازمات مکمل کرکے توبہ پر آمادہ کیا جائے، بصورت دیگر شرعی وقانونی سزا کے اقدامات کریں۔
8 – اہل السنّہ والجماعہ کا منہاج افراط و تفریط سے پاک ہے!
- ہم رافضیوں (شیخین یا کسی بھی صحابی سے بغض و عداوت رکھنے والوں) ، ناصبیوں (اہلِ بیت سے بغض اور دشمنی رکھنے والوں) اور ان کے ہم نواؤں کے فکر و عمل سے کھلا اظہارِ براءت
- [41] کرتے ہیں اور ان کی مجلسوں میں شرکت کی سختی سے نفی کرتے ہیں۔
- اہل السنّہ والجماعہ سیدنا عمر فاروق، سیدنا عثمان غنی اور سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہم کے قاتلوں، ان کے معاونین اور ان کی شہادت پر راضی ہونے والوں سے مکمل براءت کا اظہار کرتے اور یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ ان کے قاتلوں نے خلافتِ اسلامیہ اور اُمتِ مسلمہ کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا ہے۔
- نواسۂ رسول اور نوجوانانِ جنت کے سردار سیدنا حسین رضی اللہ عنہ پر ظلم وستم ڈھانے والوں کے بارے میں ہمارا وہی موقف ہے جو اہل السنّہ والجماعہ کے سرخیل شیخ الاسلام ابنِ تیمیہ رحمہ اللہ نے فرمایا ہے:
“وَأَمَّا مَنْ قَتَلَ الْحُسَیْنَ أَوْ أَعَانَ عَلٰی قَتْلِہٖ أَوْ رَضِیَ بِذٰلِكَ فَعَلَیْہِ لَعْنَۃُ اللّٰہِ وَالْمَلَائِکَۃِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِینَ؛ لَا یَقْبَلُ اللّٰہُ مِنْہُ صَرْفًا وَلَا عَدْلًا.”(مجموع الفتاوی لابن تیمیہ: 4/487)
”جس نے بھی سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کو شہید کیا، یا ان کی شہادت میں کسی طرح کی کوئی مدد کی، یا ان کی شہادت پر وہ کسی درجے میں خوش ہوا تو اس پر اللہ تعالیٰ ، ملائکہ اور تمام لوگوں کی لعنت ہو۔ اللہ تعالیٰ اس کی کوئی فرضی اور نفلی عبادت قبول نہ فرمائے۔”
9- تحفظِ شعائرِ اسلام
- شعائر اللہ اسلام کے ستون اور نظریاتی سرحدیں ہیں۔ قرآن، حرمین شریفین، مساجد، ارکانِ اسلام، قربانی، داڑھی اور حجاب و پردہ وغیرہ دین اسلام کی پہچان اور امتیازی علامتیں ہیں، جن کی تعظیم تقویٰ کا تقاضا [42]اور ان کی بے حرمتی صریحاً گمراہی اور بہت بڑی نافرمانی ہے [43]۔
- شعائر اسلام میں سے کسی ایک کی بھی صراحتاً وارادتاً تحقیر وتضحیک اور استہزا وتمسخر [44] اسلام کی اساسیات پر حملہ اور اُنہیں مسمار کرنا ہے جو کہ موجبِ ارتداد وکفر [45] یا باعثِ فسق ونفاق ہے۔
- بالخصوص قرآنِ کریم کی اہانت کرنا صریح کفر ہے [46]، جیسے اسے گندگی میں پھینکنا، روندنا، مذاق اُڑانا، شرمناک جگہوں پر لکھنا وغیرہ۔
- اسی طرح مساجد میں فلمیں بنانا، اُنہیں تفریحی مقام سمجھنا
- [47] اور ان میں مرد و زن کا فحش حرکات کرنا [48] مسجد کے تقدس کے منافی ہے۔
- موجودہ عالمی ماحول میں آزادی اظہار کے نام پر اسلام اور اس کے شعائر کو تضحیک، تحقیر اور تمسخر کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، جو دراصل امتِ مسلمہ کی دینی شناخت پر حملہ ہے۔ جبکہ مسلمانوں نے ہر دور میں شعائرِ دین کے تحفظ کو جان و مال سے مقدم رکھا؛ یہ صرف جذباتی غیرت نہیں بلکہ ایمانی ذمہ داری اور اسلامی شعور کا مظہر ہے۔ لہٰذا اس کا دفاع واجب ہے، کیونکہ ان کی بے حرمتی سے تعلیماتِ شرعیہ کے تشخص کا خاتمہ ہوتا ہے، تہذیبِ اسلامی کا وقار ختم ہوتا ہے اور دین کے اصولوں اور اساسیات میں بگاڑ پیدا ہوتا ہے۔
تجاویز وسفارشات
- بین المسالک تحفظِ شعائرِ اسلام فورم بنایا جائے جو شرعی قانون سازی کروانے اور پہلے سے موجود قوانین پر عمل درآمد کی مؤثر تحریک چلائے۔
- اس حوالے سے عوامی سطح پر موجود شکوک وشبہات کے تدارک کےلیے علماء وداعیانِ دین کی تحقیقی مجالس کا انعقاد کرے۔
- علمائے کرام رفع شبہات کی بابت علمی و تحقیقی کتب، مضامین اور تعلیمی اداروں کے لیے نصابی لٹریچر تیار کریں ۔
- جبکہ داعیانِ دین دفع شبہات کے لیے تمام اسباب و ذرائع؛ خصوصاً سوشل میڈیا کے پلیٹ فارمز پر رِیلز، شارٹ کلپس اور پوڈ کاسٹس کے ذریعے مضبوط جدوجہد کریں۔
اہم قرار دادیں
- توہینِ رسالت کے مرتکبین کی سہولت کاری اور قانونِ توہینِ رسالت کو غیرمؤثر بنانے کے لیے عدالتی کمیشن بنانا،
سنگین جرائم کا ارتکاب کرنے والوں کی ہم نوائی ہے۔
- مسجد اقصیٰ اور اس کے گرد ونواح میں ہونے والے ظلم کی شدید مذمت کرتے ہیں۔ مسلمانوں کی نسل کشی کے ساتھ ساتھ مسجد اقصیٰ پر یہود کا تسلط ناقابلِ قبول ہے۔ اسی طرح دنیا بھر کی مساجد کے تقدس کی حفاظت اُمتِ مسلمہ اور مسلم حکمرانوں کی ذمہ داری ہے۔
- ٹرانس جینڈر بِل، عورت مارچ اور دیگر ذرائع سے پھیلائے جانے والی بے حیائی کی مذمت کرتے ہیں۔
- پرائیویٹ یا سرکاری تعلیمی اداروں میں طلبہ پر تشدد ناقابل تلافی نقصان ہے۔
- جرگے اور پنچایت کے حکم پر غیرت کے نام پر قتل کرنا ظلم و زیادتی ہے، جس کی ہم مذمت کرتے ہیں۔
قرآن و سنہ موومنٹ پاکستان کی طرف سے دفاعِ شعائر اللہ سیمینار میں پریس اور میڈیا کے لیے پیش کی جانے والی تجاویز و سفارشات
- تحفظ ناموسِ رسالتﷺ، دفاعِ صحابہ و اہل بیت رضی اللہ عنہم اور تعظیم شعائر اسلام کی جد و جہد واجباتِ شرعیہ میں سے ہے اور ہمارے ایمان کا تقاضا ہے۔
- رسول کریمﷺ کی توہین،تنقیص اور تعریض کرنا ملت اسلامیہ سے خارج ہونے کا سبب ہے، مسلمانوں کے جذبات مجروح کرنے اور وطن عزیز کے امن کو خراب کرنے کا باعث ہے۔
- صحابہ کرام و اہلِ بیت عظام رضی اللہ عنہم اور شعائرِ اسلام کی توہین، تنقیص اور تعریض کرنا صریحاً گمراہی ہے اور بین المسالک فساد پیدا کرنے کی ناپاک کوشش ہے۔
- حالیہ بلاسفیمی کیسز میں سازش کا سد باب کرنا پاکستانی مسلم حکومت کی ذمہ داری ہے۔
- توہین ناموسِ رسالت کو روکنے کے لیے عالمی سطح پر اسے جرم تسلیم کروانے کے لیے حکومت کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔
- بلاسفیمی کیسز میں جن مجرموں کوسزا سنائی جاچکی ہے، ان پر فوری عمل کیا جائے۔
- توہین سے متعلقہ زیرِ سماعت مقدمات کا فوری فیصلہ کیا جائے۔
- جن مقدمات کے بارے میں شکوک وشبہات کا اظہار کیا جارہا ہے ان کے بارے میں علماء کمیٹی کی موجودگی میں غور کرکے ان کے تحفظات کو دور کرنے کا اہتمام کیا جائے۔
- توہینِ رسالت کیسز کے ملزمان کو عدالت کے فیصلے سے پہلے گستاخ قرار دینا اور قتل کرنا شرعاً و قانوناً بہت بڑا جرم ہے۔
- قانون توہینِ رسالت کو غیرمؤثر بنانے اور ترمیم کروانے کی کوشش کرنے والے پروٹیکشن گروپ کی اندرونی وبیرونی فنڈنگ کو بند کیا جائے اور سوشل میڈیا وغیرہ پر ایسے توہین آمیز مواد اور اس کو پھیلانے والے عناصر پر فوری پابندی لگائی جائے اور قرار واقعی سزا دی جائے۔
- اس مسئلے کی غیرمعمولی اہمیت کے پیش نظر بین المسالک ’’تحفظ شعائر اللہ فورم‘‘ قائم کر کے متحرک کیا جائے۔
- حکومت سے اپیل کی جاتی ہے کہ اس مسئلے کی حساسیت کے پیش نظر اسی قدر ذمہ داری کا مظاہرہ کیا جائے اور شعائر اللہ کی تعظیم و تقدیس کو یقینی بنایا جائے۔
داعیان:
{ علامہ حافظ ابتسام الٰہی ظہیر (چیئرمین قرآن و سنہ موومنٹ پاکستان)
{شیخ الحدیث مولانا محمد شفیق مدنی (مفتی ٔ جماعت پاکستان)
{ڈاکٹرحافظ حمزہ مدنی (وائس چیئرمین پاکستان)
{ڈاکٹرحافظ انس نضرمدنی (ناظم دعوت و تبلیغ پاکستان)
{ڈاکٹرحافظ شفیق الرحمن زاہد (چیئرمین پنجاب)
قرآن وسنت، آثار صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور اقوال ائمہ اسلاف رحمہم اللہ مع حوالہ جات
[1] «تَرَكْتُ فِيكُمْ أَمْرَيْنِ لَنْ تَضِلُّوا مَا تَمَسَّكْتُمْ بِهِمَا: كِتَابَ اللّٰهِ وَسُنَّةَ رَسُولِهِ» (مؤطا امام مالك: 3338)، (سلسة الأحادیث الصحیحة: 1761)
[2] ﴿وَلْتَكُنْ مِنْكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ﴾ (آل عمران: 104)
[3] ﴿ يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَلَا تُبْطِلُوا أَعْمَالَكُمْ﴾ (محمد: 33)
عَنْ أَبِي سَعِيدِ بْنِ المُعَلَّى t، قَالَ: كُنْتُ أُصَلِّي فَمَرَّ بِي رَسُولُ اللّٰہِ ﷺ فَدَعَانِي، فَلَمْ آتِهِ حَتَّى صَلَّيْتُ ثُمَّ أَتَيْتُهُ، فَقَالَ: ” مَا مَنَعَكَ أَنْ تَأْتِيَ؟ أَلَمْ يَقُلِ اللّٰہُ: ﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَجِيبُوا لِلّٰهِ وَلِلرَّسُولِ إِذَا دَعَاكُمْ﴾ (صحیح البخاری: 4647)
[4] «أَلَا هَلْ عَسَى رَجُلٌ يَبْلُغُهُ الْحَدِيثُ عَنِّي وَهُوَ مُتَّكِئٌ عَلَى أَرِيكَتِهِ فَيَقُولُ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ كِتَابُ اللّٰہِ فَمَا وَجَدْنَا فِيهِ حَلَالًا اسْتَحْلَلْنَاهُ وَمَا وَجَدْنَا فِيهِ حَرَامًا حَرَّمْنَاهُ وَإِنَّ مَا حَرَّمَ رَسُولُ اللّٰہِ ﷺ كَمَا حَرَّمَ اللَّهُ.» (جامع الترمذی: 2664)
[5] ﴿وَمَنْ يُشَاقِقِ الرَّسُولَ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدَىٰ وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيلِ الْمُؤْمِنِينَ نُوَلِّهِ مَا تَوَلَّىٰ وَنُصْلِهِ جَهَنَّمَ وَسَاءَتْ مَصِيرًا﴾ (النّساء: 115)
[6] ﴿مَا کَانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ اَحَدٍ مِّنۡ رِّجَالِکُمۡ وَ لٰکِنۡ رَّسُوۡلَ اللّٰہِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَ﴾ (الأحزاب: 40)
«أَنَا خَاتَمُ النَّبِيِّينَ، لَا نَبِيَّ بَعْدِي» (سنن أبي داؤد: 4252)
[7] شيخ الإسلام ابن تيمية: ما هو السبّ؟: “الكلام الذي يُقصد به الانتقاص والاستخفاف وهو ما يفهم منه السبّ في عقول الناس على اختلاف اعتقاداتهم كاللعن والتقبيح ونحوه…” (الصارم المسلول لابن تیمیہ: ص 561) “والكلمة الواحدة تكون في حال سبّا وفي حال ليست بسبّ فعُلم أن هذا يختلف باختلاف الأقوال والأحوال وإذا لم يكن للسب حد معروف في اللغة ولا في الشرع، فالمرجع فيه إلى عرف الناس فما كان في العرف سبا للنبي فهو الذي يجب أن ننزل عليه كلام الصحابة والعلماء وما لا فلا.” (الصارم المسلول لابن تیمیة: 540، 541)
[8] ابن المنذر: “أجمع عوام أهل العلم على أن من سبّ النبي ﷺ القتل.” (الإشراف لابن المنذر:8/60)
¯ أبوبكر الفارسي:”أجمعت الأمة على أن من سبّ النبي ﷺ يقتل حدًا” (السيف المسلول للسبكي: 156)
[9] الإمام الشافعي: “لا يقيم الحد على الأحرار إلا الإمام ومن فوض إليه الإمام .”
¯ الإمام النووي: “لا يقيم الحد على الأحرار إلا الإمام ومن فوض إليه الإمام، لأنه لم يقم حد على حرّ على عهد رسول الله ﷺ إلا بإذنه ولا في أيام الخلفاء إلا بإذنهم، ولأنه حق لله تعالىٰ يفتقر إلى الاجتهاد ولا يؤمن في استيفائه الحيف فلم يجز بغير إذن الإمام .” (’المجموع‘ للنووي:20/34، اور 18/448)
¯ أبوبكر الكاساني الحنفي: “وأما شرائط جواز إقامتها يعني الحدود … فهو الإمامة أن يكون المقيم للحد هو الإمام أو من ولاه الإمام.” (بدائع الصنائع:7/57)
¯ ابن تيمية: “خاطب الله المؤمنين بالحدود والحقوق خطابًا مطلقًا… هُوَ فَرْضٌ عَلَى الْكِفَايَةِ مِنْ الْقَادِرِينَ و”الْقُدْرَةُ” هِيَ السُّلْطَانُ؛ فَلِهَذَا: وَجَبَ إقَامَةُ الْحُدُودِ عَلَى ذِي السُّلْطَانِ وَنُوَّابِهِ. (مجموع الفتاویٰ لابن تیمیہ: 34/176)
¯ نابینا صحابی کا اپنی باندی کو خود توہین کرنے پر سزاے قتل دینے کی شیخ ابن تیمیہ نے چھ توجیہات پیش کی ہیں۔ (الصارم المسلول: 285)
[10] قال النبی ﷺ يَومَ الحُدَيْبِيَةِ: «أَنْتُمْ خَيْرُ أَهْلِ الأَرْضِ» وَكُنَّا أَلْفًا وَأَرْبَعَ مِائَةٍ… (صحيح البخاري: 4154)
¯ جاءَ جِبْرِيلُ إلى النَّبيِّ ﷺ، فَقالَ: ما تَعُدُّونَ أهْلَ بَدْرٍ فِيكُمْ؟ قالَ: «مِن أفْضَلِ المُسْلِمِينَ» (صحیح البخاري: 3992)
¯ سَأَلَ رَجُلٌ النَّبيَّ ﷺ: أَيُّ النّاسِ خَيْرٌ؟ قالَ: «الْقَرْنُ الَّذِي أَنَا فِيهِ، ثُمَّ الثَّانِي، ثُمَّ الثَّالِثُ» (صحيح مسلم: 2536)
[11] عبد الله بن مسعود t: ” إِنَّ اللّٰہَ نَظَرَ فِي قُلُوبِ الْعِبَادِ، فَوَجَدَ قَلْبَ مُحَمَّدٍ ﷺ خَيْرَ قُلُوبِ الْعِبَادِ، فَاصْطَفَاهُ لِنَفْسِهِ، فَابْتَعَثَهُ بِرِسَالَتِهِ، ثُمَّ نَظَرَ فِي قُلُوبِ الْعِبَادِ بَعْدَ قَلْبِ مُحَمَّدٍ، فَوَجَدَ قُلُوبَ أَصْحَابِهِ خَيْرَ قُلُوبِ الْعِبَادِ، فَجَعَلَهُمْ وُزَرَاءَ نَبِيِّهِ، يُقَاتِلُونَ عَلَى دِينِهِ ” (مسند أحمد: 1/ 379 ، 3600)
¯ شيخ الإسلام ابن تيمية: “وخيارُ هذه الأمة هم الصحابة، فلم يكن في الأمة أعظم اجتماعًا على الهدى ودين الحق، ولا أبعد عن التفرق والاختلاف منهم، وكل ما يُذْكَر عنهم مما فيه نقص، فهذا إذا قيس إلى ما يوجد في غيرهم من الأمة كان قليلاً من كثير، وإذا قيس ما يوجد في الأمة إلى ما يوجد في سائر الأمم كان قليلاً من كثير، وإنما يغلط من يغلط أنه لينظر إلى السواد القليل في الثوب الأبيض وينظر إلى الثوب الأسود الذي فيه بياض.” (منهاج السنة:3/242)
[12] عبد الله بن عمر t: “أولئك أصحاب محمد ﷺ كانوا خير هذه الأمة أبرها قلوبًا وأعمقها علمًا وأقلها تكلفًا،قوم اختارهم الله لصحبة نبيه ﷺ ولإقامة دينه … ” (حلیة الأولیاء لأبي نعيم أحمد الأصبهانی: 1/305، وجامع بیان العلم وفضلہ لابن عبد البر: 2/948)
[13] ﴿ رَضِیَ اللّٰہُ عَنۡہُمۡ وَ رَضُوۡا عَنۡہُ ؕ اُولٰٓئِکَ حِزۡبُ اللّٰہِ ؕ اَلَاۤ اِنَّ حِزۡبَ اللّٰہِ هُمُ الۡمُفۡلِحُوۡنَ ﴾ (المجادلة:22)
[14] ﴿ وَ اِذَا قِیۡلَ لَہُمۡ اٰمِنُوۡا کَمَاۤ اٰمَنَ النَّاسُ﴾ (البقرة: 13)
[15] « لَعَلَّ اللَّهَ قَدِ اطَّلَعَ على أهْلِ بَدْرٍ فَقالَ: اعْمَلُوا ما شِئْتُمْ، فقَدْ وجَبَتْ لَكُمُ الجَنَّةُ » (صحيح البخاري: 6259)
[16] ﴿وَ السّٰبِقُوۡنَ الۡاَوَّلُوۡنَ مِنَ الۡمُہٰجِرِیۡنَ وَ الۡاَنۡصَارِ وَ الَّذِیۡنَ اتَّبَعُوۡهُمۡ بِاِحۡسَانٍ ۙ رَّضِیَ اللّٰہُ عَنۡہُمۡ وَ رَضُوۡا عَنۡہُ وَ اَعَدَّ لَہُمۡ جَنّٰتٍ تَجۡرِیۡ تَحۡتَہَا الۡاَنۡہٰرُ خٰلِدِیۡنَ فِیۡہَاۤ اَبَدًا ؕ ذٰلِکَ الۡفَوۡزُ الۡعَظِیۡمُ﴾ (التوبة: 100)
[17] ﴿لَا يَسْتَوِي مِنكُم مَّنْ أَنفَقَ مِن قَبْلِ الْفَتْحِ وَقَاتَلَ ۚ أُولَٰئِكَ أَعْظَمُ دَرَجَةً مِّنَ الَّذِينَ أَنفَقُوا مِن بَعْدُ وَقَاتَلُوا ۚ وَكُلًّا وَعَدَ اللّٰہُ الْحُسْنَىٰ ۚ ﴾ (الحديد: 10)
¯ الَّذِينَ آمَنُوا وَهَاجَرُوا وَجَاهَدُوا فِي سَبِيلِ اللّٰہِ بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنفُسِهِمْ أَعْظَمُ دَرَجَةً عِندَ اللّٰهِ ۚ وَأُولَٰئِكَ هُمُ الْفَائِزُونَ (التوبة: 20)
[18] عَنْ مُحَمَّدِ ابْنِ الحَنَفِيَّةِ، قالَ: قُلتُ لأبِي: أيُّ النّاسِ خَيْرٌ بَعْدَ رَسولِ اللّٰہِ ﷺ؟ قالَ: أبو بَكْرٍ، قُلتُ: ثُمَّ مَنْ؟ قالَ: ثُمَّ عُمَرُ، وخَشِيتُ أنْ يَقُولَ: عُثْمانُ، قُلتُ: ثُمَّ أنْتَ؟ قالَ: ما أنا إلّا رَجُلٌ مِنَ المُسْلِمِينَ. (صحيح البخاري: 3671)
¯ سمع النبي ﷺ يقول يوم خيبر: «لأعطين الراية رجلا يفتح الله على يديه، فقاموا يرجون لذلك أيهم يعطى، فغدوا وكلهم يرجو أن يعطى، فقال: أين علي؟…» (البخاري: 2783)
[19] قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: «أَبُو بَكْرٍ فِي الْجَنَّةِ وَعُمَرُ فِي الْجَنَّةِ وَعُثْمَانُ فِي الْجَنَّةِ وَعَلِيٌّ فِي الْجَنَّةِ وَطَلْحَةُ فِي الْجَنَّةِ وَالزُّبَيْرُ فِي الْجَنَّةِ وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ فِي الْجَنَّةِ وَسَعْدٌ فِي الْجَنَّةِ وَسَعِيدٌ فِي الْجَنَّةِ وَأَبُو عُبَيْدَةَ بْنُ الْجَرَّاحِ فِي الْجَنَّةِ. (سنن الترمذي: 3747)
[20] عَنْ أَبِي بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ قَالَ: “ارْقُبُوا مُحَمَّدًا ﷺ فِي أَهْلِ بَيْتِهِ” (صحيح البخاري: 3509)
[21] الإمام ابن أبي العز الحنفي: فَإِنَّهُمْ لَمْ يَنْقُلُوا نَظْمَ الْقُرْآنِ وَحْدَهُ، بَلْ نَقَلُوا نَظْمَهُ وَمَعْنَاهُ، وَلَا كَانُوا يَتَعَلَّمُونَ الْقُرْآنَ كَمَا يَتَعَلَّمُ الصِّبْيَانُ، بَلْ يَتَعَلَّمُونَهُ بِمَعَانِيهِ. وَمَنْ لَا يَسْلُكُ سَبِيلَهُمْ فَإِنَّمَا يَتَكَلَّمُ بِرَأْيِهِ… (شرح العقيدة الطحاوية: ص 120)
[22] «من دعا إلىٰ هدي کان له من الأجر مثل أجور من تبعه لا ینقص ذلك من أجورهم شیئا» (مسند أحمد بن حنبل:2/397)
[23] (فَاِنۡ اٰمَنُوۡا بِمِثۡلِ مَاۤ اٰمَنۡتُمۡ بِہٖ فَقَدِ اهۡتَدَوۡا ۚ وَ اِنۡ تَوَلَّوۡا فَاِنَّمَا هُمۡ فِیۡ شِقَاقٍ﴾ (البقرة: 137)
[24] «تَفْتَرِقُ أُمَّتِي عَلَى ثَلَاثٍ وَسَبْعِينَ مِلَّةً كُلُّهُمْ فِي النَّارِ إِلَّا مِلَّةً وَاحِدَةً»، قَالُوا وَمَنْ هِيَ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ «مَا أَنَا عَلَيْهِ وَأَصْحَابِي».(جامع ترمذی :2641 )
[25] “الصحابة كلهم عدول من لاَبَسَ الفتنَ وغيرهم بإجماع من يعتدّ به.” (تقریب النواوی مع تدریب: 2/214 و ’مقام صحابہ ‘ از مفتی محمد شفیع عثمانی: ص 77)
[26] قال رسول الله ﷺ: «الأَنْصَارُ لا يُحِبُّهُمْ إِلاَّ مُؤْمِنٌ، وَلا يُبْغِضُهُمْ إِلاَّ مُنَافِقٌ فَمَنْ أَحَبَّهُمْ أَحَبَّهُ اللّٰہُ، وَمَنْ أَبْغَضَهُمْ أَبْغَضَهُ اللّٰہُ» (صحيح البخاري:3572)
¯ قال أنس: فَأَنَا أُحِبُّ اللهَ وَرَسُولَهُ وَأَبَا بَكْرٍ وَعُمَرَ، فَأَرْجُو أَنْ أَكُونَ مَعَهُمْ (صحیح مسلم: 2639)
[27] الإمام أبو جعفر الطحاوی (م321ھ): “وَنُحِبُّ أَصْحَابَ رَسُولِ اللّٰہِ ﷺ، وَلَا نُفَرِّطُ فِي حُبِّ أَحَدٍ مِنْهُمْ، وَلَا نَتَبَرَّأُ مِنْ أَحَدٍ مِنْهُمْ وَنُبْغِضُ مَنْ يُبْغِضُهُمْ، وَبِغَيْرِ الْخَيْرِ يَذْكُرُهُمْ وَلَا نَذْكُرُهُمْ إِلَّا بِخَيْرٍ وَحُبُّهُمْ دِينٌ وَإِيمَانٌ وَإِحْسَانٌ، وَبُغْضُهُمْ كُفْرٌ وَنِفَاقٌ وَطُغْيَانٌ.”(شرح العقیدة الطحاوية:57)
[28] قال النبي ﷺ: «اللَّهُمَّ أَنْتُمْ مِنْ أَحَبِّ النَّاسِ إِلَيَّ» قَالَهَا ثَلاَثَ مِرَار (صحیح البخاری:3574)
[29] الإمام أحمد: “رحمهم الله أجمعين، ومعاوية وعمرو وأبو موسى الأشعري والمغيرة كلهم وصفهم الله تعالى في كتابه فقال: ﴿سِيمَاهُمْ فِي وُجُوهِهِم مِّنْ أَثَرِ السُّجُودِ﴾ (مناقب الإمام أحمد، ص:221)
[30] قَالَ أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ: “يَا أَبَا الْحَسَنِ إِذَا رَأَيْتَ رَجُلًا يَذْكُرُ أَحَدًا مِنَ الصَّحَابَةِ بِسُوءٍ فَاتَّهِمْهُ عَلَى الْإِسْلَامِ.” (البداية والنهاية: 8/148)
[31] أبو زرعة الرّازيّ: إذا رأيت الرجل ينتقص أحدا من أصحاب رسول اللَّه ﷺ فاعلم أنه زنديق، وذلك
أن الرسول حقّ، والقرآن حق، وما جاء به حق، وإنما أدى إلينا ذلك كلّه الصحابة، وهؤلاء يريدون أن يجرحوا شهودنا ليبطلوا الكتاب والسنّة، والجرح بهم أولى، وهم زنادقة. (الإصابة في تمييز الصحابة لابن حجر: 1/162، 163)
[32] قال رسول الله ﷺ: «لَا تَسُبُّوا أَحَدًا مِنْ أَصْحَابِي، فَإِنَّ أَحَدَكُمْ لَوْ أَنْفَقَ مِثْلَ أُحُدٍ ذَهَبًا، مَا أَدْرَكَ مُدَّ أَحَدِهِمْ، وَلَا نَصِيفَهُ». (صحيح مسلم: 2541 واللفظ لمسلم، وصحيح البخاري: 3673)
¯ عن عبد الله بن عباس w، قال النبي ﷺ: «مَنْ سَبَّ أَصْحَابِي فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اللَّهِ وَالْمَلائِكَةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ» (المعجم للطبرانی: 12541، صحیح الجامع: 5111) [33] الحافظ ابن حجر: “وقد اتفق أهل السنة على أن الجميع عدول، ولم يخالف في ذلك إلا شذوذ من
المبتدعة.” (الإصابة في تمييز الصحابة: 1/ 131)
[34] الإمام قرطبي: “لَا يَجُوزُ أَنْ يُنْسَبَ إِلَى أَحَدٍ مِنَ الصَّحَابَةِ خَطَأٌ مَقْطُوعٌ بِهِ، إِذْ كَانُوا كُلَّهُمُ اجْتَهَدُوا فِيمَا فَعَلُوهُ وَأَرَادُوا اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ، وَهُمْ كُلُّهُمْ لَنَا أَئِمَّةٌ، وَقَدْ تَعَبَّدْنَا بِالْكَفِّ عَمَّا شَجَرَ بَيْنَهُمْ، وَأَلَّا نَذْكُرَهُمْ إِلَّا بِأَحْسَنِ الذِّكْرِ، لِحُرْمَةِ الصُّحْبَةِ وَلِنَهْيِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ سَبِّهِمْ، وَأَنَّ اللَّهَ غَفَرَ لَهُمْ، وَأَخْبَرَ بِالرِّضَا عَنْهُمْ.” (تفسير القرطبي: 16/ 321)
[35] عن عبد الله بن مسعودt قال النبي ﷺ: «إذا ذُكر أصحابي فأمسكوا» (المعجم الکبیر للطبرانی: 10296 و تخریج الاحیاء للعراقی: 1/50، حسن)
¯ الإمام ابن تیمیہ: “ولهذا كان من مذاهب أهل السنة الإمساك عما شجر بين الصحابة فإنه قد ثبتت فضائلهم ووجبت موالاتهم ومحبتهم…” (منهاج السنة النبوية لابن تیمیة: 4/ 448، 449)
[36] الإمام ابوزرعہ، عبدالله بن عبدالکریم، رازی (200- 264ھ) اور امام ابوحاتم، محمد بن ادریس، رازی (195- 277ھ) رحمهم الله اہل سنت کا اجماعی عقیدہ بیان فرماتے ہیں:
“أدركنا العلمائ فى جميع الـأمصار حجازا، وعراقا، ومصرا، وشاما، ويمنا، فكان من مذهبهم … والترحم علٰي جميع أصحاب محمد، صلى الله عليه وسلم، والكف عما شجر بينهم” (أصل السنة واعتقاد الدين لابن أبي حاتم: 7/61)
¯ الإمام محمد بن عبدالوہاب: “وأجمع أهل السنة على السكوت عما شجر بين الصحابة رضي الله عنهم. ولا يقال فيهم إلا الحسنى. فمن تكلم في معاوية أو غيره من الصحابة فقد خرج عن الإجماع.” (مختصر سيرة الرسول ﷺ: 318)
[37] الإمام ابن تیمیة: “فَمَنْ تَكَلَّمَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ – وَقَدْ نَهَى اللّٰہُ عَنْهُ: مِنْ ذَمِّهِمْ أَوْ التَّعَصُّبِ لِبَعْضِهِمْ بِالْبَاطِلِ- فَهُوَ ظَالِمٌ مُعْتَدٍ.” (مجموع الفتاوی: 4/432)
[38] حافظ ابن حجر: “وَاتَّفَقَ أَهْلُ السُّنَّةِ عَلَى وُجُوبِ مَنْعِ الطَّعْنِ عَلَى أَحَدٍ مِنَ الصَّحَابَةِ بِسَبَبِ مَا وَقَعَ لَهُمْ مِنْ ذَلِكَ وَلَوْ عَرَفَ الْمُحِقَّ مِنْهُمْ لِأَنَّهُمْ لَمْ يُقَاتِلُوا فِي تِلْكَ الْحُرُوبِ إِلَّا عَنِ اجْتِهَادٍ وَقَدْ عَفَا اللَّهُ تَعَالَى عَنِ الْمُخْطِئِ فِي الِاجْتِهَادِ بَلْ ثَبَتَ أَنَّهُ يُؤْجَرُ أَجْرًا وَاحِدًا وَأَنَّ الْمُصِيبَ يُؤْجَرُ أَجْرَيْنِ” (فتح الباري: 20/ 87, 6556)
¯ الإمام النووي: أَمَّا الْحُرُوبُ الَّتِي جَرَتْ فَكَانَتْ لِكُلِّ طَائِفَةٍ شُبْهَةٌ اعْتَقَدَتْ تَصْوِيبَ أَنْفُسِهَا بِسَبَبِهَا وَكُلُّهُمْ عُدُولٌ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَمُتَأَوِّلُونَ فِي حُرُوبِهِمْ وَغَيْرِهَا وَلَمْ يُخْرِجْ شئ مِنْ ذَلِكَ أَحَدًا مِنْهُمْ عَنِ الْعَدَالَةِ لِأَنَّهُمْ مُجْتَهِدُونَ اخْتَلَفُوا فِي مَسَائِلَ مِنْ مَحَلِّ الِاجْتِهَادِ كَمَا يَخْتَلِفُ الْمُجْتَهِدُونَ بَعْدَهُمْ فِي مَسَائِلَ مِنَ الدِّمَاءِ وَغَيْرِهَا وَلَا يَلْزَمُ مِنْ ذَلِكَ نَقْصُ أَحَدٍ مِنْهُمْ (شرح النووی علی المسلم: 15/ 149)
[39] الإمام أحمد بن عبد الحلیم ابن تیمیة: “إمَّا مُجْتَهِدُونَ مُصِيبُونَ وَإِمَّا مُجْتَهِدُونَ مُخْطِئُونَ… إنْ أَصَابُوا فَلَهُمْ أَجْرَانِ وَإِنْ أَخْطَئُوا فَلَهُمْ أَجْرٌ وَاحِدٌ وَالْخَطَأُ مَغْفُورٌ لَهُمْ.” (مجموع الفتاویٰ: 3/ 155)
[40] الإمام مَالِكٍ بن أنس: “مَنْ سَبَّ أَبَا بَكْرٍ جُلِدَ، وَمَنْ سَبَّ عَائِشَةَ قُتِلَ.. قِيلَ لَهُ: لِمَ؟ قَالَ: مَنْ رَمَاهَا فَقَدْ خَالَفَ الْقُرْآنَ.” (الشفا بتعريف حقوق المصطفي للقاضي عياض: 2/ 654)
¯ امام أحمد بن حنبل: ’’کسی کےلیے صحابہ کرام y کا ذکرِ سُو یا ان پرطعن و تشنیع کرنا جائز نہیں۔ حاکم وقت پر فرض ہے کہ ایسا کرنے والے کو سزا دے، کیونکہ یہ جرم ناقابل معافی ہے۔ سزا دینے کے بعد اس سے توبہ کروائی جائے، اگر توبہ کرے تو بہتر وگرنہ اسےدوبارہ سزا دی جائے اور اسے قید میں رکھا جائے جب تک کہ وہ توبہ کرکے اس فعل مذموم سے باز نہ آئے۔‘‘ (الصارم المسلول: و رسالہ قیرانویہ: ص 419)
[41] الإمام ابن تيمية: ” وَيَتَبَرَّءُونَ مِنْ طَرِيقَةِ الرَّوَافِضِ الَّذِينَ يُبْغِضُونَ الصَّحَابَةَ وَيَسُبُّونَهُمْ. وَمِنْ طَرِيقَةِ النَّوَاصِبِ الَّذِينَ يُؤْذُونَ أَهْلَ الْبَيْتِ بِقَوْلِ أَوْ عَمَلٍ.” (العقيدة الواسطية لابن تيمية: 119)
[42] ﴿وَمَنْ يُعَظِّمْ شَعَائِرَ اللّٰهِ فَإِنَّهَا مِنْ تَقْوَى الْقُلُوبِ﴾ (الحج: 32)
[43] ﴿يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُحِلُّوا شَعَائِرَ اللهِ﴾ (المائدة: 2)
¯ قوله تعالى: “﴿لا تحلوا شعائر الله﴾، لأن الله نهى عن استحلال شعائره ومعالم حدوده وإحلالها نهيًا عامًّا” (تفسیر طبری: 9/465)
[44] ﴿قُلْ أَبِاللّٰهِ وَآيَاتِهِ وَرَسُولِهِ كُنْتُمْ تَسْتَهْزِئُونَ لَا تَعْتَذِرُوا قَدْ كَفَرْتُمْ بَعْدَ إِيمَانِكُمْ…﴾ (التوبہ: 65، 66)
[45] ﴿لَقَدۡ سَمِعَ اللّٰہُ قَوۡلَ الَّذِیۡنَ قَالُوۡۤا اِنَّ اللّٰہَ فَقِیۡرٌ وَّ نَحۡنُ اَغۡنِیَآءُ ۘ سَنَکۡتُبُ مَا قَالُوۡا وَ قَتۡلَہُمُ الۡاَنۡۢبِیَآءَ بِغَیۡرِ حَقٍّ ۙ وَّ نَقُوۡلُ ذُوۡقُوۡا عَذَابَ الۡحَرِیۡقِ﴾ (آل عمران: 181)
شعائر اللہ میں اللہ تعالیٰ کی توہین، انبیاء کی توہین اور قتل سے بھی بڑا جرم ہے۔
[46] وَقَدْ اتَّفَقَ الْمُسْلِمُونَ عَلَى أَنَّ مَنْ اسْتَخَفَّ بِالْمُصْحَفِ مِثْلَ أَنْ يُلْقِيَهُ فِي الْحُشِّ أَوْ يَرْكُضَهُ بِرِجْلِهِ إهَانَةً لَهُ إنَّهُ كَافِرٌ. (مجموع الفتاوى: 8/425)
[47] ﴿وَمَا كَانَ صَلَاتُهُمْ عِنْدَ الْبَيْتِ إِلَّا مُكَاءً وَتَصْدِيَةً﴾ (الأنفال: 35)
[48] ﴿ إِنَّ الَّذِينَ يُحِبُّونَ أَنْ تَشِيعَ الْفَاحِشَةُ فِي الَّذِينَ آمَنُوا لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ﴾ (النور: 19)
کل جماعتی دفاع شعائراللہ اعلامیہ (پی ڈی ایف)
لجنۃ العلماء للإفتاء کی طرف سے دفاع شعائر اللہ اعلامیہ کی تائید و توثیق