سوال
ملکِ پاکستان میں شعائر اللہ کے تحفظ اور اس کی توہین کے سدِ باب کے حوالے سے ’قرآن وسنہ موومنٹ پاکستان ‘کی طرف سے علمائے کرام کی مشاورت اور نگرانی میں ایک علمی دستاویز اور اعلامیہ تیار کیا گیا ہے، جس کا عنوان ہے:’رسول کریمﷺ، صحابہ کرام واہل بیت عظام اور شعائر اسلامیہ کی توہین، تنقیص اور تعریض کی شرعی وقانونی حیثیت‘ جس کا مکمل متن ساتھ منسلک کیا جا رہا ہے۔
لجنۃ العلماء للإفتاء کے معزز مفتیانِ کرام اور علمائے عظام سے گزارش ہے کہ اس اعلامیے کو توجہ سے پڑھیں، اگر مفید لگے تو اس کی تائید فرمائیں جزاکم اللہ خیرا۔
جواب
الحمد لله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!
تحفظ ناموسِ رسالتﷺ، دفاعِ صحابہ و اہل بیت اور تعظیم شعائرِ اسلام کے لیے کوشش و کاوش کرنا امت پر فرض اور ضروری ہے۔ اس ضمن میں ہم ’قرآن وسنہ موومنٹ‘ کی طرف سے پیش کردہ ’دفاع شعائر اللہ‘ اعلامیہ کی بھرپور تائید و توثیق اور تحسین کرتے ہیں۔
افادیت و اہمیت کے پیشِ نظر کچھ حک و اضافہ کے ساتھ اہم نکات ذیل میں درج کیے جاتے ہیں:
- ناموسِ رسالتﷺ اورمنصبِ نبوت کا تحفظ
- خاتم الرسل و الانبیاء ﷺ کو ہر قسم کے نظریات و شخصیات پر مقدم رکھنا اور ان کی غیر مشروط محبت و اطاعت؛ ناموس رسالت و منصبِ رسالت پر ایمان کا بنیادی تقاضا ہے۔ ارشادِ باری تعالی ہے:
“فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّى يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوا فِي أَنفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوا تَسْلِيمًا”. [النساء: 65]
’تیرے رب کی قسم! وہ اس وقت تک مؤمن نہیں ہو سکتے جب تک وہ تجھے اپنے جھگڑوں میں حَکَم نہ بنائیں، پھر جو فیصلہ تُو کرے، اس پر اپنے دلوں میں کوئی تنگی محسوس نہ کریں اور پوری طرح سَرِ تسلیم خم کر دیں‘۔
- حدیثِ نبوی کی حجیت کا انکار کرنا، اس سے انحراف و استہزا بھی توہینِ نبوت کے مترادف ہے۔ اسی طرح کتاب وسنت کے مسلّمات اور اجماعِ اُمت کے خلاف محاذ آرائی سراسرگمراہی ہے۔ ارشادِ ربانی ہے:
“وَمَن يُشَاقِقِ الرَّسُولَ مِن بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدَىٰ وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيلِ الْمُؤْمِنِينَ نُوَلِّهِ مَا تَوَلَّىٰ وَنُصْلِهِ جَهَنَّمَ ۖ وَسَاءَتْ مَصِيرًا”.[سورۃ النساء: 115]
“اور جو شخص رسول (ﷺ) کی مخالفت کرے، اس کے بعد کہ اس کے لیے ہدایت ظاہر ہو چکی ہو، اور مومنوں کے راستے کے خلاف کوئی اور راستہ اختیار کرے، تو ہم اسے اسی طرف پھیر دیتے ہیں جدھر وہ پھرا ہے، اور اسے جہنم میں جھونک دیتے ہیں، اور وہ بہت ہی برا ٹھکانہ ہے”۔
- اسی طرح شانِ رسالت میں صراحۃً وارادۃً توہین، تنقیص اور تعریض کرنا کفر، نفاق، ارتداد، عہد شکنی اور دین دشمنی ہے جس کا مرتکب شرعی اعتبار سے سزائے موت کا حق دار ہے۔
امام ابن المنذر رقمطراز ہیں:
“أجمع عوام أهل العلم على أن من سبّ النبي ﷺ القتل”. [الإشراف:8/60]
’تمام اہلِ علم کا اجماع ہے کہ نبی کریم کو برائی کرنے کی سزا قتل ہے‘۔
اسی طرح أبوبكر الفارسی کا قول ہے:
“أجمعت الأمة على أن من سبّ النبي ﷺ يقتل حدًا”.[السيف المسلول للسبكي: 156]
’تمام امت کا اتفاق ہے کہ شاتمِ رسول پر قتل کی حد نافذ کی جائے گی‘۔
البتہ اس سزاکااختیارعدالت اورحکومت کے پاس ہے ۔ جیسا کہ کئی ایک ائمہ کرام نے صراحت کی ہے۔ (’المجموع‘ للنووي:20/34، و 18/448)
- صحابہ واہل بیت کے متعلق اہل السنہ والجماعہ کا عقیدہ
- انبیاء کرام علیہم السلام کے بعد جملہ صحابہ کرام واہل بیت عظام واجب الاحترام اور افضل ترین نفوسِ قدسیہ ہیں، جنہیں اللہ تعالیٰ نے سید المرسلین ﷺ کی رفاقت، تبلیغ اور اقامتِ دین کے لیے چنا۔
عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
«إِنَّ اللهَ نَظَرَ فِي قُلُوبِ الْعِبَادِ، فَوَجَدَ قَلْبَ مُحَمَّدٍ صلى الله عليه وسلم خَيْرَ قُلُوبِ الْعِبَادِ، فَاصْطَفَاهُ لِنَفْسِهِ، فَابْتَعَثَهُ بِرِسَالَتِهِ، ثُمَّ نَظَرَ فِي قُلُوبِ الْعِبَادِ بَعْدَ قَلْبِ مُحَمَّدٍ، فَوَجَدَ قُلُوبَ أَصْحَابِهِ خَيْرَ قُلُوبِ الْعِبَادِ، فَجَعَلَهُمْ وُزَرَاءَ نَبِيِّهِ، يُقَاتِلُونَ عَلَى دِينِهِ» . [مسند أحمد6/ 84 ط الرسالة برقم 3600]
’بے شک اللہ تعالیٰ نے بندوں کے دلوں پر نظر فرمائی، تو حضرت محمد ﷺ کے دل کو بندوں کے دلوں میں سب سے بہتر پایا، چنانچہ اللہ نے آپ کو اپنے لیے چن لیا اور اپنی رسالت کے ساتھ مبعوث فرمایا۔ پھر اللہ نے حضرت محمد ﷺ کے بعد بندوں کے دلوں پر نظر فرمائی، تو صحابہ کرام کے دلوں کو بندوں کے دلوں میں سب سے بہتر پایا،لہٰذا اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنے نبی کے وزراء (مددگار) بنایا، جو اس کے دین کے لیے جہاد کرتے ہیں‘۔
بعض روایات میں ہے کہ صحابہ کرام علم و اخلاص ہر اعتبار سے اس امت کے بہترین لوگ ہیں، جنہیں اللہ تعالی نے اپنے نبی کی صحبت کے لیے منتخب فرمایا لہذا ان کی فضیلت کو پہچانو اور ان کے آثار کی پیروی کرو۔ [جامع بیان العلم وفضلہ لابن عبد البر: ص 2/947]
- صحابہ کرام و اہلِ بیتِ عظام کو مغفرتِ ذنوب اورجنت کی حتمی بشارتیں، الفائزون، المفلحون، رضي الله عنهم، وکُلًّا وَّعَدَ الله الحُسْنٰی کی سندیں حاصل ہیں۔ اگرچہ ان کے ایمانی اور اُخروی درجات میں تفاوت ہے، جیسا کہ خلفائے راشدین، عشرہ مبشرہ، اہل بیت، اصحابِ بدر اور اصحابِ شجرہ رضون الله علیہم اجمعین وغیرہ۔ یہ سب کے سب اللہ تعالیٰ سے راضی اور اللہ تعالیٰ ان سے راضی ہے۔
امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
“ﺃﻓﻀﻞ اﻟﻨﺎﺱ ﺑﻌﺪ ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﺃﺑﻮ ﺑﻜﺮ ﺛﻢ ﻋﻤﺮ ﺛﻢ ﻋﺜﻤﺎﻥ ﺛﻢ ﻋﻠﻲ”.[الإعتقاد للبيهقي: ص: 368]
امام محمد بن الحسین الآجری رحمہ اللہ اہلِ اسلام کا عقیدہ و منہج بیان کرتے ہوئے رقمطراز ہیں:
’خلافت و فضیلت ہر دو اعتبار سے ہم (اہل سنت) کا مذہب یہ ہے ابو بکر پھر عمر پھر عثمان پھر علی رضی اللہ عنہم اجمعین۔ اور یہ کہ اہل ایمان اور صحابہ کرام کا یہی موقف ہے، جبکہ رافضیوں اور ناصبیوں کو اس ترتیب سےتکلیف ہوتی ہے، کیونکہ یہ دونوں خبیث گروہ کتاب و سنت اور اجماع صحابہ کے مخالف ہیں‘۔ [الشريعة للآجري:4/ 1767 بتصرف و اختصار]
امام ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«وأجمعت عُلَمَاء السنة أَن أفضل الصَّحَابَة الْعشْرَة الْمَشْهُود لَهُم وَأفضل الْعشْرَة أَبُو بكر ثمَّ عمر بن الْخطاب ثمَّ عُثْمَان بن عَفَّان ثمَّ عَليّ بن أبي طَالب رضي الله عنهم أَجْمَعِينَ وَلَا يشك فِي ذَلِك إِلَّا مُبْتَدع مُنَافِق خَبِيث». [الكبائر ص239]
’اہل سنت کا اتفاق ہے کہ ابو بکر پھر عمر، پھر عثمان پھر علی پھر دیگر عشرہ مبشرہ تمام صحابہ کرام سے افضل ہیں، صحابہ کرام کی اس افضلیت و ترتیب میں بدعتی، منافق خبیثوں کے علاوہ کسی کو شک و شبہ لاحق نہیں ہے‘۔
- تمام صحابہ کرام اور اہل بیت عادل اور امین ہیں۔ ان سے محبت کرنا دین، ایمان، احسان اور شرعی فریضہ ہے۔ وہ رسول کریم ﷺکو سب سے زیادہ محبوب ہیں، ان سے بغض رکھنا اللہ کے غیظ وغضب اور قہرو عذاب کا موجب ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم وسلم کا فرمان ہے:
«لَا تَسُبُّوا أَحَدًا مِنْ أَصْحَابِي، فَإِنَّ أَحَدَكُمْ لَوْ أَنْفَقَ مِثْلَ أُحُدٍ ذَهَبًا، مَا أَدْرَكَ مُدَّ أَحَدِهِمْ، وَلَا نَصِيفَهُ». [صحيح مسلم: رقم 6488]
’میرے صحابہ میں سے کسی ایک کو بھی برا نہ کہو، تم میں سے کوئی احد پہاڑ کے برابر سونا خرچ کرکے ان کے ایک بلکہ آدھا مد کھجور صدقہ کرنے کا اجر نہیں پا سکتا‘۔
اسی طرح فرمایا:
“لا يُبغِضُنا أهلَ البيتِ أحدٌ إلا أدخلَه اللهُ النارَ”. [صحیح ابن حبان: 6978، الصحيحة للألباني: 2488]
’ہم اہل بیت سے جو کوئی بھی بغض رکھے گا الله تعالی اسے جہنم میں داخل کرے گا‘۔
امام طحاوی رحمہ اللہ مسلمانوں کا عقیدہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
“ونحب أصحاب رسول الله ﷺ، ولا نفرط في حب أحد منهم ، ولا نتبرأ من أحد منهم ، ونبغض من يبغضهم، وبغير الخير يذكرهم، ولا نذكرهم إلا بخير، وحبهم دين وإيمان وإحسان، وبغضهم كفر ونفاق وطغيان”. [العقيدة الطحاوية: 57]
’ہم رسول اللہ ﷺ کے اصحاب سے محبت رکھتے ہیں، نہ کسی کی محبت میں غلو کرتے ہیں، اور نہ ہی کسی صحابی سے براءت کا اظہار کرتے ہیں، جو ان سے بغض رکھتا ہے، یا ان کی برائیاں کرتا ہے، ہم اس سے بغض رکھتے ہیں، ہم صحابہ کی صرف اچھائیاں بیان کرتے ہیں، اور عقیدہ رکھتے ہیں کہ ان سے محبت دین، ایمان اور احسان ہے، اور ان سے بغض رکھنا، کفر، نفاق اور سرکشی ہے‘۔
چنانچہ سیدنا ابوبکر، سیدنا عمر، سیدنا عثمان، سیدنا علی، سیدنا طلحہ، سیدنا زبیر، سیدنا حسن، سیدنا حسین، سیدنا ابوسفیان، سیدنا معاویہ، سیدنا عمروبن عاص، سیدنا مغیرہ بن شعبہ، سیدنا عمار بن یاسر، سیدنا ابو موسیٰ اشعری، سیدہ عائشہ و دیگر اُمہات المومنین اور جمیع صحابہ کرام و اہل بیت عظام میں سے کسی کی شان میں کسی بھی پلیٹ فارم پر صراحۃً یا اشارۃً توہین ، تنقیص اور تعریض کرنا کفر، نفاق، طغیان اور اسلام میں طعنہ زنی و دین دشمنی ہے۔
- صحابہ کرا م کے مابین اختلافات و مشاجرات کو بنیاد بنا کر ان میں سے کسی کی توہین و تنقیص اور تعریض کرنا سراسر باطل عمل اور واضح گمراہی ہے، کیونکہ ہر دوطرف کے صحابہ کرام علم، اخلاص کی بنیاد پر مجتہد ہونے کے ناطے سے اکہرے یا دوہرے اجر کے مستحق ہیں، لہذا ان کے بارے میں اپنی زبانیں بند رکھنا اور کسی قسم کے تجزیے و تبصرے یا تحقیقات پیش کرنے سے گریز کرنا ضروری ہے۔
عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«إذا ذُكر أصحابي فأمسكوا» [المعجم الکبیر للطبرانی:10296 و تخریج الاحیاء للعراقی: 1/50، الصحيحة للألبانی 34]
’میرے صحابہ کرام کا ذکر آئے تو زبانوں کو روک لیا کرو‘۔
عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ سے پوچھا گیا کہ آپ اہل صفین کے بارے میں کیا فرماتے ہیں، تو انہوں نے جواب دیا:
«تِلْكَ دِمَاء طهر الله يَدي مِنْهَا، فَمَا أحب أَن أخضب لساني مِنْهَا.» [العلل ومعرفة الرجال لأحمد رواية المروذي وغيره ت وصي الله عباس، ص258]
’جس خون سے اللہ تعالی نے میرے ہاتھوں کو محفوظ رکھا ہے، میں اس سے اپنی زبان کو نہیں رنگنا چاہتا‘۔
یہ قول الفاظ کی کمی بیشی کے ساتھ سلف میں سے اور کئی ایک شخصیات سے بھی مروی ہے۔
امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
“وأما الحروب التي جرت، فكانت لكل طائفة شبهة اعتقدت تصويب أنفسها بسببها، وكلهم عدول ومُتأَوِّلون في حروبهم وغيرها، ولم يخرج شيءٌ ذلك أحدًا منهم من العدالة؛ لأنهم مجتهدون اختلفوا في مسائل من محل الاجتهاد…” [شرح مسلم للنووي :8/118]
’صحابہ کرام کے مابین ہونے والی جنگوں کی حقیقت یہ ہے کہ یہ غلط فہمیوں کے سبب تھا کیونکہ فریقین میں سے ہر ایک خود کو حق پر سمجھ رہا تھا، ان مشاجرات و اختلافات کے باعث کوئی بھی دائرہ عدالت سے خارج نہیں ہوتا، کیونکہ وہ سب مجتہد تھے جن کا بعض اجتہادی مسائل میں اختلاف ہوا تھا‘۔
امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
“فَمَنْ تَكَلَّمَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ – وَقَدْ نَهَى اللَّهُ عَنْهُ: مِنْ ذَمِّهِمْ أَوْ التَّعَصُّبِ لِبَعْضِهِمْ بِالْبَاطِلِ – فَهُوَ ظَالِمٌ مُعْتَدٍ”. [مجموع الفتاوی: 4/432]
’جو شخص بھی مشاجراتِ صحابہ میں گفتگو کرتے ہوئے بعض کی مذمت کرے اور بعض کی بے جا طرفداری تو وہ ظالم اور حد سے بڑھنے والا ہے، کیونکہ اللہ تعالی اس سے منع فرمایا ہے‘۔
مزید فرماتے ہیں:
“إمَّا مُجْتَهِدُونَ مُصِيبُونَ وَإِمَّا مُجْتَهِدُونَ مُخْطِئُونَ… إنْ أَصَابُوا فَلَهُمْ أَجْرَانِ وَإِنْ أَخْطَئُوا فَلَهُمْ أَجْرٌ وَاحِدٌ وَالْخَطَأُ مَغْفُورٌ لَهُمْ.” [مجموع الفتاویٰ: 3/ 155]
’ مشاجرات و اختلافات میں صحابہ کرام مجتہد ہونے کے ناطے درست ہوں تو دوہرے اجر کے یا خطا پر بھی ہوں تو اکہرے اجر کے مستحق ہیں اور ان کی غلطیاں اللہ تعالی نے معاف فرما دی ہیں ‘۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«اتفق أهل السنة على وجوب منع الطعن على أحد من الصحابة بسبب ما وقع لهم من ذلك…». [فتح الباري» لابن حجر 13/ 34 ]
’اہلِ سنت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ صحابہ کے اختلافات کی بنیاد پر ان پر طعن و تشنیع کرنا قطعا جائز نہیں ‘۔
- صحابہ واہل بیت کی توہین، تنقیص اور تعریض کرنے والا، اہل السنہ کے منہج، مسلمات، اجماعی عقائد سے منحرف ہے اور گمراہ ہے، اس کا اہل سنت سے کوئی تعلق نہیں! خواہ وہ کوئی عام آدمی ہو یا کوئی خطیب وواعظ اور ذمہ دار ہو، یا کسی ادارے، تنظیم اورجماعت کا فرد ہو۔
امام احمد رحمہ اللہ سے پوچھا گیا کہ اس شخص کے پیچھے نماز پڑھنے کا کیا حکم ہے، جو حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی برائی کرتا ہے، تو آپ نےفرمایا:
«لا، ولَا كَرَامَةَ». [طبقات الحنابلة لابن أبي يعلى 1/ 285]
’اس کے پیچھے نماز نہ ادا کی جائے، ایسے شخص کی کوئی عزت نہیں ہے‘۔
اسی طرح ایک سائل نے امام احمد رحمہ اللہ سے پوچھا کہ میرا ماموں سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی توہین کرتا ہے اور میں کبھی اس کے ساتھ کھا پی لیتا ہوں۔ تو آپ نے فرمایا:
«لَا تَأْكُلْ مَعَهُ».[السنة للخلال: ٦٩٣ ]
’کھانےکی مجلس میں بھی اس کے ساتھ شرکت نہ کرو‘۔
- ہم رافضیوں اور ناصبیوں کے فکر و عمل سے کھلا اظہارِ براء ت کرتے ہیں اور سیدنا حسین پر ظلم وستم کرنے والوں کے بارے میں ہمارا وہی موقف ہے جو شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے بیان فرمایا ہے:
”جس نے بھی سیدنا حسین کو شہید کیا، یا ان کی شہادت میں کسی طرح کی کوئی مدد کی، یا ان کی شہادت پر وہ کسی درجے میں خوش ہوا تو اس پر اللہ، ملائکہ اور تمام لوگوں کی لعنت ہو۔ اللہ تعالیٰ اس کی کوئی فرضی اور نفلی عبادت قبول نہ فرمائے”۔ [مجموع الفتاوی : 4؍487]
اور ہمارے یہی جذبات ان سب بدبختوں کے بارے میں بھی ہیں جنہوں نے اس سے پہلے خلفائے ثلاثہ عمر بن خطاب، عثمان بن عفان، علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہم اجمعین کو شہید کیا۔
- تحفظِ شعائرِ اسلام
شعائر اللہ اسلام کے ستون اور نظریاتی سرحدیں ہیں۔ قرآن، حرمین شریفین، مساجد، ارکانِ اسلام، قربانی، داڑھی اور حجاب و پردہ وغیرہ دین اسلام کی پہچان اور امتیازی علامتیں ہیں، ان میں سے کسی ایک کی بھی صراحۃً وارادۃً تحقیر وتضحیک اور استہزا وتمسخر اسلام کی اساسات پر حملہ اور اُنہیں مسمار کرنا ہے جو کہ موجبِ ارتداد وکفر یا باعثِ فسق ونفاق ہے۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
“ذَٰلِكَ وَمَن يُعَظِّمْ شَعَائِرَ ٱللَّهِ فَإِنَّهَا مِن تَقْوَى ٱلْقُلُوبِ”. [الحج: 32]
” جو کوئی اللہ کے شعائر کی تعظیم کرے تو یہ دلوں کے تقویٰ سے ہے”۔
اللہ تعالیٰ نے واضح فرمایا کہ دین اور عبادات کا مذاق اُڑانا اور ان پر طعن کرنا مشرکوں، کفار اور دین کے مخالفین کا طریقہ ہے۔ ارشادِ ربانی ہے:
“وَإِذَا نَادَيْتُمْ إِلَى ٱلصَّلَوٰةِ ٱتَّخَذُوهَا هُزُواً وَلَعِباً ۚ ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمْ قَوْمٌ لَّا يَعْقِلُونَ”. [المائدة: 58]
”اور جب تم نماز کے لیے اذان دیتے ہو تو وہ اسے مذاق اور کھیل بنا لیتے ہیں۔ ایسا اس لیے کرتے ہیں کہ وہ عقل نہیں رکھتے”۔
مزید فرمایا:
“یَآ اَیُّها الَّذِینَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا الَّذِینَ اتَّخَذُوا دِینَکُمْ هُزُوًا وَّلَعِبًا مِنَ الَّذِینَ أُوتُوا الْکِتَابَ مِنْ قَبْلِکُمْ وَالْکُفَّارَ أَوْلِیَاَءَ”. [المائدۃ: 57]
”اے ایمان والو! ان لوگوں کو دوست نہ بناؤ جنہوں نے تمہارے دین کو مذاق اور کھیل بنایا، چاہے وہ اہلِ کتاب ہوں یا کفار”۔
امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«وقد اتفق المسلمون على أن من استخف بالمصحف مثل أن يلقيه في الحش أو يركضه برجله إهانة له إنه كافر مباح الدم.» [مجموع الفتاوى8/ 425]
’ تمام مسلمانوں کا اس پر اتفاق ہے کہ جو شخص قرآنِ مجید کی توہین کرے، مثلاً بطورِ اہانت اُسے بیت الخلا میں پھینک دے یا اسے پاؤں سے روندے، تو وہ کافر شمار ہوگا‘۔
وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين
مفتیانِ کرام
فضیلۃ الشیخ ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ عبد الحلیم بلال حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ
فضیلۃ الدکتور عبد الرحمن یوسف مدنی حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ محمد إدریس اثری حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ مفتی عبد الولی حقانی حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ عبد الحنان سامرودی حفظہ اللہ