دل کی سختی کی مذمت

جامعہ کے فاضل دوستوں کے ساتھ ابن رجب رحمہ اللہ کے رسالے ‘ذم قسوة القلب’ کے مذاکرے کا موقع ملا۔ چنانچہ صرف فوائد نشر کرنے کی بجائے سوچا کہ مکمل رسالہ ہی نشر ہونا چاہیے مگر سوشل میڈیا کے مزاج کے زیر اثر چھوٹے ٹکڑوں میں پوسٹ کرنے کا ارادہ کیا۔ اللہ تعالی دل کی سختی سے مترجم، قارئین اور تمام مسلمانوں کو بچائے اور اس رسالے کے فوائد ہم تک پہنچا دے۔ آمین۔

(قسط: 1)

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
الامام العلامة الحافظ زین الدین ابن الشیخ ابو العباس احمد بن رجب(حافظ ابن رجب) رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
الحمدللہ
یہ رسالہ دل کی سختی کی مذمت، اس کے سبب اور نتائج کے بارے میں ہے۔
جہاں تک اس کی مذمت کی بات ہے تو اللہ تعالی فرماتے ہیں:

ثُمَّ قَسَتْ قُلُوبُكُم مِّن بَعْدِ ذَٰلِكَ فَهِيَ كَالْحِجَارَةِ أَوْ أَشَدُّ قَسْوَةً ۚ

پھر اس کے بعد تمہارے دل پتھر جیسے بلکہ اس بھی زیادہ سخت ہوگئے۔
پھر ان دلوں کی سختی کا حال بیان کرتے ہوئے فرمایا:

وَإِنَّ مِنَ الْحِجَارَةِ لَمَا يَتَفَجَّرُ مِنْهُ الْأَنْهَارُ ۚ وَإِنَّ مِنْهَا لَمَا يَشَّقَّقُ فَيَخْرُجُ مِنْهُ الْمَاءُ ۚ وَإِنَّ مِنْهَا لَمَا يَهْبِطُ مِنْ خَشْيَةِ اللَّهِ ۗ

جبکہ بعض پتھروں سے نہریں بہہ نکلتی ہیں، اور بعض پھٹ جاتے ہیں اور ان سے پانی نکل آتا ہے، اور بعض اللہ کے ڈر سے گر گر پڑتے ہیں۔
اسی طرح فرمایا:
سورۃ الحدید
آیت نمبر: 16

أَلَمْ يَأْنِ لِلَّذِينَ آمَنُوا أَن تَخْشَعَ قُلُوبُهُمْ لِذِكْرِ اللَّهِ وَمَا نَزَلَ مِنَ الْحَقِّ وَلَا يَكُونُوا كَالَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ مِن قَبْلُ فَطَالَ عَلَيْهِمُ الْأَمَدُ فَقَسَتْ قُلُوبُهُمْ ۖ وَكَثِيرٌ مِّنْهُمْ فَاسِقُونَ

ترجمہ:
کیا اب تک ایمان والوں کے لئے وقت نہیں آیا کہ ان کے دل ذکر الٰہی سے اور جو حق اتر چکا ہے اس سے نرم ہوجائیں اور ان کی طرح نہ ہوجائیں جنہیں ان سے پہلے کتاب دی گئی تھی پھر جب زمانہ دراز گزر گیا تو ان کے دل سخت ہوگئے اور ان میں بہت سے فاسق ہیں۔
اسی طرح:

فَوَيْلٌ لِّلْقَاسِيَةِ قُلُوبُهُم مِّن ذِكْرِ اللَّهِ ۚ أُولَٰئِكَ فِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ

اور ہلاکی ہے ان پر جن کے دل یاد الٰہی سے (اثر نہیں لیتے) بلکہ سخت ہوگئے ہیں۔ یہ لوگ صریح گمراہی میں (مبتلا) ہیں۔
چنانچہ اہل کتاب کی صفت، دل کی سختی، بیان کی اور ہمیں ان سے مشابہت سے بچنے کا کہا گیا۔
بعض سلف سے منقول ہے کہ عالم کا دل جب سخت ہوجائے تو اس سے بڑھ کر کوئی سختی نہیں ہوتی۔۔۔!
ترمذی شریف میں ابن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ کے ذکر کے بغیر زیادہ کلام نا کیا کرو۔ بے شک اللہ کے ذکر کے بغیر زیادہ کلام دل کی سختی کا موجب ہے۔ اور بے شک اللہ کے بندوں میں سے اللہ سے سب سے دور سخت دل(والا) ہے۔
مسند بزار میں انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: چار چیزیں شقاوت میں سے ہیں، آنکھ کا پتھر ہوجانا(آنسو نا بہانا)، دل کی سختی، دنیا سے لمبی امیدیں اور دنیا کی لالچ۔
ابن جوزی رحمہ اللہ نے اسے ‘الموضوعات’ میں ابی داؤد النخعی کذاب کے توسط سے بیان کیا ہے۔
مالک بن دینار رحمہ اللہ کہتے ہیں: انسان کو دل کی سختی سے زیادہ بڑی سزا (اس دنیا میں) نہیں مل سکتی۔ اسے عبد اللہ بن أحمد نے ‘الزہد’ میں نقل کیا ہے۔
حذیفہ المرعشی فرماتے ہیں: دل کی سختی سے بڑی مصیبت میں کوئی مبتلا نہیں کیا گیا۔۔۔!
اسے ابو نعیم نے روایت کیا ہے

(قسط 2)

جہاں تک دل کی سختی کے اسباب کا تعلق ہے تو وہ بہت زیادہ ہیں:
1 اللہ کے ذکر کے بغیر کثرت کلام۔ جیسا کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث(فرمایا: اللہ کے ذکر کے بنا زیادہ کلام نا کرو۔ بے شک یہ دل کی سختی کا موجب ہے۔۔۔۔۔) میں اوپر بیان ہوا ہے۔
2 اللہ کے ساتھ کیے ہوئے عہد(وعدے) کو توڑنا۔ اللہ تعالی فرماتے ہیں:

فَبِمَا نَقْضِهِم مِّيثَاقَهُمْ لَعَنَّاهُمْ وَجَعَلْنَا قُلُوبَهُمْ قَاسِيَةً۔۔۔الخ

پھر ان کی عہد شکنی کی وجہ سے ہم نے ان پر اپنی لعنت نازل فرما دی اور ان کے دل سخت کردیئے۔
المائدہ: 13
ابن عقیل رحمہ اللہ نے ایک مرتبہ اپنے وعظ میں فرمایا کہ اے دل کی سختی کے شاکی! اس بات کا خیال رکھو کہ کہیں تم نے اللہ کا عہد تو توڑ نہیں رکھا۔۔؟ کیونکہ اللہ تعالی فرماتے ہیں:”فبما نقضہم میثاقہم۔۔۔۔الخ
(اللہ کا عہد توڑنے سے مراد گناہوں کا ارتکاب بھی ہے۔ اور کفر بھی کہ کافر کا دل علی الاطلاق سب سے سخت دل ہے جو سب سے بڑی حقیقت، توحید، کو قبول نہیں کرتا۔ مترجم)
3 زیادہ ہنسنا۔ چنانچہ ترمذی شریف میں ہے کہ حسن نے ابی ہریرہ رضی اللہ عنہ سے، انہوں نبی ﷺ روایت کیا کہ زیادہ ہنسا نا کرو۔ بے شک یہ دل کو مردہ کر دیتا ہے۔ (اور کہا گیا کہ یہ حسن رضی اللہ عنہ کا قول ہے۔)
ابن ماجہ رحمہ اللہ نے اپنی کتاب میں ابی رجاء سے، انہوں نے برد بن سنان سے، انہوں نے مکحول سے، انہوں نے واثلہ بن الاسقع سے انہوں ابی ہریرہ رضی اللہ عنہ سے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: زیادہ ہنسنا دل کو مردہ کردیتا ہے۔
اسی معنی کے بعض اشعار ابن مبارک رحمہ اللہ سے بھی مروی ہیں:
میں نے گناہوں کو دیکھا کہ وہ دل مردہ کردیتے ہیں
اور اس کے ساتھ ہی ذلت بھی آجاتی ہے
اور گناہوں کو چھوڑ دینا دل کو زندگی بخشتا ہے
پس نفس کے لیے یہ بہتر ہوتا ہے کہ اس کی نا مانی جائے۔

حافظ نصر اللہ جاويد

#ذم_قسوة_القلب_لابن_رجب

یہ بھی پڑھیں: اہلِ بدعت سے تعامل، منہجِ صحابہ