سوال (5864)

رانا محمد اکرم فوت ہوگئے، بیوی پہلے فوت ہو گئی، دو بیٹے تھے وہ بھی فوت ہو گئے، اولاد نہیں ہے، ایک بیٹے کی دو بیویاں ہیں۔ دوسرے کی ایک، رانا اکرم کے دو بھائی تھے ایک حقیقی ایک علاتی، حقیقی رانا اسلم علاتی راناحبیب، بیویوں کے بعد رانا اسلم اور راناحبیب کی اولاد کو کچھ ملے گا، ملےگا تو بیٹے بیٹیوں کو یا صرف بیٹوں کو؟
وضاحت درکار ہے۔ بینوا تؤجروا

جواب

صورت مسئولہ میں رانا محمد اکرم کی زوجہ کا کوئی حصہ نہیں کیونکہ وہ ان سے پہلے فوت ہوگئی تھی۔
دو بیٹے تھے لیکن وہ بھی غالباً تقسیم وراثت سے قبل فوت ہوگئے۔
اگر بیٹے رانا محمد اکرم کی وفات کے وقت حیات تھے تو رانا صاحب کے مال کو دو حصوں میں تقسیم کر کے دونوں بیٹوں کو آدھا آدھا حصہ دیا جائے گا۔
پھر چونکہ رانا صاحب کی تقسیم وراثت سے قبل ہی بیٹے بھی فوت ہوگئے تھے تو دونوں بیٹوں کے حصے دونوں کی بیویوں میں تقسیم ہونگے کہ بیوی کو چوتھائی حصہ ملے گا۔
دو بیوی ہیں تو ایک چوتھائی دونوں میں برابر تقسیم ہوگا۔
اب رانا اکرم کے سگے و پدری دونوں بھائی بھی فوت ہوچکے ہیں تو
باقی مال اصل میت رانا اکرم کے سگے بھائی کے فقط بیٹوں میں بطور عصبہ برابری سے تقسیم ہوگا۔
آسان صورت: رانا محمد اکرم کے کل مال کا ایک چوتھائی نکالیں اور رانا صاحب کے بعد فوت ہونے والے بیٹوں کی تین بیویوں میں برابری سے تقسیم کردیں۔
باقی سارا مال رانا صاحب کے سگے بھائی رانا اسلم کے بیٹوں میں برابری سے تقسیم کردیں۔
وضاحت: بھتیجی ذوی الارحام میں سے ہے۔ یہ عصبہ نہیں بنتی۔
نیز سگے بھائی کے بیٹوں کی موجودگی میں پدری بھائی کے بیٹے محروم ہو جاتے ہیں۔ واللہ اعلم

فضیلۃ العالم فہد انصاری حفظہ اللہ