سوال (1590)

شیوخ عظام ایک خاتون کا سوال ہے کہ میرے شوہر نے ایک بیوہ عورت سے شادی کر لی ہے ، جس کے بچے بھی ہیں تو گھر کا سارا خرچہ میرے ہاتھ میں ہوتا ہے تو میرے اپنے بچے اور ان کے بچوں کے حقوق میں فرق ہوگا یا نہیں، جب کہ میری پوری کوشش ہوتی ہے کہ سب کے درمیان برابری کی جائے ، لیکن کہیں اونچ نیچ ہو جائے تو شریعت اس کے بارے میں کیا کہتی ہے ؟
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج بھی تھیں ام سلمہ رضی اللہ عنہ کے بھی 6 بچے تھے تھوڑی اس کی طرف بھی روشنی ڈالیں ؟

جواب

شوہر جس کی دو بیویاں ہوں ، اس کو شریعت نے عدل کا پابند کیا ہے ، عدل کا معنی ہے ، جس کا جو حق ہے وہ اس کو دیا جائے ، جس کا ایک بچہ ہےاس کو اس کے حساب سے خرچہ ملے گا ، جس کے چار بچے ہیں ، اس کو اس کے حساب سے خرچہ ملے گا ، یہ عدل ہے ، اب خاتون کہہ رہی ہیں کہ خرچے کا معاملہ میرے ہاتھ میں ہے ، میں کوشش کرتی ہوں کہ کوئی کمی و کوتاہی نہ ہو ، بس ان شاءاللہ اتنا کافی ہے ، دل مطمئن ہو ، اللہ تعالیٰ کا خوف ہو ، کمی و کوتاہی اللہ تعالیٰ معاف کرنے والا ہے ، بس قصداً و ارادتاً کمی و کوتاہی نہ کی جائے۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ