شیخ طنطاوی اہل علم کے بارے لکھتے ہیں:

“ہنوز معاملہ یوں ہے کہ حکومت کی طرف سے ڈاکٹر کے سوا کسی کو اجازت نہیں کہ دوائی کا نسخہ لکھ دے، نہ سوائے انجنیئر کسی کو اجازت ہے کہ عمارت کا نقشہ تیار کرے۔ لیکن دین اور ادب کے معاملے میں گویا سب کو کُھلی چھوٹ ہے، جسکا جو من کرتا ہے رائے زنی کرتا پھرتا ہے۔ آج کل پیر و مرشد اور واعظ بننے کے لئے، اپنی دست بوسی اور چاپلوسی کرانے کے لئے اتنا کافی ہے کہ آدمی اپنی داڑھی بڑھا لے، جبہ زیبِ تن کرلے، سر پر پُر خم دستار باندھے ہاتھ میں لمبی سی تسبیح لئے پھرے، اور عوام کے مزاج کے موافق میٹھی بات کرے۔ بھلے ہی پھر وہ کچھ کا کچھ کہے، لوگوں کی گمراہی کا سبب بنے، دین کا سودا دنیا سے کرلے یا بھولی بھالی عوام کا استحصال کرے، اُس سے ان سب کے بارے میں سوال کرنے والا یا پوچھ گچھ والا کوئی نہیں۔ ”

وكتب الشيخ الطنطاوي رحمه الله تعالى:
“وما دامت الحكومة تمنع غير الطبيب أن يكتب وصفة دواء، وغير المهندس أن يرسم مصور بناء، وتدع من يشاء يتكلم في الدين والأدب ما يشاء؟ وما دام كل من يحتاجه الرجل في هذه الأيام ليكون واعظاً مرشداً يقتدى به ويستمع لقوله، وتقبل يده ويتمسح بذيله، أن يعرض لحيته، ويكوّر عمته ويوسع جبته ويطوِّل سُبحته، ويتكلم كلاماً تقبله العامة ولو خرّف وخلّط وضلًَل وأكل الدنيا بالدين واستغل غفلة الغافلين، لا يسأله سائل عما يفعل أو يقول”! (صور و خواطر)

سہیل خالق