سوال (5707)
ڈاکٹر زبیر صاحب میں تعامل اہل بدعت پر جرح کرنا مناسب ہے اور کیا واقعی وقت کا تقاضا نہیں ہے کہ مصلحت کو مدنظر رکھ کر تعامل کیا جائے؟
جواب
پہلے تو یہ واضح ہونا چاہیے کہ ڈاکٹر زبیر صاحب کو جرح کیا ہوئی ہے؟ باقی رہا کہ تعامل کا معاملہ، اگرچہ دعویٰ تو ہے منہج کا، تعامل کا، وغیرہ وغیرہ، اچھا ہے، لیکن عملی زندگی میں شاید اس طرح منہجی معاملات کو نہیں نبھا پاتے جس طرح فتوے لگائے جاتے ہیں۔
باقی ہمارا منہج بالکل واضح ہے اور ہمیں کچھ احتیاط سکھائی گئی، لیکن بسا اوقات علاقائی سطح پر یا اس جمہوری نظام کے تحت بہت سارے کام ہوتے ہیں جو مشترکہ ہوتے ہیں، اجتماعیت کے ساتھ ہوتے ہیں، ملت و قوم کی خاطر، تو اس مسئلے میں بھی شاید ہم راہ اعتدال سے ہٹتے جا رہے ہیں۔ دعویٰ تو ہے، مگر عملی طور پر کمزور ہیں،یا تو بالکل ہی مرجئہ کی طرف لے جاتے ہیں، سب صحیح ہو جاتا ہے،
یا پھر بالکل ہی آؤٹ ہو جاتے ہیں، کچھ بھی صحیح نہیں رہتا، پھر پچاس لوگوں سے واسط پڑتا ہے، وہاں تعامل کہاں جاتا ہے، ہاسپٹل، گاڑیاں، موبائل حتی کہ رشتوں کا معاملہ آتا ہے، وہان تعامل کہاں جاتا ہے، اس چیز کو بلینس کرنے کی ضرورت ہے، ہمیں کسی کے منہج پر شک نہیں ہے، لیکن بلینس کرنے کی ضرورت ہے، ہمیں اپنے منہج پر فخر ہے، لیکن منہج پر اگر عمل نہ ہو اور آپ کوئی ایسا کام کریں جو کتاب و سنت کے مطابق ہو، جس میں وضاحت ہو، تو پھر ان شاء اللہ خیر ہے۔
فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ
پیارے بھائی سوال کی سمجھ نہیں آئی کہ ڈاکٹر زہیر صاحب تعامل اہل بدعت پہ کیا جرح کرتے ہیں جس کے بارے آپ پوچھنا چاہتے ہیں؟
دوسرے سوال میں جو مصلحت اختیار کرنے کا پوچھا گیا ہے وہ کن کے تعامل میں مصلحت اختیار کرنے کی بات کی گئی ہے کیا مشرک و بدعتی سے تعامل میں مصلحت اختیار کرنے کی بات کی گئی ہے؟
فضیلۃ العالم ارشد حفظہ اللہ
سائل: کیا یہ جرح نہیں ہے کہ وہ اہل بدعت کے ساتھ تعامل کرتے ہیں؟
جواب: پیارے بھائی اب آپکی بات سمجھ آئی کہ آپ ڈاکٹر صاحب کے اہل بدعت سے تعامل پہ اعتراض کرنا چاہ رہے تھے، اس سلسلے میں سلفی علما میں تین طرح کے منہج دیکھے ہیں۔
1۔ پہلے وہ لوگ ہیں اہل بدعت کو دو قسموں میں تقسیم کرتے ہیں ایک بدعت کبریٰ اور ایک بدعت صغریٰ
پھر وہ کبریٰ والے سے تعامل نہ کرنے اور صغریٰ والے سے تعامل کرنی کی بات کرتے ہیں مثلا علامہ ڈاکٹر عبد الرشید اظہر اپنی ایک تقریر میں اسی بات کی وضاحت کرتے ہیں اوپر ڈاکٹر زبیر صاحب کا بھی شاید یہی منہج ہو۔
2۔ دوسرے وہ جو ہر قسم کی بدعت کرنے والوں سے دور رہنا لازمی سمجھتے ہیں جیسا کہ آپ کا شاید یہی موقف ہے۔
3۔ تیسرے وہ جو ہر قسم کے بدعتی سے کھلا تعامل رکھتے ہیں چاہے وہ بدعت مکفرہ کا مرتکب ہو یا غیر مکفرہ کا۔ جیسا کہ ہمارے ہاں ضیا اللہ شاہ بخاری ہیں یا مولانا امیر حمزہ وغیرہ ہیں۔
اب اوپر تینوں طرح کے گروہوں کے اپنے دلائل ہوں گے مگر میرے نذدیک پہلے دو گروہ کے پاس دلیل موجود ہے تیسرے گروہ کے پاس صحیح دلیل نہیں ہے۔ پس پہلے دو گروہ کو میں غلط نہیں کہتا صرف اجتہادی غلطی پہ کہتا ہوں۔ ہاں میرے نزدیک تیسرے گروہ کو آپ غلط کہ سکتے ہیں۔ واللہ اعلم
فضیلۃ العالم ارشد حفظہ اللہ
دیکھیں! تعامل مع اہلِ بدعت کے حوالے سے کچھ چیزوں کا تعیّن بہت ضروری ہے۔ سب سے پہلے تو یہ بات واضح ہونی چاہیے کہ لفظ “تعامل” سے مراد کیا ہے؟ کیونکہ پرانے زمانے کی جو نصوص ہیں، جن سے ہم دلائل لیتے ہیں، وہاں تعامل کا مطلب کچھ اور ہوتا ہے۔ اور ہم جس دور میں جی رہے ہیں، یہاں تعامل کا مطلب کچھ اور لیا جا رہا ہوتا ہے۔
تو سب سے پہلا کام تو یہ ہونا چاہیے کہ تعامل کا مطلب واضح کریں۔ جب تک تعامل کا مطلب ہی مبہم رہے گا، ہم کوئی ٹھوس بات نہیں کر سکتے۔
اگر تعامل کا مطلب محبت ہے تو پھر اس پر الگ فتویٰ لگے گا۔ اگر تعامل کا مطلب روزمرہ ملاقاتیں ہیں، تو اس پر الگ بات ہوگی۔ اگر تعامل کا مطلب یہ ہے کہ کسی ضرورت کی وجہ سے کسی بدعتی سے ملنا ہے، تو یہ ایک بالکل الگ معاملہ ہوگا۔ لہٰذا، اس مسئلے میں تعیّن ضروری ہے۔
پھر دوسری بات یہ ہے کہ ہم جب اسلاف رحمہم اللہ کے اقوال سے استنباط کرتے ہیں اور انہیں موجودہ حالات پر لاگو کرتے ہیں، تو یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ وہ اقوال کس پس منظر میں تھے؟ کیا وہ خاص کسی گروہ، خاص قسم کے اہلِ بدعت کے بارے میں تھے؟ یا عمومی؟
ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ کسی ایک رحمہ اللہ کا قول لے کر ہر کسی پر چسپاں کر دیں، چاہے وہ خفیف بدعت والا ہو یا شدید۔ لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے آج کل کے سوشل میڈیا کے پہلوان یہی کر رہے ہیں۔ ان کے ہاتھ میں جیسے “فتویٰ کی بندوق” دے دی گئی ہے، جو چاہتے ہیں، اس پر چلا دیتے ہیں۔
تو یہ دو باتیں بہت اہم ہیں:
1. تعامل کا مطلب واضح ہو۔
2. اسلاف کے اقوال کے سیاق و سباق کو دیکھا جائے۔
تاکہ ہم اطمینانِ قلب کے ساتھ اس مسئلے پر کوئی بات کر سکیں۔
فضیلۃ الشیخ فیض الابرار شاہ حفظہ اللہ