سوال (2826)
کل میں مسجد میں نمازِ عصر کے لیے دوسری جماعت میں ایک یمنی کے ساتھ جوائن ہوا۔ امام وہ یمنی تھا اور میں دائیں سائیڈ پر مقتدی تھا، اُس نے دو رکعات نماز پڑھائی اور اس کا موبائل بجنے لگا، اس نے نماز توڑی اور مجھے اکیلا چھوڑ کر فون سُننے چلا گیا، فون سُن کر واپس آیا تو اس نے پھر میرے ساتھ چوتھی رکعت میں جوائن کیا، اب میں امام تھا اور وہ مقتدی تھا۔
جواب
افسوس اس کی نظر میں فون سننا نماز سے اہم ٹھہرا ہے۔
فضیلۃ الشیخ سعید مجتبیٰ سعیدی حفظہ اللہ
اس کا یہ عمل صریح گناہ اور نافرمانی ہے جس پر اسے صدق دل سے اعتراف جرم کے ساتھ رب العالمین سے معافی مانگنی چاہیے ہے کیونکہ تکبیر تحریمہ کا معنی ہی یہ ہے کہ اس کے ساتھ ہی دنیا کے تمام معاملات حرام ہو جاتے ہیں اور فقط الله تعالی کی عبادت کو خشوع و خضوع کے ساتھ بجا لایا جاتا ہے۔ تو اس کا فون سننا ضروری ہرگز نہیں تھا اس نے یہ حرکت کر کے نماز جیسی عبادت کی توہین کر ڈالی ہے کہ نماز کو اہمیت دینے کی بجائے اس نادان نے فون سننے کو ترجیح واہمیت دی هداه الله تعالى
دوسری بات اب اس کو مکمل نماز شروع سے پڑھنی تھی اگر ایسا ہے تو نماز درست ہے البتہ جو گناہ اس سے سر سزد ہوا اس کے لیے خالص توبہ کرنا ضروری ہے۔
اور اگر اسے مسئلہ کی اہمیت و حساسیت کا علم نہیں تھا تو اس پر کوئی گناہ نہیں ہے لیکن اسے اس مسئلہ کی اہمیت و حکم بتانا ضروری ہے۔
هذا ما عندي والله أعلم بالصواب
فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ
تھوڑا سا اضافہ یہ بھی کرلیا جائے کہ ممکن ہے کہ یہ فون کال ایمرجنسی کی ہو اور کسی کی جان بچانے سے متعلق ہو تو ایسی اضطراری حالت میں نماز کو توڑا جاسکتا ہے۔ واللہ اعلم۔
ہاں اگر ہر فون کال پر نماز توڑ کر فون سننا اسکا معمول و موقف ہو تو پھر تو شیخ نے وضاحت کردی ہے۔
فضیلۃ العالم فہد انصاری حفظہ اللہ
بارك الله فيكم
جی یہ ممکنات میں سے ہے، اس سے دریافت کیا جا سکتا ہے اور تحقیق بھی کی جا سکتی ہے، لیکن سیاق سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ کال اس نوع میں سے نہیں تھی ورنہ وہ دوبارہ نماز میں داخل نہ ہوتا، خیر عمومی حکم و توضیح بیان ہو چکی ہے۔
فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ