سوال (2291)
نماز کے دوران والدین میں سے کوئی بلائے تو کیا کرنا چاہیے؟
جواب
والدین کی اطاعت اولاد پر صرف معروف میں فرض ہے، البتہ گناہ اور شرک کی طرف بلانے پر ہرگز فرض نہیں ہے، رہا مسئلہ نماز کے دوران والدین یا ان میں سے کسی ایک کا بلانا تو اگر آپ صرف نفل نماز پڑھ رہے ہیں تو اس کو توڑ کر جواب دے سکتے ہیں، جیسا کہ صحیح البخاری وغیرہ میں حضرت جریج رحمه الله تعالى کے واقعہ سے جواز ثابت ہوتا ہے۔ اور اگر نماز فرض ہے تو تب آپ پہلے نماز مکمل کریں گے پھر ان کی بات سنیں گے۔
هذا ما عندي والله أعلم بالصواب
فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ
سائل:
کیا جریج نفل نماز میں تھے؟ کیا ہر بار ماں کی آمد پر نماز ہی میں مشغول ہوتے تھے؟ ماں بددعا دے کر چلی گئی تھی، آخر کس قدر لمبی نماز تھی کہ ماں انتظار نہیں کر سکی تھی؟ نماز کا طریقہ ادائیگی کیسا تھا؟
جواب:
کچھ علماء مثلاً امام نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ وہ نفل نماز میں مصروف تھے اور کچھ علماء کہتے ہیں کہ وہ نماز اگر فرض تھی تو ہوسکتا ہے کہ اس دین میں فرض نماز کو بھی والدین کی بات کا جواب دینے کے لیے قطع کرنا درست ہو اور وہ ہر بار نماز میں ہی مشغول تھے جیسا کہ احادیث سے ثابت ہے۔
فضیلۃ العالم عبد الخالق سیف حفظہ اللہ
پہلی امتوں میں لوگ اختیاری طور پر رہبانیت اختیار کر لیتے تھے۔ اور وہ اپنا زیادہ وقت اذکار و عبادات میں ہی صرف کرتے تھے۔ ام جریج جب گئیں تو ہر دفعہ اس وقت وہ عبادت میں مصروف ہوتے تھے۔ اس لیے وہ والدہ کی بات نہ سن سکے اور نماز میں ہی مصروف رہے۔ ہمارے لیے مسئلہ یہی ہوگا کہ والدین کے پکارنے پر فرض نماز کو ممکن حد تک مختصر کر کے جاکر والدین کی بات سنی جائے، نفل عبادت ہو تو وہ اندازہ کرے اگر کوئی ایمرجنسی ہو تو فوراً نماز چھوڑ دے بلکہ ایمرجنسی میں تو فرض کو بھی چھوڑ سکتا ہے۔
فضیلۃ الشیخ سعید مجتبیٰ سعیدی حفظہ اللہ
بارك الله فيكم وعافاكم أيها الدكتور الفاضل
ﻋﻦ ﺃﺑﻲ ﺭاﻓﻊ، ﻋﻦ ﺃﺑﻲ ﻫﺮﻳﺮﺓ، ﺃﻧﻪ ﻗﺎﻝ: ﻛﺎﻥ ﺟﺮﻳﺞ ﻳﺘﻌﺒﺪ ﻓﻲ ﺻﻮﻣﻌﺔ، ﻓﺠﺎءﺕ ﺃﻣﻪ. ﻗﺎﻝ ﺣﻤﻴﺪ: ﻓﻮﺻﻒ ﻟﻨﺎ ﺃﺑﻮ ﺭاﻓﻊ ﺻﻔﺔ ﺃﺑﻲ ﻫﺮﻳﺮﺓ ﻟﺼﻔﺔ ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﺃﻣﻪ ﺣﻴﻦ ﺩﻋﺘﻪ، ﻛﻴﻒ ﺟﻌﻠﺖ ﻛﻔﻬﺎ ﻓﻮﻕ ﺣﺎﺟﺒﻬﺎ، ﺛﻢ ﺭﻓﻌﺖ ﺭﺃﺳﻬﺎ ﺇﻟﻴﻪ ﺗﺪﻋﻮﻩ، ﻓﻘﺎﻟﺖ: ﻳﺎ ﺟﺮﻳﺞ ﺃﻧﺎ ﺃﻣﻚ ﻛﻠﻤﻨﻲ ﻓﺼﺎﺩﻓﺘﻪ ﻳﺼﻠﻲ، ﻓﻘﺎﻝ: اﻟﻠﻬﻢ ﺃﻣﻲ ﻭﺻﻼﺗﻲ، ﻓﺎﺧﺘﺎﺭ ﺻﻼﺗﻪ، ﻓﺮﺟﻌﺖ، ﺛﻢ ﻋﺎﺩﺕ ﻓﻲ اﻟﺜﺎﻧﻴﺔ، ﻓﻘﺎﻟﺖ: ﻳﺎ ﺟﺮﻳﺞ ﺃﻧﺎ ﺃﻣﻚ ﻓﻜﻠﻤﻨﻲ، ﻗﺎﻝ: اﻟﻠﻬﻢ ﺃﻣﻲ ﻭﺻﻼﺗﻲ، ﻓﺎﺧﺘﺎﺭ ﺻﻼﺗﻪ، ﻓﻘﺎﻟﺖ: اﻟﻠﻬﻢ ﺇﻥ ﻫﺬا ﺟﺮﻳﺞ ﻭﻫﻮ اﺑﻨﻲ ﻭﺇﻧﻲ ﻛﻠﻤﺘﻪ، ﻓﺄﺑﻰ ﺃﻥ ﻳﻜﻠﻤﻨﻲ، اﻟﻠﻬﻢ ﻓﻼ ﺗﻤﺘﻪ ﺣﺘﻰ ﺗﺮﻳﻪ اﻟﻤﻮﻣﺴﺎﺕ. ﻗﺎﻝ: ﻭﻟﻮ ﺩﻋﺖ ﻋﻠﻴﻪ ﺃﻥ ﻳﻔﺘﻦ ﻟﻔﺘﻦ…….
[صحيح مسلم :7 \ 2550] ﺑﺎﺏ ﺗﻘﺪﻳﻢ ﺑﺮ اﻟﻮاﻟﺪﻳﻦ ﻋﻠﻰ اﻟﺘﻄﻮﻉ ﺑﺎﻟﺼﻼﺓ ﻭﻏﻴﺮﻫﺎ
ﻋﻦ ﺃﺑﻲ ﻫﺮﻳﺮﺓ، ﻋﻦ اﻟﻨﺒﻲ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ، ﻗﺎﻝ: ﻟﻢ ﻳﺘﻜﻠﻢ ﻓﻲ اﻟﻤﻬﺪ ﺇﻻ ﺛﻼﺛﺔ ﻋﻴﺴﻰ اﺑﻦ ﻣﺮﻳﻢ ، ﻭﺻﺎﺣﺐ ﺟﺮﻳﺞ، ﻭﻛﺎﻥ ﺟﺮﻳﺞ ﺭﺟﻼ ﻋﺎﺑﺪا، ﻓﺎﺗﺨﺬ ﺻﻮﻣﻌﺔ، ﻓﻜﺎﻥ ﻓﻴﻬﺎ، ﻓﺄﺗﺘﻪ ﺃﻣﻪ ﻭﻫﻮ ﻳﺼﻠﻲ، ﻓﻘﺎﻟﺖ: ﻳﺎ ﺟﺮﻳﺞ ﻓﻘﺎﻝ: ﻳﺎ ﺭﺏ ﺃﻣﻲ ﻭﺻﻼﺗﻲ، ﻓﺄﻗﺒﻞ ﻋﻠﻰ ﺻﻼﺗﻪ، ﻓﺎﻧﺼﺮﻓﺖ، ﻓﻠﻤﺎ ﻛﺎﻥ ﻣﻦ اﻟﻐﺪ ﺃﺗﺘﻪ ﻭﻫﻮ ﻳﺼﻠﻲ، ﻓﻘﺎﻟﺖ: ﻳﺎ ﺟﺮﻳﺞ ﻓﻘﺎﻝ: ﻳﺎ ﺭﺏ ﺃﻣﻲ ﻭﺻﻼﺗﻲ، ﻓﺄﻗﺒﻞ ﻋﻠﻰ ﺻﻼﺗﻪ، ﻓﺎﻧﺼﺮﻓﺖ، ﻓﻠﻤﺎ ﻛﺎﻥ ﻣﻦ اﻟﻐﺪ ﺃﺗﺘﻪ ﻭﻫﻮ ﻳﺼﻠﻲ ﻓﻘﺎﻟﺖ: ﻳﺎ ﺟﺮﻳﺞ ﻓﻘﺎﻝ: ﺃﻱ ﺭﺏ ﺃﻣﻲ ﻭﺻﻼﺗﻲ، ﻓﺄﻗﺒﻞ ﻋﻠﻰ ﺻﻼﺗﻪ، ﻓﻘﺎﻟﺖ: اﻟﻠﻬﻢ ﻻ ﺗﻤﺘﻪ ﺣﺘﻰ ﻳﻨﻈﺮ ﺇﻟﻰ ﻭﺟﻮﻩ اﻟﻤﻮﻣﺴﺎﺕ۔۔۔۔۔۔۔
[صحیح مسلم: 8 \ 2550]
ﻋﻦ ﻋﺒﺪ اﻟﺮﺣﻤﻦ ﺑﻦ ﻫﺮﻣﺰ، ﻗﺎﻝ: ﻗﺎﻝ ﺃﺑﻮ ﻫﺮﻳﺮﺓ ﺭﺿﻲ اﻟﻠﻪ ﻋﻨﻪ: ﻗﺎﻝ ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ: ” ﻧﺎﺩﺕ اﻣﺮﺃﺓ اﺑﻨﻬﺎ ﻭﻫﻮ ﻓﻲ ﺻﻮﻣﻌﺔ، ﻗﺎﻟﺖ: ﻳﺎ ﺟﺮﻳﺞ، ﻗﺎﻝ: اﻟﻠﻬﻢ ﺃﻣﻲ ﻭﺻﻼﺗﻲ، ﻗﺎﻟﺖ: ﻳﺎ ﺟﺮﻳﺞ، ﻗﺎﻝ: اﻟﻠﻬﻢ ﺃﻣﻲ ﻭﺻﻼﺗﻲ، ﻗﺎﻟﺖ: ﻳﺎ ﺟﺮﻳﺞ، ﻗﺎﻝ: اﻟﻠﻬﻢ ﺃﻣﻲ ﻭﺻﻼﺗﻲ۔۔۔۔۔۔۔
صحیح البخاری : 1206ﺑﺎﺏ ﺇﺫا ﺩﻋﺖ اﻷﻡ ﻭﻟﺪﻫﺎ ﻓﻲ اﻟﺼﻼﺓ
ﻓﺄﺗﺖ ﺃﻣﻪ ﻳﻮﻣﺎ ﻓﻘﺎﻟﺖ: ﻳﺎ ﺟﺮﻳﺞ، ﻭﻫﻮ ﻳﺼﻠﻲ، ﻓﻘﺎﻝ ﻓﻲ ﻧﻔﺴﻪ ﻭﻫﻮ ﻳﺼﻠﻲ: ﺃﻣﻲ ﻭﺻﻼﺗﻲ؟ ﻓﺮﺃﻯ ﺃﻥ ﻳﺆﺛﺮ ﺻﻼﺗﻪ، ﺛﻢ ﺻﺮﺧﺖ ﺑﻪ اﻟﺜﺎﻧﻴﺔ، ﻓﻘﺎﻝ ﻓﻲ ﻧﻔﺴﻪ: ﺃﻣﻲ ﻭﺻﻼﺗﻲ؟ ﻓﺮﺃﻯ ﺃﻥ ﻳﺆﺛﺮ ﺻﻼﺗﻪ، ﺛﻢ ﺻﺮﺧﺖ ﺑﻪ اﻟﺜﺎﻟﺜﺔ، ﻓﻘﺎﻝ: ﺃﻣﻲ ﻭﺻﻼﺗﻲ؟ ﻓﺮﺃﻯ ﺃﻥ ﻳﺆﺛﺮ ﺻﻼﺗﻪ، ﻓﻠﻤﺎ ﻟﻢ ﻳﺠﺒﻬﺎ ﻗﺎﻟﺖ۔۔۔۔۔۔۔
[الأدب المفرد للبخارى: 33]
ﻋﻦ ﺃﺑﻲ ﻫﺮﻳﺮﺓ، ﻋﻦ اﻟﻨﺒﻲ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ، ﻗﺎﻝ: ﻟﻢ ﻳﺘﻜﻠﻢ ﻓﻲ اﻟﻤﻬﺪ ﺇﻻ ﺛﻼﺛﺔ: ﻋﻴﺴﻰ اﺑﻦ ﻣﺮﻳﻢ، ﻭﺻﺒﻲ ﻛﺎﻥ ﻓﻲ ﺯﻣﺎﻥ ﺟﺮﻳﺞ، ﻭﺻﺒﻲ ﺁﺧﺮ ” ﻓﺬﻛﺮ اﻟﺤﺪﻳﺚ، ﻗﺎﻝ: ” ﻭﺃﻣﺎ ﺟﺮﻳﺞ ﻓﻜﺎﻥ ﺭﺟﻼ ﻋﺎﺑﺪا ﻓﻲ ﺑﻨﻲ ﺇﺳﺮاﺋﻴﻞ، ﻭﻛﺎﻧﺖ ﻟﻪ ﺃﻡ، ﻓﻜﺎﻥ ﻳﻮﻣﺎ ﻳﺼﻠﻲ، ﺇﺫ اﺷﺘﺎﻗﺖ ﺇﻟﻴﻪ ﺃﻣﻪ، ﻓﻘﺎﻟﺖ: ﻳﺎ ﺟﺮﻳﺞ. ﻓﻘﺎﻝ: ﻳﺎ ﺭﺏ، اﻟﺼﻼﺓ ﺧﻴﺮ ﺃﻡ ﺁﺗﻴﻬﺎ؟ ﺛﻢ ﺻﻠﻰ، ﻭﺩﻋﺘﻪ، ﻓﻘﺎﻝ ﻣﺜﻞ ﺫﻟﻚ، ﺛﻢ ﺩﻋﺘﻪ، ﻓﻘﺎﻝ ﻣﺜﻞ ﺫﻟﻚ، ﻭﺻﻠﻰ، ﻓﺎﺷﺘﺪ ﻋﻠﻰ ﺃﻣﻪ
[مسند أحمد بن حنبل: 8072 سنده صحيح]
ﻋﻦ ﺃﺑﻲ ﻫﺮﻳﺮﺓ، ﻗﺎﻝ: ﻛﺎﻥ ﺟﺮﻳﺞ ﻳﺘﻌﺒﺪ ﻓﻲ ﺻﻮﻣﻌﺘﻪ، ﻗﺎﻝ: ﻓﺄﺗﺘﻪ ﺃﻣﻪ، ﻓﻘﺎﻟﺖ: ﻳﺎ ﺟﺮﻳﺞ، ﺃﻧﺎ ﺃﻣﻚ، ﻓﻜﻠﻤﻨﻲ “، ﻗﺎﻝ: ﻭﻛﺎﻥ ﺃﺑﻮ ﻫﺮﻳﺮﺓ ﻳﺼﻒ ﻛﻤﺎ ﻛﺎﻥ ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﻳﺼﻔﻬﺎ، ﻭﺿﻊ ﻳﺪﻩ ﻋﻠﻰ ﺣﺎﺟﺒﻪ اﻷﻳﻤﻦ، ﻗﺎﻝ: ” ﻓﺼﺎﺩﻓﺘﻪ ﻳﺼﻠﻲ، ﻓﻘﺎﻝ: ﻳﺎ ﺭﺏ ﺃﻣﻲ ﻭﺻﻼﺗﻲ، ﻓﺎﺧﺘﺎﺭ ﺻﻼﺗﻪ، ﻓﺮﺟﻌﺖ، ﺛﻢ ﺃﺗﺘﻪ ﻓﺼﺎﺩﻓﺘﻪ ﻳﺼﻠﻲ، ﻓﻘﺎﻟﺖ: ﻳﺎ ﺟﺮﻳﺞ، ﺃﻧﺎ ﺃﻣﻚ ﻓﻜﻠﻤﻨﻲ، ﻓﻘﺎﻝ: ﻳﺎ ﺭﺏ ﺃﻣﻲ ﻭﺻﻼﺗﻲ، ﻓﺎﺧﺘﺎﺭ ﺻﻼﺗﻪ، ﺛﻢ ﺃﺗﺘﻪ ﻓﺼﺎﺩﻓﺘﻪ ﻳﺼﻠﻲ، ﻓﻘﺎﻟﺖ: ﻳﺎ ﺟﺮﻳﺞ، ﺃﻧﺎ ﺃﻣﻚ ﻓﻜﻠﻤﻨﻲ، ﻗﺎﻝ: ﻳﺎ ﺭﺏ ﺃﻣﻲ ﻭﺻﻼﺗﻲ، ﻓﺎﺧﺘﺎﺭ ﺻﻼﺗﻪ، ﻓﻘﺎﻟﺖ: اﻟﻠﻬﻢ ﻫﺬا ﺟﺮﻳﺞ، ﻭﺇﻧﻪ اﺑﻨﻲ، ﻭﺇﻧﻲ ﻛﻠﻤﺘﻪ ﻓﺄﺑﻰ ﺃﻥ ﻳﻜﻠﻤﻨﻲ، اﻟﻠﻬﻢ ﻓﻼ ﺗﻤﺘﻪ ﺣﺘﻰ ﺗﺮﻳﻪ اﻟﻤﻮﻣﺴﺎﺕ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[مسند أحمد بن حنبل: 9602 صحیح]
شیخ ابن عثیمین رحمه الله تعالى اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں:
ﻭﻳﺴﺘﻔﺎﺩ ﻣﻦ ﻫﺬﻩ اﻟﺠﻤﻠﺔ ﻣﻦ ﻫﺬا اﻟﺤﺪﻳﺚ ﺃﻥ اﻟﻮاﻟﺪﻳﻦ ﺇﺫا ﻧﺎﺩﻳﺎﻛ ﻭﺃﻧﺖ ﺗﺼﻠﻲ، ﻓﺈﻥ اﻟﻮاﺟﺐ ﺇﺟﺎﺑﺘﻬﻤﺎ، ﻟﻜﻦ ﺑﺸﺮﻁ ﺃﻻ ﺗﻜﻮﻥ اﻟﺼﻼﺓ ﻓﺮﻳﻀﺔ، ﻓﺈﻥ ﻛﺎﻧﺖ ﻓﺮﻳﻀﺔ ﻓﻼ ﻳﺠﻮﺯ ﺃﻥ ﺗﺠﻴﺒﻬﻤﺎ، ﻟﻜﻦ ﺇﺫا ﻛﺎﻧﺖ ﻧﺎﻓﻠﺔ ﻓﺄﺟﺒﻬﻤﺎ.
ﺇﻻ ﺇﺫا ﻛﺎﻧﺎ ﻣﻤﻦ ﻳﻘﺪﺭﻭﻥ اﻷﻣﻮﺭ ﻗﺪﺭﻫﺎ، ﻭﺃﻧﻬﻤﺎ ﺇﺫا ﻋﻠﻤﺎ ﺃﻧﻚ ﻓﻲ ﺻﻼﺓ ﻋﺬﺭاﻙ ﻓﻬﻨﺎ ﺃﺷﺮ ﺇﻟﻴﻬﻤﺎ ﺑﺄﻧﻚ ﻓﻲ ﺻﻼﺓ؛ ﺇﻣﺎ ﺑﺎﻟﻨﺤﻨﺤﺔ، ﺃﻭ ﺑﻘﻮﻝ: ﺳﺒﺤﺎﻥ اﻟﻠﻪ، ﺃﻭ ﺑﺮﻓﻊ ﺻﻮﺗﻚ ﻓﻲ ﺁﻳﺔ ﺗﻘﺮﺅﻫﺎ، ﺃﻭ ﺩﻋﺎء ﺗﺪﻋﻮ ﺑﻪ، ﺣﺘﻰ ﻳﺸﻌﺮ اﻟﻤﻨﺎﺩﻱ ﺑﺄﻧﻚ ﻓﻲ ﺻﻼﺓ، ﻓﺈﺫا ﻋﻠﻤﺖ ﺃﻥ ﻫﺬﻳﻦ اﻷﺑﻮﻳﻦ: اﻷﻡ ﻭاﻷﺏ ﻋﻨﺪﻫﻤﺎ ﻣﺮﻭﻧﺔ؛ ﻳﻌﺬﺭاﻧﻚ ﺇﺫا ﻛﻨﺖ ﺗﺼﻠﻲ ﺃﻻ ﺗﺠﻴﺐ؛ ﻓﻨﺒﻬﻬﻢ ﻋﻠﻰ ﺃﻧﻚ ﺗﺼﻠﻲ.
ﻓﻤﺜﻼ ﺇﺫا ﺟﺎءﻙ ﺃﺑﻮﻙ ﻭﺃﻧﺖ ﺗﺼﻠﻲ ﺳﻨﺔ اﻟﻔﺠﺮ، ﻗﺎﻝ: ﻳﺎ ﻓﻼﻥ؛ ﻭﺃﻧﺖ ﺗﺼﻠﻲ، ﻓﺈﻥ ﻛﺎﻥ ﺃﺑﻮﻙ ﺭﺟﻼ ﻣﺮﻧﺎ ﻳﻌﺬﺭﻙ ﻓﺘﻨﺤﻨﺢ ﻟﻪ، ﺃﻭ ﻗﻞ: ﺳﺒﺤﺎﻥ اﻟﻠﻪ، ﺃﻭ اﺭﻓﻊ ﺻﻮﺗﻚ ﺑﺎﻟﻘﺮاءﺓ ﺃﻭ ﺑﺎﻟﺪﻋﺎء ﺃﻭ ﺑﺎﻟﺬﻛﺮ اﻟﺬﻱ ﺃﻧﺖ ﻓﻴﻪ، ﺣﺘﻰ ﻳﻌﺬﺭﻙ.
ﻭﺇﻥ ﻛﺎﻥ ﻣﻦ اﻵﺧﺮﻳﻦ اﻟﺬﻳﻦ ﻻ ﻳﻌﺬﺭﻭﻥ، ﻭﻳﺮﻳﺪﻭﻥ ﺃﻥ ﻳﻜﻮﻥ ﻗﻮﻟﻪ ﻫﻮ اﻷﻋﻠﻰ ﻓﺎﻗﻄﻊ ﺻﻼﺗﻚ ﻭﻛﻠﻤﻬﻢ، ﻭﻛﺬﻟﻚ ﻳﻘﺎﻝ ﻓﻲ اﻷﻡ.
ﺃﻣﺎ اﻟﻔﺮﻳﻀﺔ ﻓﻼ ﺗﻘﻄﻌﻬﺎ ﻷﺣﺪ، ﺇﻻ ﻋﻨﺪ اﻟﻀﺮﻭﺭﺓ، ﻛﻤﺎ ﻟﻮ ﺭﺃﻳﺖ ﺷﺨﺼﺎ ﺗﺨﺸﻰ ﺃﻥ ﻳﻘﻊ ﻓﻲ ﻫﻠﻜﺔ؛ ﻓﻲ ﺑﺌﺮ، ﺃﻭ ﻓﻲ ﺑﺤﺮ ﺃﻭ ﻓﻲ ﻧﺎﺭ، ﻓﻬﻨﺎ اﻗﻄﻊ ﺻﻼﺗﻚ ﻟﻠﻀﺮﻭﺭﺓ، ﻭﺃﻣﺎ ﻟﻐﻴﺮ ﺫﻟﻚ ﻓﻼ ﻳﺠﻮﺯ ﻗﻄﻊ اﻟﻔﺮﻳﻀﺔ
[شرح ریاض الصالحین: 3/ 73، 74]
فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ
عمومی طور پہ علماء کا اس طرف رجحان ہے کہ یہ نفلی نماز تھی یا وہی توجیہ ہے جو ہمارے علماء نے کی ہے، جیسے ہمارے ہاں بھی پہلے گنجائش تھی کہ فرض نماز میں بات چیت کرلیتے تھے۔
“إِنْ كُنَّا لَنَتَكَلَّمُ فِي الصَّلَاةِ عَلَى عَهْدِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُكَلِّمُ أَحَدُنَا صَاحِبَهُ بِحَاجَتِهِ حَتَّى نَزَلَتْ: حَافِظُوا عَلَى الصَّلَوَاتِ [سورة البقرة: 238]، فَأُمِرْنَا بِالسُّكُوتِ” [صحیح البخاری: 1200]
«ہم نبی کریم ﷺ کے عہد میں نماز پڑھنے میں باتیں کرلیا کرتے تھے۔ کوئی بھی اپنے قریب کے نمازی سے اپنی ضرورت بیان کردیتا۔ پھر آیت حافظوا على الصلوات الخ اتری اور ہمیں (نماز میں) خاموش رہنے کا حکم ہوا»
دوسرا یہ ہے کہ ہماری شریعت کے اندر یہ بھی ہے کہ فرض نماز توڑ کر کسی کو جواب نہیں دیا جا سکتا ہے، اس لیے کہ وہ اللہ تعالیٰ کا فریضہ ہے، الا یہ کہ کوئی حادثاتی صورت نہ ہو۔ باقی نماز کو طول نہ دے، اختصار کے ساتھ نماز پڑھ کر جلدی والدین کو جواب دے۔
فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ