دوسرے کے کام میں ٹانگ اڑانے کی دو معروف صورتیں ہیں:
ایک شخص کسی خاص حلقے میں دین کا بہترین طریقے سے کام کر رہا ہوتا ہے، لیکن شیطان اس کے ذہن میں ڈالتا ہے کہ فلاں شخص میری طرح کام کیوں نہیں کر رہا؟ مثلا فرض کریں میں اپنے گاؤں کے ماحول میں دعوتِ دین کا کام کر رہا ہوں، اور میرا ایک دوست یونیورسٹی اور کارپوریٹ ماحول میں لوگوں کی اصلاح کا کام کر رہا ہے۔ لیکن ہم دونوں کو یہ فکر لاحق ہو جائے کہ دوسرا میری طرح کام کیوں نہیں کر رہا؟ بلکہ یہ بات ذہن پر سوار ہو جائے کہ وہ تو دین کا بیڑہ غرق کر رہا ہے، وغیرہ۔ تو اس کا مطلب ہے شیطان ہمیں اپنے اپنے کام سے ہٹانے کی کوشش کر رہا ہے۔
اسی سے ملتی جلتی ایک صورت اور بھی ہے کہ بعض دفعہ انسان کو اللہ تعالی نے کسی خاص میدان، موضوع، فن، علم میں مہارت دی ہوئی ہوتی ہے۔ لیکن اس کی ساری دلچسپیاں ان لوگوں کی اصلاح ، بلکہ ان پر رعب جمانا ہوتا ہے، جن کا اس کے ساتھ کسی قسم کا کوئی لنک ہی نہیں ہے۔
مثلا ایک شخص کو اللہ نے صلاحیت دی ہے کہ وہ بہترین موٹیویشنل اسپیکر اور ڈیبیٹر ہے، ساتھ ساتھ اسلام کی مبادیات سے آگاہ ہے، لوگ اس کی بات کو توجہ سے سنتے ہیں، اسے چاہیے کہ جو پلیٹ فارمز اسے میسر ہیں، وہ وہاں اپنی سمجھ بوجھ کے مطابق اسلام کا مقدمہ لڑے، غیر مسلموں کو یا اسلام بیزار لوگوں کو دین کی طرف دعوت دے۔ سب لوگ اسے سراہیں گے۔ بطور مثال ڈاکٹر ذاکر نائیک صاحب کو لیا جا سکتا ہے کہ اللہ تعالی نے انہیں جو مہارت دی ہے، انہوں نے اس کے مطابق تقریبا اپنی ڈومین میں رہ کر کام کیا ہے، لہذا عالم و غیر عالم عموما سب لوگوں نے ہی اس کی تعریف کی ہے۔
مزید ایک اور مثال آپ قیصر احمد راجا صاحب کی لے سکتے ہیں کہ وہ کس طرح اپنی صلاحیت اور اہلیت کے مطابق اسلام کی دعوت اور دفاع کا کام کر رہے ہیں۔
جبکہ اس کے برعکس مثال آپ ساحل عدیم صاحب کی لے لیں، ان کو آپ بہت کم دیکھیں گے کہ اپنی ڈومین میں رہ کر بات کریں، بہانے بہانے سے مذہبی طبقہ اور علمائے کرام پر طعن تشنیع کے تیر برسانا شروع ہو جاتے ہیں۔
اس کی مزید بری مثال انجینئر مرزا صاحب ہیں، جنہوں نے ساری دنیا کا کفر، شرک اور گمراہیاں چھوڑ کر علماء و مسالک پر تنقید والا چورن بیچنا ہوتا ہے۔

اللہ تعالی نے آپ کو علم، معرفت، تجربہ دوسروں کو جاہل قرار دینے اور ان پر رعب جمانے کے لیے دیا ہے یا ان کی بہتری اور خیر خواہی کے لیے استعمال کا سلیقہ بھی ہے؟
مثلا آپ پرویز ہود بائی جیسوں کی طرح تو نہیں ہیں جنہوں نے سائنس کا علم مولویوں کو جاہل کہنے کے لیے پڑھا ہے؟
کوئی بعید نہیں کہ آپ کے پاس کوئی مفید علم اور سکل ہو اور آپ اس سے اتنا ہی فائدہ اٹھا رہے ہوں، جتنا پرویز ہود اپنی سائنس اور حسن نثار اپنی دانش، مرزا صاحب اپنی انجینئرنگ اور ساحل عدیم صاحب اپنی ’نفسیات’ سے اٹھا رہا ہے؟

میں نے عموما مثالیں غیر روایتی شخصیات کی دی ہیں، لیکن ہر دو صورتوں میں ٹانگ اڑانے والا کام بعض روایتی یعنی مسلکی شخصیات نے بھی کیا اور مزید کر رہے ہیں۔ مثلا اگر کسی روایتی عالم دین سے اللہ تعالی نے کسی مسلک کی دعوت و تبلیغ یا تحقیق و تصنیف یا اس سے متعلقہ تراث کی خدمت کا کام لیا ہے تو اب وہ اپنی ڈومین سے باہر ہر شخصیت، جماعت اور ادارے پر تنقید کرنا، بلکہ اس کے خلاف فساد مچانا اپنا حق سمجھ لیتا ہے۔
حالانکہ آپ کا کام لکھنا لکھانا ہے، آپ بند کمرے کے محقق و مصنف یا مناظر و مبلغ ہیں، آپ کے نزدیک ایک فرقہ ہی مکمل امت ہوتا ہے، امت اور اتحاد جیسے الفاظ آپ کے نزدیک ایک طعنے کی حیثیت رکھتے ہیں، تفرقہ بازی آپ کے نزدیک عین اسلام ہے، اس سوچ کے ساتھ آپ کیسے اس شخص پر بات کر سکتے ہیں، جس نے تمام مسالک کے ساتھ مل کر چلنا ہے، آپ کے نزدیک کسی غیر مسلک کے مسلمان سے خوش ہو کر ملنا ناقض ایمان ہے، اور آپ رائے دینا ان پر بھی ضروری سمجھتے ہیں، جنہوں نے دیگر ادیان و مذاہب کے لوگوں کے ساتھ بھی مناظرے اور مباحثے کرنے ہوتے ہیں!
ایک عالم دین کو سن رہا تھا انہوں نے اپنے مسلک کے ایک دوسرے عالم کو صرف اس وجہ سے غیر منہجی قرار دیا کہ اس نے کسی دوسرے مسلک کے عالم دین کے ساتھ مل کر ملحدین وغیرہ کے ساتھ کوئی مناظرہ کیا تھا!

دوسروں کے کام میں ٹانگ اڑانے والا کام ایسا ہے، کہ جو ٹانگ اڑا رہا ہوتا ہے یہ اسے کم ہی محسوس ہوتا ہے، لیکن اس تفصیل کو سمجھنا ان لوگوں کے لیے آسانی کا ذریعہ ہو سکتا ہے جو عموما فریقین اور اطراف کو سن پڑھ رہے ہوتے ہیں۔
اگر آپ کو لگے کہ کوئی صحافی یا اینکر پرسن یا مفکر توحید اور اتباع سنت اور روایتی علوم کے حوالے سے کسی عالم دین سے نالاں ہو رہا ہے، تو اس کی بات کی پرواہ نہ کریں، بالکل اسی طرح اگر کوئی مناظرانہ ذہنیت اور فرقہ پرست سوچ کا مالک جدید فکری مسائل کے حوالے سے کسی عالم دین پر بگڑ رہا ہو تو اس کو معذور سمجھتے ہوئے نظر انداز کریں!
انسان خطاؤں کا پتلا اور نفس امارہ سے مغلوب ہونے والی مخلوق ہے، کسی کو اتنا ہیرو نہ بنائیں کہ وہ ارد گرد کے لوگوں پر ظلم و ستم ڈھانا شروع کردے اور قلم و لسان کو تلوار و سنان کی طرح چلانا شروع کر دے، جبکہ دوسری طرف کسی کو کسی غلطی و کوتاہی کے سبب اتنا نہ گرائیں کہ ہم اس کی خیر سے ہی محروم ہونا شروع ہو جائیں۔
سوشل میڈیا کے اس دور میں اگر دو چار لوگ واٹس ایپ گروپ سے فتنہ لانچ کر دیتے ہیں یا چند قلمکار اپنے قلم کی کاٹ سے کایا پلٹنے کا زعم پال لیتے ہیں تو اس کا ایک ہی مطلب ہے کہ ہم بحیثیت قارئین و سامعین کمزور اور جذباتی ہیں کہ جو فورا کسی نہ کسی کی سازش اور مہم کا شکار اور آلہ کار بن جاتے ہیں۔
امت اور معاشرے کو اس وقت کام کرنے والوں کی ضرورت ہے، لہذا کام کریں اور کام کرنے والوں کی حوصلہ افزائی کریں، مثبت سوچیں اور مثبت سرگرمیوں کو نصرت و تائید کریں، لڑائیوں بھڑائیوں کی حوصلہ شکنی کریں، یہ مزاج قابل اصلاح ہے کہ آگے لگانے والی چیزوں کو پروموٹ کیا جائے، لیکن فتنہ ختم کرنے والی کوششوں کو نظر انداز کیا جائے۔
اگر کوئی اچھا کام کرے اس کی حوصلہ افزائی کریں، اگر وہی کوئی غلطی کرے تو اصلاح کریں، نہیں کر سکتے تو کم ازکم اس کو سپورٹ نہ کریں۔
اللہ تعالی سب کو بصارت و بصیرت اور علم و حکمت کی نعمت سے مالا مال فرمائے۔

#خیال_خاطر