ڈاکٹر صاحب ایک اچھے اور فصیح وبلیغ مقرر تھے۔ عام طور پر ان کو ہمارے ملک میں مذہبی سکالر اور دینی دانشور کےطور پر جانا جاتا ہے۔ بہت سے تعلیم یافتہ لوگ اب تک ان کے افکار کے اسیر ہیں۔
ہم نے بھی ایامِ جوانی میں ان کو پڑھا اور پرکھا تھا، مگر اسے ہماری بدقسمتی کہہ لیں یا پھر ان کی کوئی کمی وکوتاہی کہ ہم ان سے بالکل متاثر نہ ھو سکے۔
ہمارے خیال میں وہ سخت قسم کے متلون مزاج آدمی تھے، جب جماعتِ اسلامی سے الگ ھوئے تو پھر مولانا مودودی کے خلاف “تحریکِ جماعت اسلامی” نامی کتاب لکھ دی ، اس میں اور تو اور مولانا مودودی کے تصورِ دین کو بھی غلط قرار دے دیا، بلکہ اس کتاب کے حاشیہ میں ایک جگہ مولانا وحیدالدین خان صاحب کی “تعبیر کی غلطی” اور مولانا ابو الحسن علی ندوی کی کتاب ،، عصرِ حاضر میں دین کی تفھیم وتشریح پر ایک نظر ،، کی کھل کر تائید کی تھی۔
اسی زمانے میں ہی وہ مولانا امین اصلاحی کے شاگرد بنے تھے ، اس وقت انھوں نے ،، نقضِ غزل ،، کے نام سے ایک اور کتاب لکھی، جس میں انھوں نے مولانا مودودی کے متعلق مولانا امین احسن اصلاحی سے یہ بات تک کہلوائی کہ ،، لافرق بینہ وبین پرویز ،، یعنی مولانا مودودی اور پرویز کے درمیان کوئی فرق نہیں ھے، مگر کچھ ہی عرصہ بعد جب مولانا امین احسن اصلاحی سے ان کی ان بن ھو گئی تو پھر مولانا امین احسن اصلاحی پر تنقید کرنے لگ گئے ، اور مولانا مودودی کے نظریہِ ،، اقامتِ دین ،، کی طرف دوبارہ پلٹ آئے ، اس وقت ان کامحبوب جملہ جسے وہ مولانا مودودی پر بالعموم مطبق کرتے تھے ان پر خود منطبق ھوا کہ “تھا جو ناخوب بتدریج وہی خوب ھوا۔”
مگر طرفہ تماشا یہ ھے کہ فکرِ مودودی کو بھی پوری طرح ہضم نہیں کیا ، وہ عسکری راستے سے اسلامی انقلاب لانے کے حامی تھے اور امیر کی تاحیات امارت کے قائل تھے۔ بیعت کو اپنے کارکنوں کے لیے ضروری خیال کرتے تھے۔
خلاصہ یہ کہ ان کا فلسفہ چون چون کا مربہ تھا ، یا پھر ان کے متلون ذھن کا ایک نا آشنا سا ملغوبہ ، جس میں چند دن اور چند ماہ مولانا ابوالکلام آزاد امام ھوا کرتے تھے ، تو کبھی مولانا محمود الحسن دہوبندی ، اور کبھی مولانا امین احسن استاذ امام ھوتے تھے ، تو کبھی مولانا مودودی۔
بعض عملی احکام میں وہ مذھبِ اھل حدیث پر قائم تھے ، مگر عقیدے میں وہ سید قطب کی طرح ،، محی الدین ابن عربی ،، کے وحدت الوجود کے قائل تھے ، اور تا حیات اسی فاسد وکاسد عقیدہ پر قائم رھے۔
اسلامی انقلاب کے حوالے سے انھوں ایک کتاب بنام ،، منھجِ انقلاب نبوی ،، لکھی ھے ، جس میں وہ اسلامی انقلاب کو فتح مکہ سے شروع کرتے ہیں ، اس سے پہلے کے تمام ادوار کو وہ اسلامی انقلابی تحریک کے راستے کے نشانات قرار دیتے ہیں ، لیکن اس سلسلہِ فکر میں وہ اپنے تمام محبوب مفکرین سے الگ راستے پر چل پڑے ہیں۔ اپنے اس غیر واقعی مدعا کے لیے انھوں نے چند بچگانہ دلائل بھی اکھٹے کیے ہیں ، جن کو احباب اس درجِ بالا کتاب میں دیکھ سکیں گے۔
اس موضوع پر ان کا مولانا امین احسن اصلاحی کے بعض شاگردوں کے ساتھ نوائےوقت اخبار میں مکالمہ بھی ھوا تھا ، بلکہ کہنا یوں چاھئے کہ ڈاکٹر صاحب کا ایسا مناقشہ تاحیات کسی نہ کسی شکل میں جاری رھا ، مگر پڑھنے والے احباب اس مسئلے میں ڈاکٹر صاحب کی بے مائگی کو صاف صاف جانتے ہیں۔
وہ سیاست میں حصہ لینے کے سخت ترین مخالف تھے ، مگر اس کے باوجود یہ ،، امامِ انقلاب ،، جناب صدر ضیاء الحق صاحب کے شوری کے رکن تھے اوران سے شریعت کے نفاذ کی قوی امید رکھتے تھے۔
ایک زمانے میں انھوں نے بعض تقریروں میں سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کے لیے ،، باغی ،، تک کا لفظ استعمال کیا تھا ، جس پر روافض نے ان کے خلاف جلوس وغیرہ بھی نکالے تھے ، مگر پھر وہی ،، قائدِانقلابِ اسلامی ،، انقلاب کے شوق میں مزارِ روح اللہ خمینی صاحب اور مجالسِ آیت اللہ خامنہ ائ میں بھی حاضری دیتے رھے تھے۔
حاصل کلام کا یہ ھے کہ وہ ہمارے دور کے کچھ دیگر دانشوروں کی طرح مجموعہِ اضداد قسم کے ،، مفکر ،، تھے۔
دوسری خامی جو ان میں تھی وہ یہ کہ ان کا تمام مطالعہ مولانا مودودی اور مولانا امین احسن اصلاحی کی کتابیں تھیں ، انھوں نے قران وسنت کا سلف کے افکار وآثار کی روشنی میں مطالعہ نہیں کیا تھا۔ وہ بس جماعتی الفکر اور اصلاحی الخیال لوگوں کے لیے گویا بقول شاعر:
میری داستان کو ذرا سا بدل کر۔۔۔۔۔۔۔مجھے ہی سنایا سویرےسویرے
کے قائل تھے ،ان چیزوں کے ہمیں حوالجات دینے کی ضرورت محسوس نہیں ھوتی ،ان کی کتابوں کو پڑھنے والوں پر یہ بات روزِ روشن کی عیان ھے۔
ان کے متعلق غورو فکر کرنے والا بندہ آخرتک یہ نہیں سمجھ سکتا تھا کہ اب آگے وہ کیا فرمانے والا ھے ؟ یا کونسا راستہ اختیار کرنے والا ھے ؟
غالبا اسی تضاد فکری کا یہ نتیجہ نکلا کہ ان کے چاھنے والے سارے دانشور ان کے بعد تتر بتر ھو گئے۔ ایک بات بھرحال ان میں ایسی تھی جس کا ان کو ہر جاننے والا شخص اقرار کرتا ھے کہ وہ دین کے ساتھ بھرحال مخلص تھے ، اللہ تعالی ہم سب بندوں کی کوتاہیاں معاف کر دے۔ والسلام

شیخ واصل واسطی حفظہ اللہ