سوال (357)
شیخ محترم ڈاکٹر اسرار صاحب جس حدیث پر زور دے کر عربوں کی ہلاکت کا کہتے ہیں وہ حدیث اور اس کی اسنادی حیثیت درکار ہے ؟
جواب
اس کے جواب کے حوالے سے یہاں ایک مضمون ذکر کیا جاتا ہے ۔
“عرب کی تباہی، ڈاکٹر اسرار اور خارجی ٹولہ”
ویل للعرب والی حدیث کا ایک ٹکڑا پڑھ کر عربوں کیلئے تباہی اور بربادی کا مژدہ سنانے والے ڈاکٹر اسرار نے کبھی حدیث کا مفہوم، شان ورود اور اسکے سیاق وسباق پر روشنی نہیں ڈالی، آئیے پہلے حدیث کا مفہوم اور مطلب دیکھتے ہیں پھر ڈاکٹر اسرار کی غلط بیانی سے پردہ اٹھائیں گے۔
پوری حدیث صحیح بخاری میں کچھ اس طرح ہے:
عن زينب بنت جحش رضي الله عنهن، انها قالت: استيقظ النبي صلى الله عليه وسلم من النوم محمرا وجهه، يقول:” لا إله إلا الله ويل للعرب من شر قد اقترب، فتح اليوم من ردم ياجوج وماجوج مثل هذه، وعقد سفيان تسعين او مائة، قيل: انهلك وفينا الصالحون؟، قال: نعم، إذا كثر الخبث
ترجمہ: سیدہ زینب بنت جحش ؓ نے بیان کیا کہ نبی کریمﷺنیند سے بیدار ہوئے تو آپ کا چہرہ سرخ تھا اور آپﷺ فرما رہے تھے: اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، عربوں کی تباہی اس بلا سے ہو گی جو قریب ہی آ لگی ہے، آج یاجوج ماجوج کی دیوار میں سے اتنا سوراخ ہو گیا اور سفیان نے نوے یا سو کے عدد کے لیے انگلی باندھی پوچھا گیا کیا ہم اس کے باوجود ہلاک ہو جائیں گے جبکہ ہم میں صالحین بھی ہوں گے؟ فرمایا ہاں! جب برائی بڑھ جائے گی (تو ایسا ہی ہو گا)۔
صحیح بخاری، کتاب الفتن، باب قول النبیﷺ: ویل للعرب۔
حدیث کے ٹکڑے ويل للعرب من شر قد اقترب کے اندر تین چیزیں قابل تشریح ہیں جن کی روشنی میں خوارج وقت کی خبر کی جائے گی
پہلی چیز لفظ ویل ہے، جس کے کئی معنی ہوتے ہیں:
پہلا اور مشہور معنی کے حساب سے جہنم کی وادی مراد ہے۔
دوسرا مفہوم ہلاکت اور بربادی ہے۔
تیسرا معنی حیرت اور تعجب کا اظہار کرنا ہے، اور یہاں حدیث کے اندر یہی تیسرا معنی متعین ہے، کیونکہ پہلے دونوں معنی مراد لینے کی صورت میں یا تو سارے عرب بشمول صحابہ نعوذ باللہ جہنمی ثابت ہوں گے یا کم ازکم سب کی بربادی اور ہلاکت ثابت ہوگی کیونکہ (العرب) کے اندر الف لام عہد جنس کیلئے ہے جس سے مراد اگر قیامت تک تمام عرب نہ بھی ہوں تو کم ازکم اس وقت کے موجود عرب ضرور مراد ہوں گے، اب ایسی صورت میں صحابہ دشمنوں کے علاوہ آخر یہ پہلا یا دوسرا معنی مراد کون لے سکتا ہے؟!
چنانچہ ہم یہی کہیں گے کہ لفظ ویل کو عرب اکثر تعجب اور کسی چیز پر حیرت کا اظہار کرنے کیلئے کرتے ہیں۔
جیسے کہ ایک مرتبہ ایک شخص پیدل چل رہا تھا تو آپﷺ نے کہا: اپنی سواری پر سوار ہوجا، اس نے کہا: اے اللہ کے رسول! یہ قربانی کا جانور ہے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ویلک ارکبھا تیری بربادی! سوار ہوجا۔
اسی طرح ایک صاحب نے آپﷺ کی مجلس میں ایک صاحب کی تعریف کردی تو آپﷺ نے فرمایا: ویلک، قطعت عنق اخیک تمہاری بربادی، تم نے اپنے بھائی کی گردن کاٹ دی۔
ذو الخویصرہ نے جب آپﷺ کی تقسیم پر اعتراض کیا تو فرمایا: ویلک، من یعدل ان لم اعدل تیری بربادی، اگر میں انصاف نہیں کروں گا تو کون کرے گا۔
ایک شخص نے پوچھا: اللہ کے رسولﷺ! قیامت کب آئے گی؟ فرمایا: ویلک، ما اعددت لھا؟ تیری بربادی، تو نے اس کیلئے کیا تیاری کر رکھی ہے؟
اسی طرح عرب کہتے ہیں: قاتلہ اللہ ما اشجعہ اللہ اسے ہلاک کرے وہ کس قدر بہادر ہے!
علامہ عبد الرحیم بن زین الدین العراقی اپنی کتاب (طرح التثریب) میں اس طرح کے الفاظ کے بارے میں کہتے ہیں:
هي مما يجري على لسان العرب في المخاطبة من غير قصد لمدلوله كما قيل في قوله صلى الله عليه وسلم
تربت يداك یعنی آپسی گفتگو میں عرب ایسے الفاظ بول کر اسکا اصلی معنی مراد نہیں لیتے، جیسے کہ آپ ﷺکے قول تربت یداک کے بارے میں بھی کہاجاتا ہے جس کا مفہوم ہوتا ہے کہ تمہارے دونوں ہاتھ خاک آلود ہوں۔
یہی بات ہم اس حدیث کے بارے میں کہیں گے کہ یہاں بھی آپﷺنے کسی کی تباہی اور بربادی مراد نہیں لی ہے بلکہ یہ مخاطب کرنے کا ایک اسلوب ہے ، جس سے تعجب اور حیرت کا اظہار مراد ہے، کیونکہ آپﷺ نے حیرت اور تعجب میں پڑ کر ہی ایسی بات کہی تھی۔
ایسی صورت میں سیاق وسباق کو سمجھے بغیر لفظی ترجمہ پڑھ کر اسراری مفتی بننے کا یہی حال ہوتا ہے کہ ثواب ایران کی خاطر خمینی کے مقابلے مفروضہ دشمن گڑھ کر اسے بدنام کیا جائے۔ دوسری چیز یہاں پر (العرب) سے مراد پوری امت ہے، علامہ ابن حجر ؒنے اس حدیث کے بارے میں فتح الباری کے اندر لکھا ہے: خص العرب بذلك لأنهم كانوا حينئذ معظم من أسلم یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عربوں کو خاصکر مخاطب کیا کیونکہ اس وقت مسلمان زیادہ وہی تھے۔ کیونکہ اس وقت اسلام جزیرہ عرب سے باہر گیا ہی نہیں تھا، بہت معمولی لوگوں نے جزیرہ عرب سے باہر اسلام قبول کیا تھا۔
ایسی صورت میں اس حدیث کو لیکر صرف عربوں کو بدنام کرنا اور انکے لئے تباہی وبربادی کا مژدہ سنانا کہاں کا دین واخلاق اور کیسی دیانت داری اور حدیث فہمی ہے، تیسری چیز یہاں پر (شر) یعنی برائی سے مراد یاجوج وماجوج کا فتنہ ہے، جیسا کہ آگے خود حدیث میں اسکی تفسیر موجود ہے کہ یاجوج وماجوج نے دیوار کھول دی بس معمولی حصہ باقی رہ گیا ہے، یہ جس وقت دیوار توڑ کر نکلیں گے اس وقت امت مسلمہ کیلئے بہت بڑا فتنہ ہوں گے، صرف عربوں ہی کیلئے نہیں ہوں گے، جبکہ ایک دوسری حدیث کے مطابق اس برائی سے مراد امت مسلمہ کے اندر آپسی قتل وخونریزی والا فتنہ ہے، یہ فتنہ بھی عربوں کے ساتھ خاص نہیں ہے۔
ایسی صورت میں چند کتابیں مطالعہ کرنے والے خارجی افکار کے حاملین مفکرین اہل توحید عربوں کو نہیں ٹارگٹ کریں گے پھر کیا وہ مجوسیت زدہ خمینی کے ایران کو اور الحادی صوفیت زدہ ترکی کو نیز قبوریت زدہ پاکستان کو کریں گے؟!
ڈاکٹر اسرار زندگی بھر عربوں کیلئے تباہی وہلاکت و بربادی کا مژدہ سناتے رہے جہاں نہ شرک ہے نہ بدعت، نہ الحادی صوفیت ہے، نہ مزارات وخانقاہی بابے ہیں، جہاں صرف توحید کا جھنڈا ہے.
خانہ کعبہ کی دعاؤں پر لات مارنے والے ڈاکٹر اسرار صاحب کو کیا پتہ کہ دعائیں کسی حال میں بھی خالی نہیں جاتیں یا تو فوری طور پر قبول ہوجاتی ہیں، یا انکے بدلے کسی دوسری مصیبت کو ٹال دیا جاتا ہے یا پھر اسے ذخیرہ آخرت بنا دیا جاتا ہے، تینوں حالتوں میں بندوں کیلئے خیر وبھلائی ہے۔
دراصل خارجیوں کی بڑی مصیبت یہ ہے کہ وہ ہر چیز کو حاکمیت کی نظر سے دیکھتے ہیں، جب کہ حاکمیت ایک فضل اور انعام ہے نا کہ دین کیلئے شرط اساسی جیسا کہ خوارج وقت سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں، آخر ان قطبی اسراریوں کے نزدیک تیرہ سال مکہ میں کیا مسلمانوں کی عبادت اور دعا قبول نہیں ہوئی تھی؟
کیونکہ وہاں کوئی حاکمیت کا تصور نہیں کرسکتا، جبکہ بقول اسرار صاحب جو بھی نظام کفر کا حصہ ہوگا خواہ وہ کتنا ہی متقی پرہیزگار ہو وہ طاغوت ہی سمجھا جائے گا۔
ناقل : فضیلۃ الباحث اسد اللہ بھمبھوی حفظہ اللہ