ڈاکٹر نائک صاحب حفظہ اللہ سے ملاقات کی روداد

سن 2006ء میں مجھے تقابل ادیان پڑھانے کا موقعہ ملا۔ تقابل ادیان کا اصول یہ ہے کہ جس بھی مذہب کو نقد اور تبصرے سے گزارا جائے اس کی اصل کتابوں کو ایک مرتبہ ضرور دیکھ لینا چاہیے۔ اب مضمون پڑھانے سے پہلے ایسی شخصیات جنہوں نے دنیا کے مشہور مذاہب پر خوب کام کیا ہو اور ان مذاہب کی اصل کتب کو خوب کھنگالا ہو اور اس کے بعد ان پر نقد و تبصرہ کیا ہو ایسی مشہور شخصیات کی کتب کو دیکھنے کا مرحلہ تھا۔ اس حوالے سے کئی شخصیات موجود تھیں ۔ ان بہت سی شخصیات میں پچھلی صدی میں تقابل ادیان کی سب سے معروف شخصیت مولانا ثناء اللہ امرتسری رحمہ اللہ کی کتب دیکھیں اور اس صدی کی سب سے مشہور شخصیت جو زندہ و جاوید ہم میں موجود تھی میری مراد ڈاکٹر ذاکر نائک صاحب حفظہ اللہ، ان کے لیکچرز سنے۔ آپ کے ویڈیو لیکچرز اور آپ کی ویب سائٹ پر موجود مضامین سے بہت فائدہ ہوا اور یہ مضمون قریبا 11 سال پڑھانے کا موقع میسر آیا۔
اسی وجہ سے کافی عرصے سے خواہش تھی کہ تقابل ادیان کے حوالے سے عالم اسلام کے اس مشہور داعی یعنی ڈاکٹر ذاکر نائیک صاحب حفظہ اللہ سے ملاقات کی جائے۔ ملائشیا جا کر ان سے ملنا میرے لئے شاید ممکن نہ تھا لیکن خواہش تھی کہ زور پکڑتی جا رہی تھی۔ اسی اثنا میں اللہ تعالیٰ نے وہ اسباب پیدا فرما دیئے جو ہماری ملاقات کا باعث بن گئے۔ ڈاکٹر ذاکر نائیک صاحب حفظہ اللہ پاکستان تشریف لائے لیکن چونکہ وہ سرکاری مہمان تھے اور بعض شر پسند عناصر کی وجہ سے ان کے لئے یہاں خطرات مزید بڑھ چکے تھے اس لئے حکومت نے پوری ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان کی سیکورٹی کو مزید سخت کر دیا۔ ان کے لئے تو یہ مفید تھا لیکن میری ان سے ملنے کی آرزو کی تکمیل مزید مشکل ہو گئی۔ نہ تو میرے پاس کوئی ایسا حوالہ تھا جس کے توسط سے ان سے ملاقات کر سکوں اور نہ ہی میرا ان سے براہ راست رابطہ تھا۔ لیکن وہ کیا کہتے ہیں کہ دعا مومن کا ہتھیار ہے، تو یہی ایک رابطہ تھا جس کے ذریعے میں ڈاکٹر ذاکر نائیک صاحب حفظہ اللہ سے مل سکوں۔
اللہ پاک نے میری دعا سن لی اور گوجرانولہ کے معروف تاجر محترم افتخار بٹ صاحب حفظہ اللہ کی طرف سے پیغام ملا کہ محترم و مکرم قاری صہیب احمد میر محمدی صاحب حفظہ اللہ نے کبار مشائخ کرام حفظہم اللہ کی ملاقات طے کروا دی ہے اور مجھے بھی ان کے ساتھ ہی چلنا ہے۔ اندھا کیا چاہے تو دو آنکھیں۔ ڈاکٹر ذاکر نائیک صاحب حفظہ اللہ سے ملاقات کے ساتھ ساتھ کبار مشائخ کرام حفظہم اللہ کی صحبت سے بھی فیض یاب ہونے کا موقعہ میسر آ رہا تھا۔
17 اکتوبر 2024ھ بروز جمعرات بعد نماز مغرب ڈاکٹر ذاکر نائیک صاحب حفظہ اللہ سے ان کے ہوٹل کے کمرے میں ایک مختصر وفد نے ملاقات کی جس میں
1. فضیلۃ الشیخ ارشاد الحق اثری صاحب حفظہ اللہ
2. فضیلۃ الشیخ حافظ مسعود عالم صاحب حفظہ اللہ
3. فضیلۃ الشیخ حافظ شریف صاحب حفظہ اللہ
4. فضیلۃ الشیخ قاری ابراہیم میر محمدی صاحب حفظہ اللہ
5. ڈاکٹر مطیع اللہ باجوہ صاحب حفظہ اللہ
6. محترم و مکرم افتخار بٹ صاحب حفظہ اللہ
7. محترم و مکرم حاجی یعقوب صاحب حفظہ اللہ
8. راقم الحروف ڈاکٹر محمد صارم عفی عنہ
شامل تھے۔
وفد کا استقبال ڈاکٹر ذاکر نائیک صاحب حفظہ اللہ کے بیٹے الشیخ فارق نائیک صاحب حفظہ اللہ نے کیا۔ ڈاکٹر ذاکر نائیک صاحب حفظہ اللہ اپنے کمرے سے باہر نکلے تو بڑے محبت و احترام سے ملے۔ آرام دہ صوفے پر چاروں کبار مشائخ کرام حفظہم اللہ کو محبت سے بیٹھایا اور خود سامنے کرسی پر تشریف فرما ہوئے۔ تقابل ادیان کے حوالے سے عالمی شہرت یافتہ شخصیت کا ہمارے کبار مشائخ کا یوں احترام کرنا ڈاکٹر صاحب کی علماء سے محبت کی واضح دلیل تھی ۔ سلام دعا اور خیر خیریت پوچھنے کے بعد!
فضیلۃ الشیخ حافظ مسعود عالم صاحب حفظہ اللہ نے ڈاکٹر ذاکر نائیک صاحب حفظہ اللہ کو ان کے دین دنیا میں کامیابی، سلامتی اور حفاظت کے ساتھ ساتھ قبولیت اعمال اور ان کے بیٹے کے حوالے سے بہت پیار بھری دعائیں دیں۔ تقابل ادیان کے حوالے سے ان کے کام کو سراہا اور مزید قبولیت عامہ کی بھی دعا دی۔
پھر فضیلۃ الشیخ ارشاد الحق اثری صاحب حفظہ اللہ نے اپنی چند کتب کا ہدیہ پیش کیا جسے ڈاکٹر ذاکر نائیک صاحب حفظہ اللہ نے محبت سے وصول کیا۔
اس کے بعد فضیلۃ الشیخ حافظ شریف صاحب حفظہ اللہ نے آپ کے کام کی حوصلہ افزائی فرمائی، آپ کے بیٹے الشیخ فارق نائیک صاحب حفظہ اللہ کو مزید ترقی کی منازل طے کرنے کی دعا دی۔
پھر وفد کے افراد سے ڈاکٹر صاحب نے حال احوال اور محبت بھرے جذبات کا تبادلہ کیا۔
شدید ترین مصروفیات کے باوجود مجھے ڈاکٹر صاحب کے چہرے مسکراہٹ ہی دکھائی دی۔ گفتگو میں تحمل تھا۔ کبار مشائخ کرام کی گفتگو کو بڑی خاموشی و احترام سے سماعت کر رہے تھے۔ ان کی شخصیت میں ایک عجیب قسم کی روحانیت و سکون تھا شاید لاکھوں افراد کے کفر کے اندھیروں سے اسلام کی روشنی میں لانے کے سبب بننے والے کے چہرے کو رب کائنات نے خصوصی ترو تازگی عطا کی تھی۔
باہر نکلتے وقت فضیلۃ الشیخ حافظ شریف صاحب حفظہ اللہ نے ڈاکٹر ذاکر نائیک صاحب حفظہ اللہ کو الشیخ ارشاد الحق اثری صاحب حفظہ اللہ کی کتاب “اسباب اختلاف الفقہاء” کا تعارف کروایا اور اس کے مطالعہ کی نصیحت فرمائی۔
انہیں کہا کہ دین کے مسائل میں فقہاء کے اختلاف کے اسباب جاننا از حد ضروری ہیں۔ مسائل میں اختلاف کی صورت میں یہ ہمیشہ سبھی درست نہیں ہوتے۔ حق ایک ہوتا ہے۔ اس کی نشاندھی کرنا ضروری ہے۔ البتہ جن فقہاء مسائل کے استنباط میں اجتہاد کیا ہے انہیں اجتہاد کا اجر ضرور ملے گا۔ اس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ حدیث سنائی جسے امام مسلم رحمہ اللہ نے اپنی صحیح میں ذکر کیا ہے کہ

اذا حكم الحاكم فاجتهد، ثم اصاب فله اجران، وإذا حكم فاجتهد، ثم اخطا فله اجر

جب کوئی حاکم فیصلہ کرے اور اجتہاد (حقیقت کو سمجھنے کی بھرپور کوشش) کرے، پھر وہ حق بجانب ہو تو اس کے لیے دو اجر ہیں اور جب وہ فیصلہ کرے اور اجتہاد کرے، پھر وہ (فیصلے میں) غلطی کر جائے تو اس کے لیے ایک اجر ہے۔
یوں مختصر دورانیے کی یہ خصوصی ملاقات اپنی تمام تر یادوں کے ساتھ اختتام کو پہنچی۔
آخر میں محترم و مکرم افتخار بٹ صاحب حفظہ اللہ نے فضیلۃ الشیخ قاری صہیب احمد میر محمدی صاحب حفظہ اللہ کی طرف سے ڈاکٹر ذاکر نائیک صاحب حفظہ اللہ کے لئے قیمتی تحائف پیش کئے ۔ڈاکٹر صاحب نے پورے وفد کو احترام و اکرام کے ساتھ دروازے پر رخصت کیا۔
اللہ پاک ہم سب کو اپنی خالص رضا کے لئے ایک دوسرے سے محبت کرنے والا بنائے اور جنت کے اعلی درجات میں اکھٹا فرمائے۔ آمین

ڈاکٹر محمد صارم

یہ بھی پڑھیں: ڈاکٹر ذاکر نائیک صاحب کون؟