ڈاکٹر ذاکر نائیک کا دورہ پاکستان اور ہمارے رویے

ہر معاملے میں افراط و تفریط کا رویہ ہماری پہچان بنتا جا رہا ہے

ایک طرف غلو کے شکار ڈاکٹر ذاکر نائیک کو صحابہ سے مشابہت دے رہے ہیں انہیں مجدد بنا رہے ہیں اور جانے کیا کیا نہیں بنا رہے، یہاں تک کہ خود ڈاکٹر ذاکر نائیک کو بھی علم نہیں ہو گا کہ پاکستان کے سوشل میڈیائی گوریلے اور پہلوان انہیں کس مقام و مرتبے تک پہنچا چکے ہیں

تو دوسری جانب منھج کے ذمہ دار یکدم سرگرم ہو گئے ہیں انہیں اخوانی، غیر منھجی قرار دے چکے ہیں اور عقیدہ الولاء والبراء کی روشنی میں بس نہیں چل رہا کہ انہیں اسلام سے خارج کر دیں

خدارا نہ انہیں صحابہ کے ساتھ ملائیں اور نہ ہی انہیں اسلام سے خارج کریں
میں نے ڈاکٹر ذاکر نائیک کو جتنا سنا جتنا پڑھا اس کے مطابق کبھی بھی انہوں نے اپنے بارے میں کوئی دعوی نہیں کیا کہ وہ علامہ ہیں محدث ہیں مفسر ہیں یا مفتی ہیں بلکہ ان کی ساری جھود ایک داعی کی حیثیت سے نظر آ رہی ہیں۔ تقابل ادیان کے ماہر ہیں لہذا غیر مسلموں کو اسلام کی دعوت دینے کا فن جانتے ہیں یہ اللہ کا ان پر فضل ہے

اب آ جائیں ان کے دورہ پاکستان کی طرف تو سب سے پہلے میں اپنے انڈین احباب کی بات کر لیتا ہوں ان کی ڈاکٹر ذاکر نائیک کی مخالفت تو سمجھ آتی ہے لہذا انہیں اس بات کی اجازت ہے میں حیران ہوں پاکستانی سوشل میڈیائی مفتی اور “آئمہ منھج” کس خوشی میں سوشل میڈیا کا میدان گرم کر رہے ہیں۔
کاش کہ کوئی انہیں سمجھا سکے کہ شخصیات میں غلو ، افراط و تفریط اور انتہا پسندیت کی دین میں قطعا اجازت نہیں ہے۔ ڈاکٹر ذاکر نائیک کا منھج درست نہیں ہے کیونکہ وہ بعض ایسے لوگوں کی مدح سرائی کرتے ہیں جن کا منھج صحیح نہیں ہے کسی نے بہت تیر مارا تو ڈاکٹر ذاکر نائیک کی بعض اآیات کی تفسیر پیش کر کے ان پر نقد کر رہا ہے
عرض ہے کہ سوشل میڈیا کا میدان گرم کرنے کے بجائے کیا ہی بہتر ہوتا کہ ان کے نام پر ایک نصیحت والا خط لکھا جاتا جس میں انہیں بتایا جاتا کہ ولاء و براء کا تقاضا یہ ہے یہ نہیں ہے وغیرہ وغیرہ،
غلطی غلطی ہے لیکن کیا یہ کام اصلاح احوال کے مناسب ہے؟
ہر کچھ عرصے بعد کوئی نہ کوئی شخصیت ہمارے سوشل میڈیائی مپھکرین اور محککین کے ہاتھ چڑھ جاتی ہے بس پھر نہ پوچھیں کیا حشر نشر کیا جاتا ہے۔
میرا اعلان ختم ہوا اب جسے میری بات پر اعتراض ہے وہ مہذبانہ طریقے سے میری وال پر کمنٹس بھی کر سکتا ہے اور اختلاف کی بھی اجازت ہے لیکن بدتمیزی کی گنجائش نشتہ

شاہ فیض الابرار صدیقی

یہ بھی پڑھیں: 12 ربیع الاول کا دن اور ہمارے رویے