ڈاکٹر ذاکر نائیک صاحب کون؟
اپنے بھی خفا مجھ سے ہیں اور بیگانے بھی ناخوش

میں زہر ہلاہل کو کبھی کہ نہ سکا قند

گذشتہ روز اپنی لختِ جگر مسفرہ کو سکول سے لے کر واپس گھر پلٹنے لگا،تو بائیک پر بیٹھتے ہی ننھی گڑیا بڑے معصومانہ انداز میں یوں گویا ہوئی”۔
بابا! سکول سے باہر عینک پہنے لوگ ایسے لگ رہے ہیں جیسے ڈاکٹر ذاکر نائیک ہوں”۔
حیرت میں ڈوبے میں نے پوچھا :
بیٹا! ڈاکٹر ذاکر نائیک صاحب کون ہیں؟
پیاری گڑیا بولی:
بابا! وہی تو جو لوگوں کو قرآن پڑھنے کا کہتے ہیں ،نماز کی تلقین کرتے ہیں اور اچھے کاموں کی نصیحت کرتے ہیں ۔”
اللہ اکبر! پانچ سالہ ننھی منی گڑیا کی گفتگو سن کر بڑی مسرت ہوئی کہ پاکستان میں ڈاکٹر صاحب کی آمد پر چھوٹے بچے بھی مطلع ہیں اور مزید ان کے کارہائے نمایاں سے واقف بھی ہیں۔
یہ شہرت دوام اللہ تعالیٰ نے محترم ڈاکٹر ذاکر نائیک حفظه اللہ کو عنایت کی ہے۔
ڈاکٹر صاحب عالم اسلام کے مایہ ناز متکلم ،عظیم داعی ،سفیر امن ، کتاب و سنت کے علمبردار اور تقابلِ ادیان کے ماہر مناظر ہیں۔
ڈاکٹر صاحب وہ عظیم متکلم اسلام ہیں ، جن کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے لاکھوں افراد کو کلمہء توحید پڑھنے کی توفیق بخشی ۔
وہ قابلِ قدر داعی اسلام ہیں ،جن کی دعوت نے عالم کفر کے ایوانوں میں زلزلہ بپا کر رکھا ہے ۔آج ان سے کفار ومشرکین لرزاں ہیں ۔
اللہ تعالیٰ نے ڈاکٹر صاحب کو جو عظیم صلاحیت ودیعت کی ہے ،وہ ان کا قابلِ رشک حافظہ ہے ۔
مختلف ادیان کی کتب ان کے سینے میں ایسے محفوظ ہیں کہ وہ بلا تھکان حوالوں کے انبار لگا دیتے ہیں۔
مختلف مذاھب وادیان کے افکار باطلہ اور نظریات کاسدہ کے استیصال میں وہ شمشیر بے نیام ہیں۔
بے شمار ہندو اور عیسائی مذہبی رہنماؤں کو میدان مناظرہ میں شکست سے دو چار کر چکے ہیں ۔
پیس ٹی وی کے ذریعہ گھر گھر دعوت اسلام پہنچا رہے ہیں ۔
تقاریر و بیانات ،سوال وجوابات اور علمی وتحقیقی نگارشات کے ذریعہ اسلام کا لوہا منوا چکے ہیں۔
ڈاکٹر صاحب کی بڑھتی ہوئی دعوتی و تبلیغی سرگرمیاں سے بھارت ایسا متعصب ملک اتنا پریشان ہوا کہ ان پر جھوٹے مقدمات عائد کرکے انہیں ملک چھوڑنے پر مجبور کیا۔لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے اشاعت اسلام کی مزید راہیں ہموار کیں،آج وہ ملائشیا میں رہ کر تبلیغ حق کا فریضہ انجام دے رہے ہیں۔
ڈاکٹر صاحب اور ان کے فرزند ارجمند محترم عزیزم فارق نائیک ان دنوں پاکستان کے سرکاری دورے پر کراچی ،لاہور اور اسلام آباد میں مختلف مقامات پر علمائے کرام اور عوام الناس کے اجتماعات میں خطابات کر رہے ہیں ۔
پاکستان میں انہیں خوب پذیرائی ملی ۔بہت سارے لوگوں کو ان کے خطابات نے متاثر کیا ۔کچھ عیسائی لوگ ان کے ہاتھ پر حلقہء بگوش اسلام ہوئے ،وللہ الحمد۔
پاکستان آمد پر یہاں کے بعض ارباب جبہ و دستار اور اہل اھواء ناخوش تھے ،کہ ڈاکٹر صاحب کو پاکستان آنے سے روکا جائے ۔
انڈیا کا میڈیا واویلا کرے تو سمجھ آتی ہے کہ دشمن ہے ،مگر ان کج کلاہوں اور افترا پردازوں کا چیخنا چلانا سمجھ سے بالاتر ہے۔
“آنکھ نہ دیدہ کاڑھے کشیدہ” کے مصداق بعض ڈاکٹر صاحب کو مناظرے کے لیے للکارتے رہے ۔
میں اس کی وجہ یہ سمجھا ہوں کہ ڈاکٹر صاحب قرآن وسنت کے داعی اور عامل بالحدیث ہیں۔دعوت توحید پیش کرتے ہیں ، شرک سے منع کرتے
اور ترجمہءقرآن پڑھنے کی تلقین کرتے ہیں ۔
یہ بے چارے تقلیدی ترجمہء قرآن پڑھنے کو گمراہی کہتے ہیں ۔العیاذ باللہ ۔
ترجمہءقرآن پڑھنے سے ان کی دکان داری ختم ہوتی ہے۔
اس بنا پر یہ بے جا شورش برپا کرتے ہیں۔
حریف اپنا سمجھ رہے ہیں مجھے خدایان خانقاہی
انہیں یہ ڈر ہے کہ میرے نالوں سے شق نہ ہو سنگ آستانہ
غلام قوموں کے علم وعرفان کی ہے یہی رمز آشکارا
زمیں اگر تنگ ہے تو کیا ہے ،فضائے گردوں ہے بے کرانہ
اس موقع پر بعض اپنے احباب نے بھی خفگی کا اظہار کیا،لیکن یہ موقع خفا ہونے کا نہ تھا ،بلکہ ڈاکٹر صاحب کو خوش آمدید کہنے کا وقت تھا۔یہ بات نشین رہنی چاہیے ،ڈاکٹر صاحب تقابل ادیان کے سپیشلسٹ ہیں۔ان کا میدان مناظرہ ومباحثہ کا ہے۔
اگر بعض منھجی اختلاف یا کچھ فقہی آراء سے متفق نہیں تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ ان کی ذات کو رگیدا جائے اور ان کی اسلامی خدمات کو فراموش کیا جائے۔
ہمارے برصغیر کے علمائے کرام کس قدر وسیع ظرف تھے! کسی عالم دین کے تفردات و شذوذ سے اختلاف کے باوجود ان کی عزت میں کمی نہ آنے دیتے تھے۔
اس کی خدمات مٹی میں نہیں ملاتے تھے ۔
مگر اب وہ دور نہ رہا۔
~آں قدح بشکست وآں ساقی نماند
اپنے رویوں پر ہمیں نظر ثانی کرنی چاہیے ۔
بات طویل ہو گئی ،میں متکلم اسلام ڈاکٹر ذاکر نائیک سلمہ اللہ کی بات کر رہا تھا کہ آج چھوٹے بچے بھی اس بات سے آگاہ ہیں کہ ڈاکٹر صاحب داعی اسلام ہیں۔
ڈاکٹر صاحب شہرت کے حریص ہرگز نہیں ہیں ۔وہ اسلام کی دعوت عام کرنے کے خواہشمند ہیں اور لوگوں کو جہنم کی آگ سے بچانے کے لیے کوشاں ہیں۔
اللہ تعالیٰ ڈاکٹر صاحب کی علمی ودعوتی خدمات اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے اور انہیں صحت وتندرستی والی لمبی زندگی عطا کرے تاکہ وہ یونہی گلشن توحید وسنت کی آبیاری کرتے ہیں ۔
ایں دعا از من وجملہ جہاں آمین باد

ریاض احمد عاقب