سوال (29)

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

“ثلاث جِدُّهُنَّ جِدٌّ، وهَزْلُهُنَّ جِدٌّ: النكاح، والطلاق، والرَّجْعَة. [سنن ابی داؤد : 2194]

تین چیزیں ایسی ہیں کہ انہیں چاہے سنجیدگی سے کیا جائے یا ہنسی مذاق میں ان کا اعتبار ہوگا، وہ یہ ہیں: نکاح، طلاق اور رجعت ۔
اس حدیث کی روشنی میں “ڈراموں” میں منعقد ہونے والے نکاح وطلاق کا حکم واضح فرمائیں ، یاد رہے کہ ڈراموں میں نکاح کے وقت دولہا اور دلہن سے سائن بھی لیے جاتے ہیں ، ایجاب و قبول بھی ہوتا ہے ، دونوں طرف سے جو مصنوعی ڈرامے میں رشتے دار بنائے جاتے ہیں وہ بھی موجود ہوتے ہیں جیسے دلہا اور دلہن کے والدین وغیرہ
شیخ صاحب پھر اس نکاح کا کیا حکم ہے ؟

جواب:

چونکہ نکاح کے لیے ولی کا ہونا ضروری ہے اور ڈراموں میں جو ولی بنتے ہیں وہ حقیقی ولی نہیں ہوتے ہیں، اس لیے ایسا نکاح منعقد نہیں ہوگا اور جو ولی کے بغیر لڑکا اور لڑکی خود ایجاب و قبول کرلیتے ہیں ، اس کی کوئی شرعی حیثیت نہیں ہے ۔ سیدنا ابو موسیٰ الاشعری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

“لَا نِكَاحَ إِلَّا بِوَلِيٍّ”. [سنن ابی داؤد 2085]

ولی کے بغیر نکاح نہیں ہے ۔
اس طرح طلاق کا مسئلہ ہے ، ڈراموں میں جو اس کی بیوی ہوتی ہے وہ اس کی حقیقی بیوی نہیں ہوتی ہے اگر وہ طلاق دیتا ہے کس کو دے رہا ہے وہ اس کی زوجہ ہی نہیں ہے ۔ لہذا یہ طلاق بھی واقع نہیں ہوگی ۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ

ایکٹنگ کا معاملہ اس وجہ سے بھی مختلف ہے، کیونکہ اس میں کوئی بھی شخص خود اپنا موقف بیان نہیں کر رہا ہوتا، بلکہ وہ اس رول یا شخصیت کا ادا کر رہا ہوتا ہے، جو کردار اسے دیا گیا ہے۔ لہذا اگر زید کو بکر کا رول دیا گیا ہے، تو ڈرامے کے اندر یہ کہنے سے کہ میں اپنی بیوی کو طلاق دیتا ہوں، اس کا مطلب ہوگا کہ بکر نے اپنی بیوی کو طلاق دی ہے، نہ کہ زید نے۔ لہذا اس طرح نہ بکر کی بیوی کو طلاق ہوگی نہ زید کی۔ کیونکہ زید نے تو اپنی بیوی کو طلاق دی ہی نہیں، جبکہ بکر کی بیوی کو اسے طلاق دینے کا اختیار ہی نہیں۔
فضیلۃ الشیخ ابن عثیمین وغیرہ اہل علم نے اس مسئلے کو اسی طرح بیان کیا ہے، البتہ اس سے قطعا یہ نہ سمجھا جائے کہ ہم ڈراموں کو یا ان میں ہونے والے نکاح و طلاق جیسی فضولیات کو درست سمجھتے ہیں!

فضیلۃ العالم حافظ خضر حیات حفظہ اللہ