سوال (5341)

ای بے، ایمازون اور دیگر ڈیجیٹل پلیٹ فارمز پر مروجہ ڈراپ شپنگ کے متعلق علماء کہتے ہیں کہ یہ جائز نہیں، کیا اس کے متبادل کوئی جائز صورت ہے؟ برائے مہربانی وضاحت فرمائیں۔

جواب

ڈراپ شپنگ کی مروجہ صورت تو حلال نہیں کیونکہ اس میں انسان خود کو ایک چیز کا مالک ظاہر کروا کر اس چیز کو فروخت کرتا ہے، حالانکہ وہ اس کا مالک ہوتا نہیں ہے۔
مروجہ ڈراپ شپنگ میں دو اعتبار سے شریعت کی مخالفت ہوتی ہے:
1. جو چیز پاس موجود نہیں اسے بیچنا!
ڈراپ شپنگ میں اس چیز کی بیع کی جاتی ہے جو پاس موجود نہیں ہوتی۔ جبکہ شریعت نے اس سے منع کیا ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:

“لَا تَبِعْ مَا لَيْسَ عِنْدَكَ”. [سنن الترمذی:1232]

جو چیز تمہارے پاس نہیں ہے اس کی بیع نہ کرو۔
2. قبضہ میں لیے بغیر فروخت کرنا!
شرعی طور پر اگر کسی چیز کو فروخت کرنا ہے تو اس چیز کو پہلے خود اپنے قبضہ و تصرف میں کیا جائے گا۔
نبی کریم ﷺ نے فرمایا:

“مَنْ ابْتَاعَ طَعَامًا فَلَا يَبِعْهُ حَتَّى يَسْتَوْفِيَهُ”. [صحيح البخاری:2136]

جو شخص بھی غلہ خریدے تو جب تک اسے پوری طرح قبضہ میں نہ لے تو آگے فروخت نہ کرے۔
مروجہ ڈراپ شپنگ میں بھی یہی کچھ ہوتا ہے کہ سپلائر چیز براہ راست کسٹمر کو بھجواتا ہے اور جو ڈراپ شپر (Drop Shipper) خود کو اصل مالک ظاہر کرتا ہے، اس کے پاس کچھ بھی نہیں ہوتا اس لیے مروجہ ڈراپ شپنگ کی صورت صراحتا حرام ہے۔

ڈراپ شپنگ کا متبادل!
اس کی حلال صورت یہ ہے کہ چیز کو مالک کے طور پر نہ بیچیں بلکہ کمیشن ایجنٹ کے طور پر فروخت کریں۔
کمیشن ایجنٹ ہونے کی دو صورتیں ہیں:
1۔ کمپنی کی طرف سے کمیشن ایجنٹ.
2۔ خریدار کی طرف سے کمیشن ایجنٹ.
1. کمپنی کی طرف سے کمیشن ایجنٹ:
اس کی یہ صورت بنتی ہے کہ کوئی شخص کمپنی سے باقاعدہ معاہدہ کرے کہ وہ کمپنی کی طرف سے چیزیں فروخت کرے گا اور کمپنی مقرر کردہ پرسنٹیج کے مطابق کمیشن دے گی۔ یا پھر یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کمپنی کہے کہ فلاں چیز اتنی قیمت کی ہے اس سے زائد قیمت پر آپ فروخت کردیں اور پیمنٹ کمپنی کے پاس جائے گی اور کمپنی اپنی رقم کاٹ کر باقی رقم بطور کمیشن کام کرنے والے کو دے دے گی۔ یہ جائز ہے۔
2. خریدار کی طرف سے کمیشن ایجنٹ بننا:
اس کی یہ صورت ہوگی کہ ایک شخص کسٹمر سے ڈیل کرے کہ میں آپکو یہ چیز آگے سے خرید کر دوں گا۔ خود کو مالک کی بجائے کمیشن ایجنٹ کے طور پر ہی ظاہر کرے۔ اس صورت میں وہ شخص کسٹمر سے آرڈر لے کر مارکیٹ سے چیز خرید کر بالواسطہ یا بلا واسطہ کسٹمر کو بھجوا دے۔ اس صورت میں وہ شخص سروسز چارجز یا ویسے ہی کمیشن کے طور پر اپنا حصہ لے سکتا ہے۔ کمیشن کی پرسنٹیج الگ سے طے کرنا بھی درست ہے، لیکن اس کی بجائے چیز کی قیمت کے ساتھ ہی کمیشن کی رقم ملا کر کل رقم پر ہی کسٹمر سے ڈیل طے کرلے جس پر دونوں فریقین رضامند ہوں تو یہ بھی درست ہے۔
ذیل میں بطور نمونہ کچھ الفاظ نقل کیے جا رہے ہیں جس میں کسٹمر کو اپنی مالکانہ حیثیت کی بجائے کمیشن ایجنٹ کی حیثیت سے آگاہ کیا جاسکتا ہے مثلا اس قسم کی عبارت لکھ دی جائے:
“ہم آپ کو پروڈکٹس معتبر سپلائرز سے خرید کر فراہم کرتے ہیں۔ ہم خود مالک یا بیچنے والے نہیں بلکہ صرف خریداری اور ڈیلیوری میں معاونت فراہم کرتے ہیں۔ ہاں البتہ اگر سامان میں کوئی خرابی یا مسئلہ ہوا تو ہم ذمہ دار ہیں”۔
“We act as your sourcing agents and take full responsibility to ensure the correct item reaches you in proper condition. In case of any damage or issue, we are committed to resolving the matter or compensating you appropriately.”
بہرصورت خلاصہ یہ ہے کہ ڈراپ شپنگ کے اندر خود کو مالک ظاہر کرنا بالکل غلط ہے، ہاں بطور کمیشن ایجنٹ وغیرہ اپنی خدمات پیش کرکے یہ کام سر انجام دیا جا سکتا ہے۔ واللہ اعلم۔

فضیلۃ العالم حافظ خضر حیات حفظہ اللہ
فضیلۃ الباحث ابو زرعہ احمد بن احتشام حفظہ اللہ