سوال           (108)

دعا افضل ہے یا ذکر؟ حافظ ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ذکر دعا سے افضل ہے ، کیونکہ “ذکر” سے مراد ایسی تعریف ہے ، جو اللہ تعالیٰ کی اوصاف جمیلہ ، اس کی نعمتوں اور اسماء کو اپنے اندر سمو لیتی ہے ، جب کہ اپنی ضرویات اور حاجات طلب کرنے کا نام “دعا” ہے ، پس ذکر اور دعا کا آپس میں موازنہ ہی نہیں ہے ۔ [الوابل الغیب]

شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اللہ اور اس کے احکامات کا علم رکھنے والے علماء اس بات پر متفق ہیں کہ بندے کا اپنے آپ سے مشغول ہونے سے ذکر اللہ پر دوام اختیار کرنا افضل ہے ۔ [مجموع الفتاوی]

کیا یہ موقف صحیح ہے ؟

جواب

دعا اور ذکر دونوں کی اپنی اپنی جگہ اہمیت ہے ۔ کسی ایک پر التزام و دوام اور دوسری سے مکمل احتراز مناسب نہیں ۔ کبھی ایک پر عمل کر لیا جائے اور کبھی دوسری پر عمل کیا جائے۔

فضیلۃ الشیخ سعید مجتبیٰ سعیدی حفظہ اللہ

یہ بات واضح ہے کہ یہ قرآن و سنت اور صحابہ کرام و تابعین میں سے کسی کا قول بھی نہیں ہے ، ایسا بھی نہیں ہے کہ بالکل قابل التفات بھی نہیں ہے ، بلکہ یہ ایک کبار أئمہ کا بیان ہے ، میرے خیال سے اس موقف اختیار کرنے میں شرعی عقائد و نظریات پر کوئی عیب داخل نہیں ہوتا ہے ، اگر کوئی تسلیم نہیں کرتا ہے تو کوئی حرج نہیں ہے ، لیکن ایسا نہ ہو کہ فلاں کی بات ہے ہم کیوں مانیں ، اس میں  علماء کی اہمیت کو گھٹانے کا معاملہ نہ ہو ۔ یہ معاملہ نہ ہو تو ٹھیک ہے جو چاہے قبول کرلے اور جو چاہے چھوڑ دے ۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ

جی یہ موقف صحیح ہے ان شاءاللہ ، لیکن اس کا مقصد یہ نہیں کہ دعا کو یکسر چھوڑ دیا جائے بلکہ فقط افضلیت کی بحث ہے، باقی دونوں ہی کی اپنی جگہ اہمیت مسلم ہے ۔

فضیلۃ العالم فہد انصاری حفظہ اللہ