دعا نے دل کو متوجہ کیا اور پھر ذہن میں دریچے سے کھلنے اور پھول سے کھلنے لگے۔ کیسی جامعیت میں ہمیں کیا کیا وسعت عطا ہوئی، کاش کہ ہم غور کر سکتے۔ مثلا نبوی دعا کے یہ چند الفاظ دیکھئے: رب اعنی علی ذکرک وشکرک وحسن عبادتک
مولا مجھے اپنے ذکر ،شکر اور حسن والی عبادت کی توفیق عطا فرما۔
اب بظاہر اس میں اللہ سے ذکر و شکر اور حسن عبادت کی توفیق مانگی گئی ہے۔لیکن ذرا الفاظ کی جامعیت اور گہرائی میں جھانک کے دیکھئے تو گویا معانی اور طلب کا ایک دریا بہہ رہا ہے۔ اب مثلا ذکر سے بڑھ کر عارفوں، صوفیوں علما اور اہل عرفان نے رب سے کیا مانگا،اس ذکر کی توفیق کے بعد بھلا کوئی مادی و روحانی نعمت باقی بچ بھی رہتی ہے؟ یہ ذکر ہی ہے، جس کے ہوتے خدا کا مہربان ساتھ ملتا ہے، شیطان کے ہر وار اور وسوسے سے پناہ ملتی ہے۔ یہاں تک کہ ذکر کو ایک حدیث میں سونے چاندی اور جہاد میں قتل و قتال سے بھی افضل قرار دیا گیا ہے۔ اس تناظر میں اب اس طلب کے اختصار میں معانی کی جامعیت کے لطف دیکھیے۔ بقول شاعر
سب کچھ خدا سے مانگ لیا تجھ کو مانگ کر
اٹھتے نہیں ہیں ہاتھ میرے اس دعا کے بعد
پھر شکر پر اک ذرا سا غور کیجیے۔شکر نعمت پر کیا جاتا ہے، گویا اصلا یہاں شکر سے پہلے نعمت مانگی گئی ہے اور ایسی نعمت کہ جو یاد خدا سے غافل نہ کر دے،بلکہ ایسی کہ جس کے نتیجے میں شکر ورد زبان ہوجائے، پھر یہ بھی معلوم کہ شکر ہی نعمت کے دوام و لزوم کا منفرد ذریعہ ہے۔ اسلامی تعلیمات دیکھئے کہ شکر کس طرح نعمت چھننے کی راہ میں محافظ اور چوکیدار بن کے کھڑا ہو جاتا ہے۔ گویا اولا تو یہاں بن کہے ہی، اس حالت سے پناہ مانگ لی گئی ،جس میں آدمی نعمت کو ترستا پھرے اور ناشکری و شکوہ سے زبان آلودہ کرتا پھرے، پھر اس نعمت کا محافظ شکر مانگ لیا، پھر ساتھ ہی نعمت کے طبیعت پر تمام تر مثبت اثرات بھی مانگ لیے گئے۔
تیسرا لفظ حسن عبادت، بجائے خود ایک کونسیپٹ کی کلیرنس ہے۔ ایک ہوتی ہے زیادہ سے زیادہ عبادت اور ایک ہوتی ہے،حسن عبادت۔ کم ہی لوگ جانتے ہیں کہ خدا کو مقدار نہیں معیار مطلوب ہے۔ کوانٹٹی نہیں،کوالٹی۔قرآن مجید میں یہ اہم ترین اور چونکا دینے والی بات سورہ ملک میں کی گئی۔ ارشاد ہے۔
اس نے تمھیں پیدا کیا تاکہ دیکھ سکے کہ کون احسن اعمال بجا لاتا ہے۔
یعنی زیادت عبادت نہیں،حسن عبادت۔ تو یہی نکتہ یہاں دعا میں سمجھا دیا گیا اور منہ سے کہلا بھی دیا گیا۔ یہ اس چند لفظی دعا کے مختصرا ذہن میں آنے والے کچھ پہلو اور نکات ہیں۔ سوچئے فرصت میں کوئی آمادہ تفصیل ہو تو کیا کچھ سمیٹ لائے۔ چنانچہ آپ ایک کام تو یہ کیجئے کہ اس دعا کو اپنی زندگی کی روزمرہ دعاؤں کا حصہ بنائیے اور پھر لطف و کرم خداوندی کے مظاہر دیکھئے۔
تو بھائی یہ ہے اللہ کی عطا اور نبوی الفاظ کی جامعیت۔ دراصل زندگی لفظوں سے ہی توانا ہے،اللہ فظوں کے کیسے قیمتی خزینے ہمیں عطا ہوئے،کم ہی ہم مگر غور کرتے ہیں۔
یوسف سراج