سوال (146)

کیا دعا مانگتے ہوئے ہاتھ ننگے رکھنے چاہئیں یا ڈھانپ کر دعا کرنی چاہئے ؟ عورت کے لیے کیا حکم ہے جب وہ ایسی جگہ ہو جہاں مرد بھی موجود ہیں ۔

جواب:

ایسی شروط و قیود تو نہیں ملتی ہیں کہ ہاتھ ڈھانپ لیں یا کھول لیں ، جس رب کے سامنے ہاتھ پھیلے ہیں ، اس رب کو سب معلوم ہے ، البتہ بلاضرورت ایسی حرکات و سکنات سےبچنا چاہیے کہ جس پر لوگ آوازیں اٹھائیں یا لوگوں کو اشتباہ ہو ، معاملہ مبہم ہوجائے ۔
باقی رہا عورت کا معاملہ اس کے لیے بھی دونوں مباحث موجود ہیں ، جو لوگ ہاتھ کو ستر میں شمار کرتے ہیں ، ظاہر سی بات ہے وہ یہ کہیں گے کہ ہاتھ چھپا کے رکھے ، غلفس ، دو پٹہ یا چادر سے ہاتھوں کو چھپالیں جو اس کے قائل نہیں ہیں ۔ وہ اس آیت سے دلیل لیتے ہیں :

“وَلَا يُبۡدِيۡنَ زِيۡنَتَهُنَّ اِلَّا مَا ظَهَرَ مِنۡهَا‌”. [سورة النور : 31]

اس آیت سے استدلال کرتے ہوئے بعض نے کہا ہے کہ (ما ظھر منھا) سے دونوں ہاتھ ہیں اور دونوں قدم ہیں ، بعض نے کہا ہے کہ (ما ظھر منھا) سے دونوں ہاتھ ، قدم اور چہرہ ہے ، بہرحال ہاتھ کھلے رہنے میں کوئی سختی نہیں ہے ۔ البتہ اس میں جو اختیاری زینت ہے اس سے روکا جائے گا ، جیسے مہندی یا انگوٹھیاں یا اس طرح کی کوئی اور چیز پہنی ہوئی ہو۔ تو اس صورت میں اولی یہی ہے کہ ہاتھوں کو ظاہر نہ کیا جائے ۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ
ۤ

“وَلَا يُبۡدِيۡنَ زِيۡنَتَهُنَّ اِلَّا مَا ظَهَرَ مِنۡهَا‌”. [سورة النور: 31]

مذکورہ آیت (ما ظھر منھا) سے چہرہ یا اکیلے ہاتھ بھی مراد لینا شدید محل نظر ہے ، صحیح بات یہی ہے کہ اس سے زینت خُلقیہ جس کے ظاہر کیے بغیر چارہ کار نہیں مراد ہے جیسا کہ لباس ہے۔ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا یہی موقف ہے ، لہذا عورت کے ہاتھ بھی “عورة النظر” میں شامل ہیں ۔تفصیل کے لیے شیخ شنقیطی رحمہ اللہ کی أضواء البیان یا شیخ عبدالسلام بھٹوی صاحب کی تفسیر دیکھی جا سکتی ہے

فضیلۃ الشیخ داؤد اسماعیل حفظہ اللہ