سوال (904)

دعا وتر میں بعض الفاظ “نستغفرک ونتوب” یہ صحیح ہیں ۔۔۔؟

جواب

یہ الفاظ صحیح سند کے ساتھ ثابت نہیں ہیں، بلکہ اضافہ ہی معلوم ہوتا ہے۔ اللھم اھدنی والی دعا مرفوعا ثابت ہے، باقی اللھم انا نستعینک موقوفا ثابت ہے، اللھم اھدنی بہتر یہ ہے کہ یہ دعا پڑھی جائے، باقی اللھم انا نستعینک اس کا بھی جواز ہے، اس میں مزید دعاؤں کا اضافہ کیا جا سکتا ہے، جیساکہ قنوت نازلہ میں کیا جاتا ہے، کیونکہ گہرائی میں جا کر دیکھیں تو سلف صالحین نے قنوت نازلہ اور قنوت وتر میں کوئی خاطر خواہ فیصلہ نہیں کیا تھا، دونوں ہی قنوت ہیں، باقی اولی اور غیر اولی کی بحث ہو سکتی ہے۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ

“اللهم اهدنا فيمن هديت” یہ دعا قنوت وتر کے ساتھ خاص نہیں ہے، تخصیص روات کی خطاء ہے راجح یہ ہے کہ یہ دعا عام ہے۔

فضیلۃ الباحث اسامہ شوکت حفظہ اللہ

سوال: قنوت وتر کی دعا میں “نستغفرک و نتوب الیک” اور “صلی الله علیٰ النبی” پڑھنا ثابت ہے؟

جواب: “نستغفرک و نتوب الیک” یہ الفاظ ثابت نہیں، باقی ان الفاظ  “صلی اللہ علیٰ النبی” کو اہل علم نے عمومی ادلہ کی وجہ سے قبول کیا ہے، بعض روایات بھی ہیں، اگرچہ متکلم فیہ ہیں، لیکن عمومی ادلہ کی وجہ سے گنجائش دی ہے۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ

سوال: وتر کی قنوت میں جو مشہور دعا “اللَّهُمَّ اهْدِنِي فِيمَنْ هَدَيْتَ” پڑھی جاتی ہے، کیا یہ دعا صحیح سند سے ثابت ہے؟ بعض اہلِ علم نے اس کی سند میں موجود راوی ابو الحوراء پر جرح کی ہے، مثلاً امام بخاری رحمہ اللہ نے ان کے بارے میں “فیہ نظر” فرمایا ہے، اس صورت میں کیا اس دعا کو وتر میں پڑھنا مشروع ہے؟ براہِ کرم اس دعا کے ثبوت، سند کی حیثیت اور فقہی مقام کے بارے میں رہنمائی فرمائیں۔

جواب: عمومی طور پر اہل علم نے اس روایت کو قبول کیا ہے، اس روایت کا تعلق فضائل سے ہے، اس میں محدثین کے ہاں زیادہ سختی نہیں پائی جاتی ہے، لہذا یہ روایت قبول ہے، باالخصوص پاک و ہند میں اس روایت کو تلقی بالقبول حاصل ہے، عرب میں بھی اس روایت کو تلقی بالقبول حاصل ہے، ایک آدھ محدث کوئی بات کی ہوگی، لیکن جمہور اہل علم نے اس روایت کو قبول کیا ہے۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ