بعض اوقات دعائیں قبول نہ ہونے کا ایک وھم اور مظنہ ہوتا ہے جو انسان خود سوچتا ہے جبکہ اسکی دعائیں قبول ہورہی ہوتی ہیں لیکن جس نظر سے یہ دیکھ رہا ہوتا ہے اسکا خالق اس سے بہتر کی طرف اسکی بھلائی کرنا چاہتا ہے اور یہ انسان کی خود ایمان کی کمزوری کے سوا کچھ نہیں..!
اس لئیے انسان جلد ہی تھک ہار کر بیٹھ جاتا ہے صحیح حدیث میں باقاعدہ اسکی وضاحت ہے کہ انسان دعائیں کرتا رہتا ہے تو جب اسکی من پسند دعا قبول ہونے لگتی ہے تو یہ اس وقت تھک ہار کر بیٹھ جاتا ہے.!
غور طلب بات یہ بھی ہے انسان اپنے گناہوں کی تلافی کیلئے تو ایک دفعہ ہی دعا کرنا کافی سمجھتا ہے اور الله تعالیٰ سے امید واثق رکھتا ہے اس نے اسکے گناہ بخش دئیے ہونگے جبکہ اپنے مطالبات پورا کروانے کیلئے خدا کے بارے بدگمان ہوجاتا ہے کہ وہ اسکی دعائیں قبول نہیں کرتا جبکہ دونوں ہی دعائیں قبول کرنے والا ایک ہی خدا ہے اور دونوں طرح کی دعاؤں کے بارے اس خدا نے ایک جیسی ہی بشارت دی ہے..!
ویسے بھی انسان اپنے دیگر معاملات میں تو بار بار کوشش کا درس دیتا ہے جبکہ ادھر خالق سے بہت جلد بدظن ہوکر بیٹھ جاتا ہے…!
پھر دعا بذات خود ایک عبادت اور خدا کو مطلوب شے ہے جسکی بارے صحیح حدیث ہے نبی علیہ السلام نے فرمایا جو انسان الله تعالیٰ سے دعا نہیں کرتا الله تعالیٰ اس پر ناراض ہوجاتے ہیں.
دعا ایک خاص عبادت ہے جو نیکیوں کی صورت میں آپکا ذخیرہ آخرت بن رہی ہے مزیدبرآں بعض امکانی نقصانات سے بچنا بھی دعا کی ہی برکت ہے یہ دونوں باتیں بھی صحیح حدیث سے ماخوذ ہیں.
پھر دعا سے ایسی روحانیت ملتی ہے کہ انسان کا پورا بدن اور روح ترو تازہ ہوجائے اسی لئیے نماز بھی ایک دعا کا ہی مخصوص طریقہ ہے عربی زبان میں “صلاۃ” دعا کرنے کو کہتے ہیں لیکن یہ دعا پانچ وقت مخصوص شرعی طریقہ کے مطابق مانگنا ہر مسلمان پر فرض ہے جبکہ عام دعا بالخصوص نفل جبکہ بالعموم فرض ہے..!
دیگر مذاھب میں تو روحانیت حاصل کرنے کیلئے باقاعدہ مراقبہ اور یوگا جیسی مشقیں کروائی جاتی ہیں جو آپکو فری میں دعا کرنے کی صورت میں مل جاتی ہے.!
بعض دفعہ دعا کے قبول نہ ہونے کے پیچھے انسان کی خود کی کوتاہیاں ہوتی ہیں مثلاً دل میں دعا کی قبولیت کے یقین نہ ہونے اور الله تعالیٰ کے بارے حسن ظن نہ رکھتے ہوئے دعا کرنا،پوری توجہ اور تضرع کے بغیر دعا کرنا غیر شرعی مطالبات رکھنا جو دیگر انسانوں کیلئے نقصان دہ ہوں..!
صرف تنگی آنے پر ہی رب سے التجاء کرنا باقی حالات میں رب سے دوری اختیار کرنا جسکی باقاعدہ حدیث میں صراحت وارد ہے
رب سے مانگنا ہی غرض ہو رب کو منانا غرض نہ ہو جیسا کہ صلحاء کی دعائیں اس لئیے جلد قبول ہوتی ہیں کیونکہ وہ رب کو منانے میں محنت کرتے ہیں الغرض دعا خدا سے انسان کا ایسا تعلق ہے جس میں جتنا زیادہ یقین اور محنت ہوگی اتنی ہی جلد خدا کی نوازش ہوگی..!
دعا کی قبولیت کی بابت کچھ اور بھی چیزیں ہیں جو احادیث میں فردًا فردًا وارد ہیں…!
عمیر رمضان