سوال (848)

دکان میں سگریٹ ، نسوار ، پان وغیرہ بیچنے کا کیا حکم ہے؟

جواب

نشہ آور جتنی بھی چیزیں ہیں ، مسکر یا مفتر ان کی خرید و فروخت ناجائز ہے ، اگر میٹھا پان یا سادہ پان ہے تو اس کی گنجائش دی جاتی ہے ، لیکن ایسا ہوتا نہیں ہے ، ہر قسم کا پان بیچا جاتا ہے ، جس میں تمباکو آئے گا وہ نشہ آور ہوگا ، نشہ آور چیز جائز نہیں ہے جو جائز نہیں اس کا کاروبار بھی جائز نہیں ہے ۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ

اس حوالے سے ہمارے شیخ حافظ قمر حسن حفظہ اللہ کا ایک مضمون ذکر کیا جاتا ہے ۔
تمباکو نوشی کے متعلق مسلم فقہاء کی آراء
مسلم ممالک میں تمباکو نوشی کا رجحان سولھویں صدی میں اُن دنوں ہوا جب تمباکو امریکہ سے یورپ لایا گیا اور یورپی ممالک میں بڑے پیمانے پر اس کا استعمال شروع ہوا۔ ابتدائی ادوار میں فقہائے اسلام کی طرف سے تمباکو نوشی کے متعلق کوئی فقہی تصریحات نہیں ملتیں تاہم نویں صدی ہجری میں مسلم فقہاء جب تمباکو سے واقف ہوئے تو مختلف علماء نے اس سلسلے میں متعدد کتابچے سپردِ قلم کیے جن کی تعداد تیس کے قریب ہے۔ ان میں بعض فقہاء نے تمباکو کو حرام قرار دیا جبکہ بعض دیگر نے تمباکو پر حرمت کا فتویٰ عائد نہیں کیا۔ بہر کیف تمباکو نوشی کے متعلق فقہائے اسلام کی تین بنیادی آراء سامنے آتی ہیں:
1- فقہاء کی پہلی رائے کے مطابق تمباکو نوشی مطلق طور پر حرام ہے۔ اِس رائے کے حامل فقہاء نے متعدد نصوص ( کتاب و سنت کی صریح عبارتیں جن میں کسی تاویل کی گنجائش نہ ہو) سے استدلال کیا ہے۔ •ایک دلیل یہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: { وَ يُحَرِّمُ عَلَيْهِمُ الخَبَائِثَ } (الأعراف 157:7.) تمباکو چونکہ ایک خبیث بوٹی ہے، اس لیے وہ حرام ہے۔ •دوسری دلیل یہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: { وَ لَا تَقتُلُوا أَنفُسَكُم} (النساء 29:4.) تمباکو نوشی کے باعث کچھ لوگ موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں، اس لیے تمباکو حرام ہے۔ •تیسری دلیل یہ حدیثِ نبوی ہے: (( لَا ضَرَرَ وَ لَا ضِرَارَ. )) یعنی نہ تو خود کو نقصان پہنچانا جائز ہے، نہ کسی اور کو بلا وجہ نقصان پہنچانا جائز ہے۔ (سنن ابن ماجه: 2341.) ماہرین کے نزدیک تمباکو نوشی میں بے پناہ ضرر ہے، اس لیے وہ جائز نہیں۔ •چوتھی دلیل یہ حدیث ہے کہ جس نے زہر پی کر خود کو مار ڈالا، وہ جہنم میں بھی زہر پیتا رہے گا۔ (صحيح البخاري:5778، و صحيح مسلم:109.) تمباکو بھی چونکہ ایک زہر ہے، اس لیے تمباکو نوشی حرام ہے۔ •پانچویں دلیل یہ ہے کہ تمباکو ایک گندی اور بدبودار بوٹی ہے جس کے استعمال سے جسمانی نظافت قائم نہیں رہتی جبکہ اسلام جسمانی نظافت اور صفائی ستھرائی کا حکم دیتا ہے۔ •چھٹی دلیل یہ حدیث ہے:

((مَن كَانَ يُؤمِنُ بِاللهِ وَ اليَوْمِ الآخِرِ فَلَا يُؤذِ جَارَهُ. ))

یعنی جسے اللّٰہ تعالیٰ اور یومِ آخرت پر ایمان ہو، وہ اپنے پڑوسی (ساتھ والے شخص) کو ایذا نہ دے۔ (صحيح البخاري:6018.) •ساتویں دلیل یہ ہے کہ اسلام میں روپے پیسے کے ضیاع سے منع کیا گیا ہے۔ (صحيح البخاري و صحيح مسلم.) تمباکو نوشی میں روپے پیسے کا ضیاع ہے کیونکہ وہ فائدہ مند نہیں، اس لیے تمباکو نوشی حرام ہے۔
2- فقہاء کی دوسری رائے اس سلسلے میں یہ ہے کہ تمباکو نوشی مطلق طور پر جائز ہے کیونکہ کھانے پینے کی تمام اشیاء کے متعلق بنیادی قاعدہ یہ ہے کہ کھانے پینے کی سب اشیاء حلال ہیں ماسوائے اس چیز کے جس کی حرمت کے متعلق نص (کتاب و سنت کی صریح عبارت جس میں تاویل کی گنجائش نہ ہو) آ جائے یا وہ ایسی دلیل یا ایسے عام قاعدے کے تحت آئے جس سے اس کی حرمت ثابت ہو یا اُسے علتِ مشترکہ کی وجہ سے اصلِ حرام پر قیاس کر لیا جائے۔ اِن میں سے کوئی دلیل تمباکو نوشی کی حرمت کے متعلق چونکہ نہیں ملتی، اس لیے تمباکو نوشی اصل حکم یعنی حِلت پر برقرار ہے۔
پہلی رائے کے دلائل کو اِن فقہاء نے یہ کہہ کر مسترد کر دیا ہے کہ وہ دلائل ظنی الدلالت ہیں جن سے تمباکو نوشی کی حرمت ثابت نہیں ہوتی۔ خبائث کے معنی پر چونکہ اتفاق نہیں ہے، اس لیے تمباکو کا شمار خبائث میں نہیں کیا جا سکتا۔ تمباکو نوشی کے نتیجے میں موت بھی یقینی نہیں ہے۔ نہ تو ہر تمباکو نوش تمباکو پینے کی وجہ سے مرتا ہے، نہ ہر حالت میں تمباکو پینے سے موت آتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ تمباکو کچھ لوگوں کے لیے نقصان دہ ہے جبکہ کچھ لوگوں کے لیے وہ نقصان دہ نہیں ہے۔ اسی طرح تمباکو بعض حالتوں میں نقصان دہ ہے اور بعض حالتوں میں نقصان دہ نہیں ہے۔ مزید برآں ہر قسم کا ضرر حرام نہیں ہے۔ یہ نسبتی امر ہے، یعنی بعض لوگوں کے لیے ایک ضرر حرام ہوتا ہے اور بعض دیگر کے لیے وہی ضرر مکروہ۔ اسی طرح تمام ایذائیں بھی حرام نہیں ہیں۔ بعض ایذائیں حرام ہیں اور بعض مکروہ، تاہم ہر ایذا کم سے کم مکروہ ضرور ہے۔
نظافت کے معنی بھی متعین نہیں ہیں۔ ایک نظافت اگر واجب ہے تو دوسری مستحب ہے۔
روپے پیسے کے ضیاع کا حکم بھی امیری غریبی کے لحاظ سے مختلف ہے۔ ایک امیر آدمی جو زندگی کی تمام ضروریات پوری کرنے پر بخوبی قادر ہو اور روپیہ پیسہ اس کے پاس اس کی ضروریات سے کہیں زیادہ ہو، اس کے حق میں روپے پیسے کا ضیاع مکروہ ہے جبکہ وہ غریب شخص جو زندگی کی بنیادی ضروریات پوری کرنے پر قادر نہ ہو، وہ اگر روپیہ پیسہ ضائع کرے تو اس کا یہ فعل حرام ہے۔
یوں پہلی رائے کے دلائل سے تمباکو نوشی مطلق طور پر حرام ثابت نہیں ہوتی۔
3- تیسری رائے پہلی دونوں آراء کے درمیان ہے۔ اس رائے کے حامل فقہاء کچھ تفصیل کرتے ہیں۔ اُن کے نزدیک تمباکو نوشی بعض صورتوں میں حرام ہے اور بعض صورتوں میں مکروہ۔ یاد رہے کہ مکروہ حلال کے دائرے میں آتا ہے۔
ان میں سے بعض فقہاء تو یہ بھی کہتے ہیں کہ تمباکو پر پانچوں احکام عائد ہو سکتے ہیں، یعنی اس کا استعمال مختلف حالتوں میں واجب، حرام، مستحب، مکروہ اور مباح (جائز) ہو سکتا ہے۔ اس رائے کے مطابق تمباکو نوشی اگر کسی شخص کے لیے کسی خاص حالت میں جان لیوا ہو اور ماہر ڈاکٹر اس کی تصدیق کردے تو اس شخص کے لیے تمباکو نوشی مطلق طور پر حرام ہے۔ اسی طرح اس شخص کے لیے بھی تمباکو نوشی حرام ہے جس کے پاس اتنا ہی روپیہ پیسہ ہو کہ وہ بمشکل ضروریاتِ زندگی کی تکمیل کر سکے۔ یعنی جس کے لیے روپے پیسے کا اسراف حرام ہے، اس کے لیے تمباکو نوشی بھی حرام ہے۔
یوں اگر کسی شخص کو تمباکو نوشی سے صحت اور روپے پیسے کا نقصان نہ ہو تو اس کے حق میں تمباکو نوشی جائز لیکن مکروہ ہے کیونکہ اس میں نقصان کا اندیشہ بہرحال رہتا ہے اور اس کی بدبو آس پاس کے لوگوں کے لیے اذیت ناک بھی ہے۔ اس صورت میں تمباکو نوشی کا حکم کچا لہسن اور کچی پیاز کھانے کا ہے۔ اسی طرح تمباکو نوشی از راہِ تقوی بھی مکروہ ہے کیونکہ بعض فقہاء اس کی حرمت کے قائل ہیں۔ پس اس سے اجتناب ہی بہتر ہے۔
بعض فقہاء تمباکو کو اس کے استعمال کے لحاظ سے مکروہ اور حرام میں تقسیم کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک تمباکو اگر پان یا نسوار کی صورت میں کھایا جائے اور نگلنے سے گریز کیا جائے تو وہ جائز ہے جبکہ اسے نگلنا مکروہ تحریمی (قریبِ حرام) ہے۔ اگر تمباکو سگریٹ کی صورت میں پیا جائے تو جائز نہیں تاہم اگر حقے میں ڈال کر پیا جائے تو جائز ہے کیونکہ اُس کا دھواں حقے میں موجود پانی سے ریفائن ہوجاتا ہے۔ اس طرح وہ نقصان دہ نہیں رہتا۔

فضیلۃ العالم حافظ قمر حسن حفظہ اللہ