سوال (1539)
ہمارا ایک دینی بھائی انجنئیر علی مرزا کے ویڈیوز شئیر کرتے ہیں ، میرے منع کرنے پر انہوں نے کہا کہ مجھے معلوم ہے کہ انجنئیر علی مرزا کے منھج میں غلطیاں موجود ہیں ، درست بات شیطان سے بھی لی جاتا سکتی ہے ۔ اس حوالے سے رہنمائی کیجیے ، کیا ایسا کرنا اور کہنا درست ہے ؟
جواب
وہ بھائی غلطی پر ہے ۔ باقی رہی بات کہ سیدنا ابوھریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت کی ۔
سیدنا ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
“وَكَّلَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِحِفْظِ زَكَاةِ رَمَضَانَ، فَأَتَانِي آتٍ فَجَعَلَ يَحْثُو مِنَ الطَّعَامِ فَأَخَذْتُهُ، وَقُلْتُ: وَاللَّهِ لَأَرْفَعَنَّكَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: إِنِّي مُحْتَاجٌ، وَعَلَيَّ عِيَالٌ، وَلِي حَاجَةٌ شَدِيدَةٌ، قَالَ: فَخَلَّيْتُ عَنْهُ فَأَصْبَحْتُ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يَا أَبَا هُرَيْرَةَ، مَا فَعَلَ أَسِيرُكَ الْبَارِحَةَ، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، شَكَا حَاجَةً شَدِيدَةً وَعِيَالًا، فَرَحِمْتُهُ فَخَلَّيْتُ سَبِيلَهُ، قَالَ: أَمَا إِنَّهُ قَدْ كَذَبَكَ وَسَيَعُودُ، فَعَرَفْتُ أَنَّهُ سَيَعُودُ لِقَوْلِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّهُ سَيَعُودُ فَرَصَدْتُهُ، فَجَاءَ يَحْثُو مِنَ الطَّعَامِ فَأَخَذْتُهُ، فَقُلْتُ: لَأَرْفَعَنَّكَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: دَعْنِي فَإِنِّي مُحْتَاجٌ وَعَلَيَّ عِيَالٌ لَا أَعُودُ، فَرَحِمْتُهُ فَخَلَّيْتُ سَبِيلَهُ فَأَصْبَحْتُ، فَقَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يَا أَبَا هُرَيْرَةَ، مَا فَعَلَ أَسِيرُكَ ؟ قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، شَكَا حَاجَةً شَدِيدَةً وَعِيَالًا فَرَحِمْتُهُ فَخَلَّيْتُ سَبِيلَهُ، قَالَ: أَمَا إِنَّهُ قَدْ كَذَبَكَ وَسَيَعُودُ فَرَصَدْتُهُ الثَّالِثَةَ، فَجَاءَ يَحْثُو مِنَ الطَّعَامِ فَأَخَذْتُهُ، فَقُلْتُ: لَأَرْفَعَنَّكَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ، وَهَذَا آخِرُ ثَلَاثِ مَرَّاتٍ أَنَّكَ تَزْعُمُ لَا تَعُودُ ثُمَّ تَعُودُ، قَالَ: دَعْنِي أُعَلِّمْكَ كَلِمَاتٍ يَنْفَعُكَ اللَّهُ بِهَا، قُلْتُ: مَا هُوَ ؟ قَالَ: إِذَا أَوَيْتَ إِلَى فِرَاشِكَ فَاقْرَأْ آيَةَ الْكُرْسِيِّ: اللَّهُ لا إِلَهَ إِلا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ سورة البقرة آية 255، حَتَّى تَخْتِمَ الْآيَةَ، فَإِنَّكَ لَنْ يَزَالَ عَلَيْكَ مِنَ اللَّهِ حَافِظٌ، وَلَا يَقْرَبَنَّكَ شَيْطَانٌ حَتَّى تُصْبِحَ، فَخَلَّيْتُ سَبِيلَهُ فَأَصْبَحْتُ، فَقَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَا فَعَلَ أَسِيرُكَ الْبَارِحَةَ ؟ قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، زَعَمَ أَنَّهُ يُعَلِّمُنِي كَلِمَاتٍ يَنْفَعُنِي اللَّهُ بِهَا فَخَلَّيْتُ سَبِيلَهُ، قَالَ: مَا هِيَ ؟ قُلْتُ: قَالَ لِي: إِذَا أَوَيْتَ إِلَى فِرَاشِكَ، فَاقْرَأْ آيَةَ الْكُرْسِيِّ مِنْ أَوَّلِهَا حَتَّى تَخْتِمَ الْآيَةَ: اللَّهُ لا إِلَهَ إِلا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ [سورة البقرة : 255] وَقَالَ لِي: لَنْ يَزَالَ عَلَيْكَ مِنَ اللَّهِ حَافِظٌ، وَلَا يَقْرَبَكَ شَيْطَانٌ حَتَّى تُصْبِحَ، وَكَانُوا أَحْرَصَ شَيْءٍ عَلَى الْخَيْرِ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَمَا إِنَّهُ قَدْ صَدَقَكَ وَهُوَ كَذُوبٌ، تَعْلَمُ مَنْ تُخَاطِبُ مُنْذُ ثَلَاثِ لَيَالٍ يَا أَبَا هُرَيْرَةَ، قَالَ: لَا، قَالَ: ذَاكَ شَيْطَانٌ. [صحيح البخاري: 2311]
«رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے رمضان کی زکوٰۃ کی حفاظت پر مقرر فرمایا۔ (رات میں) ایک شخص اچانک میرے پاس آیا اور غلہ میں سے لپ بھربھر کر اٹھانے لگا میں نے اسے پکڑ لیا اور کہا کہ قسم اللہ کی! میں تجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لے چلوں گا۔ اس پر اس نے کہا کہ اللہ کی قسم! میں بہت محتاج ہوں۔ میرے بال بچے ہیں اور میں سخت ضرورت مند ہوں۔ ابوہریرہ ؓ نے کہا (اس کے اظہار معذرت پر) میں نے اسے چھوڑ دیا۔ صبح ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے پوچھا، اے ابوہریرہ! گذشتہ رات تمہارے قیدی نے کیا کیا تھا؟ میں نے کہا یا رسول اللہ! اس نے سخت ضرورت اور بال بچوں کا رونا رویا، اس لیے مجھے اس پر رحم آگیا۔ اور میں نے اسے چھوڑ دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ تم سے جھوٹ بول کر گیا ہے۔ اور وہ پھر آئے گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمانے کی وجہ سے مجھ کو یقین تھا کہ وہ پھر ضرور آئے گا۔ اس لیے میں اس کی تاک میں لگا رہا۔ اور جب وہ دوسری رات آ کے پھر غلہ اٹھانے لگا تو میں نے اسے پھر پکڑا اور کہا کہ تجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر کروں گا، لیکن اب بھی اس کی وہی التجا تھی کہ مجھے چھوڑ دے، میں محتاج ہوں۔ بال بچوں کا بوجھ میرے سر پر ہے۔ اب میں کبھی نہ آؤں گا۔ مجھے رحم آگیا اور میں نے اسے پھر چھوڑ دیا۔ صبح ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے ابوہریرہ! تمہارے قیدی نے کیا کیا؟ میں نے کہا یا رسول اللہ! اس نے پھر اسی سخت ضرورت اور بال بچوں کا رونا رویا۔ جس پر مجھے رحم آگیا۔ اس لیے میں نے اسے چھوڑ دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مرتبہ بھی یہی فرمایا کہ وہ تم سے جھوٹ بول کر گیا ہے اور وہ پھر آئے گا۔ تیسری مرتبہ میں پھر اس کے انتظار میں تھا کہ اس نے پھر تیسری رات آ کر غلہ اٹھانا شروع کیا، تو میں نے اسے پکڑ لیا، اور کہا کہ تجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچانا اب ضروری ہوگیا ہے۔ یہ تیسرا موقع ہے۔ ہر مرتبہ تم یقین دلاتے رہے کہ پھر نہیں آؤ گے۔ لیکن تم باز نہیں آئے۔ اس نے کہا کہ اس مرتبہ مجھے چھوڑ دے تو میں تمہیں ایسے چند کلمات سکھا دوں گا جس سے اللہ تعالیٰ تمہیں فائدہ پہنچائے گا۔ میں نے پوچھا وہ کلمات کیا ہیں؟ اس نے کہا، جب تم اپنے بستر پر لیٹنے لگو تو آیت الکرسی الله لا إله إلا هو الحي القيوم پوری پڑھ لیا کرو۔ ایک نگراں فرشتہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے برابر تمہاری حفاظت کرتا رہے گا۔ اور صبح تک شیطان تمہارے پاس کبھی نہیں آسکے گا۔ اس مرتبہ بھی پھر میں نے اسے چھوڑ دیا۔ صبح ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا، گذشتہ رات تمہارے قیدی نے تم سے کیا معاملہ کیا؟ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! اس نے مجھے چند کلمات سکھائے اور یقین دلایا کہ اللہ تعالیٰ مجھے اس سے فائدہ پہنچائے گا۔ اس لیے میں نے اسے چھوڑ دیا۔ آپ نے دریافت کیا کہ وہ کلمات کیا ہیں؟ میں نے عرض کیا کہ اس نے بتایا تھا کہ جب بستر پر لیٹو تو آیت الکرسی پڑھ لو، شروع الله لا إله إلا هو الحي القيوم سے آخر تک۔ اس نے مجھ سے یہ بھی کہا کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے تم پر (اس کے پڑھنے سے) ایک نگراں فرشتہ مقرر رہے گا۔ اور صبح تک شیطان تمہارے قریب بھی نہیں آسکے گا۔ صحابہ خیر کو سب سے آگے بڑھ کرلینے والے تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے (ان کی یہ بات سن کر) فرمایا کہ اگرچہ وہ جھوٹا تھا۔ لیکن تم سے یہ بات سچ کہہ گیا ہے۔ اے ابوہریرہ! تم کو یہ بھی معلوم ہے کہ تین راتوں سے تمہارا معاملہ کس سے تھا؟ انہوں نے کہا نہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ شیطان تھا»
ہمارا ایمان نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بات پر ہے ، شیطان کی بات پر نہیں ہے ، یہ یاد رکھیں کہ یہ باقاعدہ منھج یا طریقہ نہیں ہے ، یہ تو ایک خبر کے طور پر واقع امر سامنے آگیا ہے ، اس میں امر کہاں ہے ، یہ اس کی تعبیر کہاں ہے ، جو یہ پیش کر رہا ہے ، نعوذ باللہ آپ یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ، صحابہ کرام ، تابعین عظام اور اہل علم کے جو سلسلے ہیں ، انہوں نے ایسا طریقہ اختیار کیا ہے ، جس میں شیطان کو بھی حصہ دیا ہوا ہے ۔ نعوذ باللہ ۔ یہ ان کی بہت بڑی غلطی ہے۔
فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ