سوال

میں ایک کاروباری ماڈل کے متعلق شرعی رہنمائی حاصل کرنا چاہتا ہوں جس میں میں ایک امریکن بیسڈ پاکستانی سپلائر کے ساتھ کام کر رہا ہوں۔ میں چاہتا ہوں کہ آپ اس ماڈل کا بغور جائزہ لے کر اسلام کے اصولِ تجارت و معیشت کی روشنی میں واضح طور پر فرمائیں کہ آیا یہ کاروبار جائز ہے، حرام ہے یا مشکوک؟

کاروباری ماڈل کی تفصیل درج ذیل ہے:

  1. میں ای بے (eBay) پر اپنا سیلر اکاؤنٹ بناتا ہوں اور ایک سپلائر کی پروڈکٹس کو اسی قیمت پر لسٹ کرتا ہوں جو ای بے پر پہلے سے مارکیٹ ریٹ چل رہی ہوتی ہے۔
  2. میرا اس سپلائر کے ساتھ معاہدہ ہے کہ جب مجھے ای بے پر کسی پروڈکٹ کا آرڈر موصول ہو، تو میں میں گاہک کا شپنگ ایڈریس، پروڈکٹ ڈیٹیلز اور شپنگ لیبل سپلائر کو دوں گا اور اسے اس کے عوض ادائیگی بھی کروں گا۔
  3. گاہک نے جو قیمت ای بے پر ادا کی ہے وہ پیسے میرے اکاؤنٹ میں آرڈر ہونے 15 دن بعد آئیں گے، اور میں اپنے سپلائر کو پروڈکٹ کی قیمت شپنگ سے پہلے ادا کروں گا۔
  4. شپنگ کی تمام ذمہ داری میرے ذمہ ہے۔ اگرچہ عام طور پر میں ای بے سے شپنگ لیبل (UPS, USPS, FedEx وغیرہ) نکال کر سپلائر کو دے دیتا ہوں کہ وہ میری طرف سے سامان بھیجے، تاہم میں چاہوں تو کسی بھی کورئیر کے ذریعے خود بھی شپنگ کروا سکتا ہوں۔
  5. کسٹمر سپورٹ، ریٹرن، ریفنڈ وغیرہ کی ساری ذمہ داری بھی میری ہے۔ گاہک براہ راست مجھ سے رابطہ کرتا ہے، نہ کہ سپلائر سے۔
  6. میں صرف وہی پروڈکٹس لسٹ کرتا ہوں جن میں مجھے ای بے کے موجودہ ریٹ کے مطابق نفع نظر آتا ہے۔
  7. سپلائر مجھے wholesale قیمت دیتا ہے اور وہ میری طرف سے کسی برانڈ یا مینوفیکچرر سے مال حاصل کرتا ہے۔

اضافی وضاحت:

میں اس ماڈل کو ایک عام تقسیم کار (distributor) کے ماڈل سے بھی تشبیہ دینا چاہتا ہوں۔ جیسے ایک ڈسٹری بیوٹر کئی چھوٹے دکانداروں یا ہول سیلرز سے آرڈر لیتا ہے — کسی سے 200 بوری، کسی سے 300، کسی سے 500 — اور جب اس کے پاس مجموعی آرڈر برانڈ کی MOQ (مثلاً 3000 بوری) مکمل ہو جاتا ہے تو وہ برانڈ کو آرڈر دیتا ہے، اور جب کھاد آتی ہے تو ایک ہی گاڑی سے ہر ہول سیلر کو اس کے مطلوبہ بوریوں کے حساب سے مال فراہم کرتا ہے۔ کیا میری eBay والی ڈراپ شپنگ اس ماڈل سے مشابہت رکھتی ہے؟

سوال:

  1. کیا میرے لیے اس طرح کا ڈراپ شپنگ ماڈل اختیار کرنا شرعاً جائز ہے؟
  2. اگر ناجائز یا مشکوک ہے تو اس کی بنیادی وجہ کیا ہے؟
  3. کیا اس ماڈل میں بیع ما یملک (یعنی ایسی چیز بیچنا جو میرے قبضہ یا ملکیت میں نہ ہو) کا معاملہ تو نہیں ہو رہا؟
  4. اگر اس کو جائز بنانے کے لیے کوئی شرعی ترمیم یا طریقہ ہو تو براہ کرم رہنمائی فرمائیں۔

آپ کی رہنمائی کا منتظر ہوں۔ جزاکم اللہ خیراً

محمد ابراہیم، کوٹ ادو پاکستان

جواب

الحمد لله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!

اسلامی تجارت کے چند بنیادی اصول ہیں جن پر ہر کاروباری ماڈل کو پرکھا جاتا ہے:

  1. ملکیت و قبضہ
  2. غرر و جہالت
  3. قرض اور بیع کا خلط
  4. ضمان

جو صورت حال آپ نے بیان کی ہے اس کے مطابق آپ ایسی پروڈکٹ لسٹ کرتے ہیں جو آپ کے پاس اسٹاک میں موجود نہیں بلکہ سپلائر کے پاس ہے۔ یہ فی الحال بیع ما لا یملک (ملکیت کے بغیر بیع) کے مشابہ ہے۔

جب گاہک نے آپ کے ای بے اسٹور سے پروڈکٹ خریدی تو اس وقت تک آپ کے پاس وہ پروڈکٹ نہ ملکیت میں ہے نہ قبضہ میں۔ آپ بعد میں سپلائر سے خرید کر آگے بھیجتے ہیں۔ یہی اصل فقہی مسئلہ ہے۔

چونکہ آپ ہی سپلائر کو پیسے دیتے ہیں اور شپنگ آپ کے نام سے ہوتی ہے، اس لیے ضمان (ذمہ داری) آپ کی ہے۔ کسٹمر سپورٹ اور ریٹرن وغیرہ سب آپ کے ذمہ ہیں۔

فرق یہ ہے کہ ڈسٹری بیوٹر پہلے برانڈ سے سودا کر کے مال اپنے قبضے میں لے لیتا ہے پھر آگے تقسیم کرتا ہے۔ لیکن آپ کا معاملہ یہ ہے کہ آپ قبضہ سے پہلے ہی فروخت کر رہے ہیں۔

اس ماڈل میں اصل اشکال یہی ہے کہ آپ مال اپنے قبضے میں لائے بغیر بیچتے ہیں۔

خرید وفروخت کی ہر پروڈکٹ میں یہی اصول ہے۔ یعنی قبضہ و ملکیت ( حسی یا معنوی)

لہٰذا اس میں یہی ایک قباحت محسوس ہو رہی ہے کہ یہ ماڈل صرف مشکوک کی بجائے ناجائز (بیع ما لا یملک) کے قریب ہے۔

ہاں البتہ اگر آپ اس میں چند ترامیم کریں تو یہ ماڈل جائز ہوسکتا ہے:

آپ سپلائر کو اپنا “وکیل” بنا دیں کہ وہ آپ کی طرف سے مال بھیجے۔ اس کے لیے ایک واضح معاہدہ لکھیں کہ آپ مال پہلے سپلائر سے خریدتے ہیں (قیمت ادا کر کے)۔ سپلائر صرف آپ کی طرف سے شپنگ کرے۔ اس طرح مال پہلے آپ کی ملکیت میں آئے گا، پھر آپ آگے بیچیں گے۔

یا اگر سپلائر خود آپ کو کمیشن پر وکیل بنا دے (کہ آپ اس کے مال کو اس کے نام پر بیچیں) تو یہ بھی درست ہے۔ مگر پھر آپ بیچنے والے کے بجائے صرف ایجنٹ  ہوں گے۔

یا پھر سپلائر آپ کو اپنا اسٹاک “کنسائنمنٹ” پر دے دے اور آپ اس کے ذمہ دار بن جائیں۔ یعنی مال آپ کی تحویل میں شمار ہو اور ضمان بھی آپ کی ہو۔

مذکورہ بالا چار بنیادی قواعد کی روشنی میں آپ کے سوالات کے جوابات:

  1. کیا یہ جائز ہے؟

موجودہ شکل میں نہیں، کیونکہ یہ بیع ما لایملک اور بیع قبل القبض ہے۔

  1. ناجائز ہونے کی وجہ؟

بنیادی وجہ یہ ہے کہ آپ مال اپنے قبضہ اور ملکیت میں لائے بغیر بیچ رہے ہیں۔

  1. کیا یہ بیع ما لایملک ہے؟

جی ہاں، یہی اصل مسئلہ ہے۔

  1. جائز بنانے کا طریقہ؟

یا تو آپ پہلے مال سپلائر سے خرید کر مالک بنیں اور پھر بیچیں۔ یا آپ وکالت/کمیشن ایجنسی کے طور پر بیچیں (یعنی آپ ایجنٹ ہوں نہ کہ اصل بیچنے والے)۔ یا کنسائنمنٹ اسٹاک آپ کے نام پر ہو اور ضمان آپ پر آجائے۔

وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين

تحریر کنندہ: ڈاکٹر شاہ فیض الابرار

مفتیانِ کرام

فضیلۃ الشیخ  ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  عبد الحلیم بلال حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ

فضیلۃ الدکتور عبد الرحمن یوسف مدنی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  محمد إدریس اثری حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ مفتی عبد الولی حقانی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ عبد الحنان سامرودی حفظہ اللہ