اہلِ بدعت سے تعامل، منہجِ صحابہ

کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اہلِ بدعت سے دوری کا منہج کبار صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے کسی کا بھی نہیں تھا، یہ تابعین کے دور میں شروع ہوا۔ اس مقدمے کو بچانے کے لیے وہ سلف صالحین صرف صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو سمجھتے ہیں بلکہ خیر القرون بھی ان کے نزدیک سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے دور تک ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ صحابہ کرام کے دور میں نہ یہ کہ ہجر المبتدع موجود تھا، بلکہ باقاعدہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اس کا حکم دیا کرتے تھے اور سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے دور سے پہلے ہی یہ منہج موجود تھا۔ ذیل میں چند مثالیں پیشِ خدمت ہیں :

✿۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ :
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں صبیغ نامی شخص تھا جو تفسير قرآن میں بدعت کا مرتکب تھا، غلط سلط معانی بیان کرتا اور اس پر فضول سوالات کرنے کا عادی تھا۔ جب سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو معلوم ہوا تو باقاعدہ اس کی درگت بنائی اور مسلمانوں کو اس سے ہجر اور دوری اختیار کرنے کا حکم نامہ جاری کر دیا۔
جیسا کہ سائب بن یزید رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں، سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے پاس کچھ لوگ آئے اور کہا: ’’اے امیر المؤمنین، ہم ایک شخص سے ملے ہیں جو قرآن کے معنی و مفہوم کے بارے میں (فضول) سوال کرتا ہے۔‘‘ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے دعا کی: ’’اے اللہ! مجھے اس پر قابو دے۔‘‘ پھر ایک دن عمر لوگوں کو کھانا کھلا رہے تھے کہ وہ شخص آیا، اس کے جسم پر کپڑے اور سر پر عمامہ تھا۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اسے کھانا کھلایا، (آپ رضی اللہ عنہ اسے پہچانتے نہیں تھے) وہ جب کھانا کھا چکا تو اس نے کہا: ’’اے امیر المؤمنین، اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان:

﴿وَٱلذَّ ٰ⁠رِیَـٰتِ ذَرۡوࣰا، فَٱلۡحَـٰمِلَـٰتِ وِقۡرࣰا﴾

’’قسم ہے بکھیرنے والی ہواؤں کی، جو بوجھ اٹھانے والی ہیں۔‘‘ (سورة الذاريات: ٢)

اس کا کیا مطلب ہے؟‘‘ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا: ’’کیا تم وہی ہو؟‘‘ پھر عمر رضی اللہ عنہ اس کی طرف بڑھے، آستینیں چڑھائیں، اور اسے اتنی مار ماری کہ اس کا عمامہ گر گیا۔ پھر فرمایا: ’’اسے اس کے شہر لے جاؤ اور وہاں اسے کھڑا کر کے اعلان کرو کہ صبیغ (اس شخص کا نام) نے علم حاصل کرنے کی کوشش کی، لیکن غلطی کی۔‘‘ پھر وہ شخص اپنے قبیلے میں وفات تک کمتر رہا، حالانکہ وہ اپنے قبیلے کا سردار تھا۔‘‘
(فضائل الصحابة لأحمد : ٧١٧ وسنده صحیح)

ایک روایت میں ہے، ابو عثمان نہدی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں : سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ہمیں خط لکھا: ’’صبیغ کے پاس ہرگز نہ بیٹھو، اگر ہم سو لوگ بیٹھے ہوتے اور وہ آتا تو ہم اس کے پاس نہ بیٹھتے اور منتشر ہوجاتے۔‘‘ (ذم الكلام وأهله للهروي : ٤/‏٢٤٤، تاريخ دمشق لابن عساكر : ٢٣/‏٤١٣)

✿۔ سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما :
سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں :

لَا تُجَالِسْ أَهْلَ الْأَهْوَاءِ، فَإِنَّ مُجَالَسَتَهُمْ مُمْرِضَةُ الْقُلُوبِ.

’’اہل اہواء (خواہشات پرست، اہلِ بدعت) کے ساتھ نہ بیٹھیں، ان کی مجالست دلوں کو بیمار کر دیتی ہے۔‘‘ (القدر للفريابي : ٤١٣ وسنده ضعیف، وذكرناه هنا للاستيناس)

✿۔ سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما :
یحیی بن یعمر رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں، میں نے سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کو جب تقدیر کے منکرین کے متعلق بتایا تو انہوں نے فرمایا :

«فَإِذَا لَقِيتَ أُولَئِكَ فَأَخْبِرْهُمْ أَنِّي بَرِيءٌ مِنْهُمْ، وَأَنَّهُمْ بُرَآءُ مِنِّي، وَالَّذِي يَحْلِفُ بِهِ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ لَوْ أَنَّ لِأَحَدِهِمْ مِثْلَ أُحُدٍ ذَهَبًا فَأَنْفَقَهُ، مَا قَبِلَ اللَّهُ مِنْهُ حَتَّى يُؤْمِنَ بِالْقَدَرِ».

’’جب آپ ان لوگوں سے ملیں تو انہیں بتا دینا کہ میں ان سے بری ہوں اور وہ مجھ سے بری ہیں۔ (یعنی میرا ان سے کوئی تعلق نہیں) اللہ کی قسم! اگر ان میں سے کسی کے پاس احد پہاڑ کے برابر سونا ہو اور وہ اسے خرچ کر دے، تو اللہ اسے اس وقت تک قبول نہیں کرے گا جب تک وہ تقدیر پر ایمان نہ لائے۔‘‘ (صحیح مسلم : ٨)

⇚۔ مجاہد رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ میں سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کے ساتھ تھا کہ ایک شخص نے ظہر یا عصر میں تثویب کہہ دی (یعنی الصلاة خير من النوم کہا) تو انہوں نے فرمایا :

«اخْرُجْ بِنَا، فَإِنَّ هَذِهِ بِدْعَةٌ».

’’مجھے اس مسجد سے باہر لے جاؤ، یہ تو بدعت ہے۔‘‘ (سنن أبي داود : ٥٣٨ حديث حسن)

یعنی سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے اُس مسجد میں نماز پڑھنے سے انکار کر دیا۔

⇚۔ نافع رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے پاس ایک شخص آیا اوراس نے کہا: فلاں شخص نے آپ کو سلام بھیجا ہے۔ تو عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا :

«إِنَّهُ بَلَغَنِي أَنَّهُ قَدْ أَحْدَثَ فَإِنْ كَانَ قَدْ أَحْدَثَ فَلَا تُقْرِئْهُ مِنِّي السَّلَامَ».

’’مجھے خبر ملی ہے کہ اس نے بدعت جاری کی ہے، اگر اس نے واقعی کوئی بدعت ایجاد کی ہے تو اسے میرا سلام ہرگز نہیں پہنچانا۔‘‘ (سنن الترمذي : ٢١٥٢، حدیث حسن)
معلوم ہوا کہ سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بدعتی کو سلام کا جواب دینا بھی گوارا نہیں کرتے تھے۔

فائدہ : عبد المالک میمونی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں:

قُلْتُ لِأَحْمَدَ بْنِ حَنْبَلٍ: يَا أَبَا عَبْدِ اللَّهِ، لَمَّا أُخْرِجَتْ جِنَازَةُ ابْنِ طَرَّاحٍ، جَعَلُوا الصِّبْيَانَ يَصِيحُونَ: اكْتُبْ إِلَى مَالِكٍ: قَدْ جَاءَ حَطَبُ النَّارِ. قَالَ: فَجَعَلَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ يُشِيْرُ وَجَعَلَ يَقُولُ: «يَصِيحُونَ، يَصِيحُونَ».

’’میں نے امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کو بتایا کہ جب ابن طراح بدعتی (جہمی) کا جنازہ نکالا گیا تو بچے آوازیں کسنے لگے: جہنم کے دروغے ’’مالک‘‘ سے کہو کہ جہنم کا ایندھن آ گیا ہے۔ بیان کرتے ہیں کہ امام احمد رحمہ اللہ یہ سن کر تائیدی اشارہ کرتے ہوئے فرمانے لگے : ’’لگائیں لگائیں، وہ آوازیں لگائیں۔‘‘(السنة للخلال : ١٧٦٨ وسنده صحیح)

… حافظ محمد طاھر حفظہ اللہ

یہ بھی پڑھیں: عبادت ونیکی میں منافسہ