سوال (1304)

عید نماز کے بعد ایک خطبہ ہے یا دو خطبے ہیں اور خطبہ کے بعد خطیب دعا کھڑا ہوکر یا بیٹھ کر کروائے گا؟

جواب

نماز عید کے بعد خطبہ میں اختلاف ہے کہ ایک ہے یا کہ دو،اور اس مسئلہ میں توسع ہے، ایک خطبہ دے دیا جائے یا دو، دونوں طرح درست ہوگا، صحیح بخاری کی حدیث 956 سے ایک خطبہ ثابت ہوتا ہے، اور بعض علماء کے نزدیک عید کا خطبہ جمعہ کے خطبہ کی طرح ہے، اس لیے ان کے نزدیک عید کے دو خطبے ہیں.

فضیلۃ العالم عبد الخالق سیف حفظہ اللہ

جو آپ نے کہا کہ بعضوں کے نزدیک دو خطبے ہوتے ہیں تو اس کی دلیل کیا ہے ؟

فضیلۃ العالم عبد اللہ عزام حفظہ اللہ

مسلمانوں کے ہاں ہمیشہ سے تواتر کے ساتھ عیدین کے دو خطبے ہی رائج ہیں، تمام علماء و فقہاء، شارحین علماء متفق ہیں ۔ ایک خطبے کی طرف سب سے پہلے امیر صنعانی (١١٨٢هـ) کے ہاں ذکر ملتا ہے، پھر اس کے بعد اکا دکا علماء نے اسے اپنا لیا اور اب چونکہ علماء کی ایک معتد بہ تعداد کا اس پر فتوی ہے، اس لیے گنجائش رکھی جا سکتی ہے وگرنہ اصلا دو خطبے ہی ہیں، یاد رہے کہ صحیح بخاری کی حدیث میں ایسی کوئی واضح دلالت نہیں، وگرنہ امت پر ہزار سال یہ مخفی نہ رہتی۔ واللہ أعلم. دوسرا دعا کے متعلق وسعت ہے، کھڑے ہو کر یا بیٹھ کر جیسے آسانی ہو۔

فضیلۃ الباحث حافظ محمد طاہر حفظہ اللہ

1: دو خطبوں کے حوالے سے جتنی بھی روایات وارد ہیں وہ ثابت نہیں ہیں۔
2: عام فقہاء نے انہیں احادیث پر فتویٰ دیا ہے
3: بعض علماء امت نے اجماع کا دعویٰ کیا ہے جیسے ابن المنذر
وقال ابن حزم : لیس فیہ خلاف
4: بعض فقہاء نے جمعہ پر قیاس کیا ہے۔
5 :بہرحال عام فقہاء کا اسی پر عمل ہے۔ بعض علماء اس میں وسعت کے قائل ہیں معاصرین میں ابن العثیمین رحمہ اللہ کا اسی پر فتویٰ ہے فرماتے ہیں اصل ایک خطبہ ہے اگر کوئی دو خطبے دے تو حرج نہیں عام فقہاء کا اسی پر فتویٰ ہونے کی وجہ سے۔
دلیل ایک خطبہ کی یہ دیتے ہیں کہ نبی علیہ السلام نہیں خطبہ دیتے تھے مگر ایک ہی۔
“صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے عمل و فتاوی میں بھی اسکی کوئی صراحت نہیں ملی۔”
اس باب میں وارد احادیث اور آثار (اقوال و اعمال صحابہ) کے ظاہر سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ ایک ہی خطبہ ارشاد کرتے۔ واللہ اعلم

فضیلۃ الباحث اسامہ شوکت حفظہ اللہ

اس حوالے سے یہاں کچھ مضامین ذکر کیے جاتے ہیں ۔
خطبہ عید: ایک یا دو
حافظ علیم الدین یوسف
جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ۔
خطبہ عید کی تعداد کا مسئلہ ان دنوں زور پکڑنے لگا ہے، برصغیر کے اہل حدیث علما عیدین میں ایک خطبہ کے قائل ہیں جبکہ فقہا کے یہاں معمول بہ دو خطبہ ہے۔
بعض اہل حدیث طلبہ نے مسئلے میں اجماع نقل کرتے ہوئے اہل حدیث علما کو اس مخالف گردانا ہے، لہذا اس مسئلے کی توضیح امر لازم ہو گئی ہے۔
مندرجہ بالا سطور سے یہ بات تو ثابت ہو گئی کہ بروقت مسئلہ میں دو اقوال ہیں، راجح قول مندرجہ ذیل ہے:
عیدین کے خطبہ کی تعداد ایک ہے۔ اس قول کے قائل برصغیر کے اہل حدیث علما ہیں۔ اسی کی ترجیح علامہ البانی، ابن عثيمين، مقبل بن ہادی الوادعی رحمہم اللہ نے بھی کی ہے، جبکہ ابن باز رحمہ اللہ نے ایک خطبہ پر رکتفا کرنے والوں پر کسی قسم کی کوئی نکیر نہیں فرمائی۔
https://binbaz.org.sa/fatwas/31490/%D9%87%D9%84-%D8%A7%D9%84%D9%85%D8%B4%D8%B1%D9%88%D8%B9-%D9%81%D9%8A-%D8%A7%D9%84%D8%B9%D9%8A%D8%AF-%D8%AE%D8%B7%D8%A8%D8%A9-%D8%A7%D9%85-%D8%AE%D8%B7%D8%A8%D8%AA%D8%A7%D9%86
دلائل:
پہلی دلیل: ایک خطبہ کے قائلین ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کی حدیث سے استدلال کرتے ہیں جس کے الفاظ ہیں:

كانَ رَسولُ اللَّهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ يَخْرُجُ يَومَ الفِطْرِ والأضْحَى إلى المُصَلَّى، فأوَّلُ شَيءٍ يَبْدَأُ به الصَّلَاةُ، ثُمَّ يَنْصَرِفُ، فَيَقُومُ مُقَابِلَ النَّاسِ، والنَّاسُ جُلُوسٌ علَى صُفُوفِهِمْ، فَيَعِظُهُمْ، ويُوصِيهِمْ، ويَأْمُرُهُمْ، فإنْ كانَ يُرِيدُ أنْ يَقْطَعَ بَعْثًا قَطَعَهُ، أوْ يَأْمُرَ بشيءٍ أمَرَ به، ثُمَّ يَنْصَرِفُ.

وجہ استدلال: صحابی رسول نے نبی اکرم ﷺ کے صرف ایکبار قیام کا ذکر کیا، پھر خطبہ کی تکمیل کے بعد انصراف کا تذکرہ ہے، درمیان میں کسی جلوس اور قیام ثانی کا ذکر نہیں ہے، یہ اس بات کی دلیل ہے کہ آپ ﷺ نے صرف ایک خطبہ دیا ہے۔
اس استدلال پر اعتراض کرتے ہوئے فریق ثانی کہتے ہیں کہ: اس حدیث میں ایک خطبہ کی صراحت نہیں آئی ہے۔
جواب: صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین نے عموماً تمام امور شرعیہ میں اور خصوصاً عیدین کے مسائل میں معمولی باتوں کا بھی ذکر کیا ہے، جیسے کہ آپ نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ کے کاندھے پر ٹیک لگا کر خطبہ دیا، لوگوں کے بیٹھے ہوئے ہونے کا ذکر کیا، کیا وہ نبی اکرم ﷺ سے کے قعود اور قیام ثانی کا تذکرہ ترک کر دیں گے؟
اور اگر بالفرض مان لیا جائے کہ ایک صحابی نے ترک کر دیا تو کیا متصور ہے کہ تمام صحابہ کرام اس امر شرعی کے بیان سے خاموش رہ جائیں؟
لہذا قعود اور دوسرے قیام کا عدم ذکر اس کے عدم وجود کو مستلزم ہے۔
جہاں تک یہ اعتراض ہے کہ ایک خطبہ کی صراحت موجود نہیں ہے بلکہ حدیث محتمل ہے تو اس کا جواب کئی ایک طریقے سے ممکن ہے:
1۔ امام نووی رحمہ اللہ عیدین کے دو خطبوں کے متعلق فرماتے ہیں: “لم يثبت في تكرير الخطبة شيء”. عید کے دو خطبوں کے متعلق کوئی ثابت شدہ حدیث موجود نہیں ہے۔
امام نووی رحمہ اللہ کے اس کلام سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اصل ایک خطبہ ہے، ایک سے زائد کے لئے ثبوت کا ہونا لازم ہے۔
اگر یہ حدیث تعداد کے سلسلے میں محتمل ہوتی تو احتمالا ہی سہی کسی نہ کسی عالم نے اس سے دو خطبوں پر استدلال کیا ہوتا۔
2۔ امام ابن باز، علامہ البانی، علامہ ابن عثيمين اور علامہ مقبل ابن ہادی الوادعی رحمہم اللہ نے مذکورہ بالا حدیث کو ایک خطبہ کے ثبوت میں صریح مانا ہے۔
دوسری دلیل: ان احادیث سے استدلال جن میں سوار ہو کر خطبہ دینے کا ذکر ہے۔
وجہ استدلال: سواری پر خطبہ دینا اس امر کو مستلزم ہے کہ خطبہ کی تعداد ایک تھی۔
یہی عمل خلفاے راشدین میں سے حضرت عثمان اور حضرت علی رضی اللہ عنہما سے بھی ثابت ہے۔

عن إبراهيم النَّخَعيِّ: كَانَ الإِمَامُ يَوْمَ العِيدِ يَبْدَأُ فَيُصَلِّي ثُمَّ يَرْكَبُ فَيَخْطُبُ»، ابنُ أبي شيبة في «المصنَّف» (٥٨٦٢).

ابراہیم نخعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ: عید کے دن امام نماز عید سے ابتدا کرتے تھے پھر سوار ہو کر خطبہ دیتے تھے۔

وعن مَيْسرةَ أبي جميلة قال: «شَهِدْتُ مَعَ عَلِيٍّ العِيدَ، فَلَمَّا صَلَّى خَطَبَ عَلَى رَاحِلَتِهِ»، قَالَ: «وَكَانَ عُثْمَانُ يَفْعَلُهُ» ) ابنُ أبي شيبة في «المصنَّف» (٥٨٥٥)

میسرہ ابو جمیلہ فرماتے ہیں: میں نے نماز عید حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ ادا کی، آپ نے عید کی نماز مکمل کرنے کے بعد اپنی سواری پر خطبہ دیا۔ مزید فرماتے ہیں: حضرت عثمان رضی اللہ عنہ بھی اسی طرح کرتے تھے۔
مذکورہ دونوں آثار سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ خلفاے راشدین کے دور میں ایک خطبہ ہی معمول بہ تھا، نیز یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ اس امر میں کوئی اختلاف نہیں تھا، کیوں کہ ہمیں عہد صحابہ میں خلفا کے اس عمل پر نکیر کئے جانے کی کوئی دلیل نہیں ملتی۔
خلفاے راشدین سے ایک خطبہ کے ثبوت کے لئے بطور شاہد اس اثر کو بھی دلیل بنایا جا سکتا ہے جو عطا رحمہ اللہ سے مروی ہے، فرماتے ہیں:

عن ابن جريج قال : قلت لعطاء : متى كان من مضى يخرج أحدهم من بيته يوم الفطر للصلاة ؟ فقال : ” كانوا يخرجون حتى يمتد الضحى فيصلون ، ثم يخطبون قليلا سويعة ” ، يقلل خطبتهم ؟ قال : ” لا يحبسون الناس شيئا ” قال : ثم ينزلون فيخرج الناس ؟ قال: «مَا جَلَسَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى مِنْبَرٍ حَتَّى مَاتَ، مَا كَانَ يَخْطُبُ إِلَّا قَائِمًا، فَكَيْفَ يُخْشَى أَنْ يَحْبِسُوا النَّاسَ؟ وَإِنَّمَا كَانُوا يَخْطُبُونَ قِيَامًا لَا يَجْلِسُونَ، إِنَّمَا كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ وَعُثْمَانُ يَرْتَقِي أَحَدُهُمْ عَلَى المِنْبَرِ فَيَقُومُ كَمَا هُوَ قَائِمًا، لَا يَجْلِسُ عَلَى المِنْبَرِ حَتَّى يَرْتَقِيَ عَلَيْهِ، وَلَا يَجْلِسُ عَلَيْهِ بَعْدَمَا يَنْزِلُ، وَإِنَّمَا خُطْبَتُهُ جَمِيعًا وَهُوَ قَائِمٌ، إِنَّمَا كَانُوا يَتَشَهَّدُونَ مَرَّةً وَاحِدَةً، الأُولَى»، قَالَ: «لَمْ يَكُنْ مِنْبَرٌ إِلَّا مِنْبَرُ النَّبِيِّ صلَّى الله عليه وسلَّم حَتَّى جَاءَ مُعَاوِيَةُ حِينَ حَجَّ بِالمِنْبَرِ فَتَرَكَهُ»، قال: «فَلَا يَزَالُونَ يَخْطُبُونَ عَلَى المَنَابِرِ بَعْدُ». (مصنف عبد الرزاق:)۔

وجہ استدلال: عطا رحمہ اللہ نے صراحت کے ساتھ یہ ذکر کیا ہے کہ ان کے ان سے قبل زمانے میں خطبہ عید کی تعداد ایک ہی تھی، جیسا کہ ان کے قول: “إِنَّمَا كَانُوا يَتَشَهَّدُونَ مَرَّةً وَاحِدَةً” سے ظاہر ہوتا ہے، نیز دو بار قعود کی نفی کرنا بھی زمانہ سلف میں ایک خطبہ کے رائج ہونے کی دلیل ہے۔
اگر کوئی یہ اعتراض کرے کہ یہ اثر مرسل ہے تو اسے یہ جواب دیا جائے گا کہ امام عطا نے اپنے زمانے سے لے کر ما قبل کے ادوار میں سلف کا عمل نقل کیا ہے، لہذا علی الاقل یہ امر تو قطعی طور پر ثابت ہوگا کہ ان کے زمانے میں ایک ہی خطبہ پر عمل ہوتا تھا، نیز انہوں نے اپنے سے پہلے کے لوگوں کے تعلق سے بھی یہی سنا تھا اور یہ تواتر عملی نقل کرنا ہے۔
سطور بالا میں ذکر کئے گئے آثار صحابہ سے اور امام عطا کے قول سے یہ بھی ثابت ہوا کہ عہد صحابہ میں ایک ہی خطبہ کا ثبوت ملتا ہے، اور سلف کا اسی پر عمل بھی تھا، لہذا اس کے بعد کسی اور کے عمل سے دلیل طلب کرنا لا یعنی بات ہے۔
امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

وَإِنْ خَطَبَ فِي غَيْرِ يَوْمِ الْجُمُعَةِ خُطْبَةً وَاحِدَةً، وَتَرَكَ الْخُطْبَةَ أَوْ شَيْئًا مِمَّا أَمَرْتُهُ بِهِ فِيهَا فَلَا إعَادَةَ عَلَيْهِ، وَقَدْ أَسَاءَ.
الأم للشافعي – المجلد: 1 – الصفحة: 273 –

اگر جمعہ کے علاوہ دوسرے مواقع پر صرف ایک خطبہ پر اکتفا کیا اور خطبہ یا بیان کردہ دیگر امور میں سے کچھ ترک کر دیا تو اعادہ لازم نہیں آئے گا البتہ اس نے نامناسب کام کیا۔
واضح ہو کہ امام شافعی رحمہ اللہ نے ایک خطبہ پر اکتفا کرنے والوں پر بدعت کا حکم نہیں لگایا ہے۔
شیخ مختار شنقیطی حفظہ اللہ سے جب یہ سوال کیا گیا کہ کیا نبی اکرم ﷺ سے عید کا ایک خطبہ ثابت ہے؟
انہوں نے جواب دیتے ہوئے فرمایا:

حكي عن بعض السلف رحمة الله عليهم أنه يقول بهذا القول. شرح زاد المستقنع للشنقيطي (74/ 19، بترقيم الشاملة آليا)

بعض سلف رحمہم اللہ سے یہ قول منقول ہے۔
مزعومہ اجماع کی حقیقت:
فریق ثانی نے ابن حزم رحمہ اللہ کے قول “لا خلاف فيه” سے استدلال کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ دو خطبوں پر اجماع ہے۔
جواب:
1۔ تعجب کی بات ہے کہ جس اجماع سے آج بعض علما دلیل لے رہے ہیں اس سے آج سے قبل 1 ہزار سالوں میں کسی نے بھی دلیل نہیں لی ہے۔ مذاہبِ اربعہ ودیگر علما کے کتابیں پڑھ جائیں، سواے جمعہ پر قیاس یا ضعیف روایت سے استدلال کے کسی نے بھی اجماع کو دلیل نہیں بنایا ہے، جبکہ فقہا کے یہاں اور بالخصوص متاخرین کے یہاں اجماع بیان کرنے اور اس سے استدلال میں تساہل پایا جاتا ہے، مزید یہ کہ امام نووی رحمہ اللہ جو کہ غیر ثابت شدہ اجماعات نقل کرنے میں معروف ہیں انہوں نے بھی اس اجماع کو دلیل نہیں بنایا ہے۔
یہ تمام امور اس پر دلالت کرتے ہیں کہ سلف کے نزدیک یہ اجماع ثابت نہیں ہیں، ورنہ ائمہ سلف میں سے کسی ایک نے اس اجماع سے دلیل ضرور اخذ کیا ہوتی۔
2۔ امام ابن حزم رحمہ اللہ کی جانب جس اجماع کی نسبت کی جا رہی ہے وہ قول انہوں نے اپنی کتاب “المحلی” میں ذکر کیا ہے، اور امام ابن حزم رحمہ اللہ صرف اسی اجماع کو اجماع مانتے ہیں جسے انہوں نے اپنی کتاب “مراتب الإجماع” میں ذکر کیا ہے، چنانچہ اس کتاب کی تالیف کا مقصد انہوں نے یہ بتایا ہے کہ وہ مسائل جن میں اجماع ثابت ہے انہیں ایک جگہ جمع کیا جائے، اور مختلف فیہ مسائل سے انہیں الگ کیا جائے، فرماتے ہیں: وإنا أملنا بعون الله عز وجل، أن نجمع المسائل التي صح فيها الإجماع ونفردها من المسائل التي وقع فيها الخلاف بين العلماء. (مراتب الاجماع: ٢٣).
لہذا ابن حزم رحمہ اللہ کے فرمان کے مطابق “مراتب الاجماع” کے علاوہ ان کی دوسری کتابیں مختلف فیہ مسائل کے ذکر کے لئے مخصوص ہیں، نیز وہ اجماع جو “مراتب الاجماع” میں مذکور نہیں وہ ان نزدیک اجماعی مسئلہ نہیں ہے۔
3۔ اجماع کی جس صورت کو امام ابن حزم رحمہ اللہ حجت مانتے ہیں اور جو شرائط اس کے لئے متعین فرمائے ہیں اس پر مذکورہ مسئلہ کی اجماعی حیثیت مسلم نہیں رہتی۔
فرماتے ہیں:

“وصفة الإجماع: هو ما تيقن أنه لا خلاف فيه بين أحد من علماء الإسلام، ونعلم ذلك من حيث علمنا الأخبار التي لا يتخالج فيها شك”. (مراتب الاجماع: 28).

اجماع اسے کہتے کہ: جس مسئلے کے سلسلے میں علماے اسلام کے درمیان عدم اختلاف کا علم یقینی ہو جائے، اور ہمیں اس کے ثبوت کا ویسا ہی علم ہو جائے جیسا کہ ان خبروں کے تعلق سے علم یقینی ہوتا ہے جن میں ادنیٰ شک کا بھی احتمال نہ ہو۔
نیز اپنی کتاب “مراتب الاجماع” کے تعلق سے فرماتے ہیں:

“وإنما ندخل في هذا الكتاب, الإجماع التام الذي لا مخالف فيه البتة، الذي يعلم كما يعلم أن صلاة الصبح في الأمن والخوف ركعتان”. (مراتب الاجماع: ٣٣).

میں اپنی اس کتاب میں اسی اجماع کو جگہ دوں گا جس کا کوئی بھی مخالف قطعی اور یقینی طور پر نہیں ہوگا، جس کا علم یقینی اسی طرح سے حاصل ہو جیسا کہ اس بابت علم یقین ہے کہ نماز فجر، حالت امن اور حالت حرب دونوں میں دو رکعت ہی ادا کی جائے گی”۔
امام ابن حزم رحمہ اللہ کے مذکورہ بالا منقولات اس امر کی قطعی دلیل ہیں کہ جس اجماع کو فریق ثانی نے دلیل بنانے کی کوشش کی ہے وہ خود ابن حزم رحمہ اللہ کے نزدیک اجماعی مسئلہ نہیں ہے۔
4۔ امام ابن باز، امام البانی، امام ابن عثيمين، علامہ مقبل ابن ہادی الوداعی رحمہم اللہ نے اس مسئلے میں کوئی اجماع نقل نہیں کیا، بلکہ جمہور، اکثر، فقہا جیسے الفاظ استعمال کئے ہیں، یہ اس بات کی دلیل کہ معاصرین میں سے کبار علما اس اجماع کو ثابت نہیں مانتے ہیں۔
جس اجماع کو خود صاحب کتاب اجماع نہ مانتے ہوں، جس اجماع سے 1 ہزار سالوں میں کسی نے دلیل نہ لی ہو، وہ اجماع آج کے لوگوں کے نزدیک اجماع قطعی بن گیا۔ یا للعجب۔
5۔ عطا رحمہ اللہ کے اثر سے کم از کم یہ ثابت ضرور ہوتا ہے کہ انہوں نے ایک بار خطبہ کے متعلق اپنے اسلاف سے سنا تھا، نیز یہی امام عطا رحمہ اللہ کا بھی قول تھا۔ اور اس ایک قول کا بھی پایا جانا اس مزعومہ اجماع کے ابطال کے لئے کافی ہے۔
6۔ اصول فقہ کا مبتدی طالب علم بھی اس بات سے قطعی طور پر واقف ہوتا ہے کہ اجماع اگر “لا أعلم فيه خلافا” یا “لا خلاف فيه” جیسے الفاظ اجماع کے ثبوت کے لئے ناکافی ہیں، اور اس پر نکیر وہی شخص کر سکتا جسے اصول فقہ کی ابجد کا علم نہ ہو، کیوں کہ جس طرح اجماع کے ثبوت کے لئے شرائط مقرر ہیں اسی طرح معتبر اجماع کے نقل کے لئے چند صیغے ہیں، جن میں اجماع اور اتفاق کا لفظ ہی معتبر ہے، باقی الفاظ اجماع کے ثبوت کے لئے ناکافی ہیں، لہذا اس قسم کے اجماع کو نص پر مقدم کرنا بالاتفاق جائز نہیں ہے۔ (اجماع کو نص پر مقدم کرنے کی بات بعض اصولیوں نے کی ہے، اس موضوع پر کبھی تفصیل سے لکھا جائے گا، ان شاء اللہ)۔
علامہ شنقیطی رحمہ اللہ اجماع کے تعلق سے فرماتے ہیں:

“مرادهم بالاجماع الذي يقدم على النص خصوص الاجماع القطعي دون الاجماع الظني، وضابط الاجماع القطعي هو الاجماع القولي، لا
السكوتي، بشرط أن يكون مشاهدا أو منقولا بعدد التواتر في جميع طبقات السند”.

وہ اجماع جسے نص پر مقدم کیا جائے گا اس سے ان (بعض اصولیوں) کی مراد اجماع قولی ہے، اجماع سکوتی نہیں، اور اس اجماع قولی کی بھی شرط یہ ہے کہ اجماع جس سند سے منقول ہو اس کے تمام طبقات کے راوی حد تواتر کو پہنچے ہوئے ہوں۔ مذكرة في أصول الفقه (ص: 304)۔
امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ سے بھی اس کے مشابہ قول منقول ہے۔ (مجموع الفتاوی: 19/267-268)۔
شیخ عبد الکریم الخضیر حفظہ اللہ اجماع کے الفاظ کے تعلق سے گفتگو کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

“أما نفي الخلاف فلا يلزم منه الاستقراء والاستقصاء لا سيما إذا أضاف ذلك إلى علمه”.

https://shkhudheir.com/fatawa/1955711974
جہاں تک بات ہے اس لفظ کے ذریعہ اجماع ذکر کرنے کی کہ: “اس مسئلے میں اختلاف نہیں پایا جاتا” تو اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ قائل نے تمام اقوال کا استقرا اور استقصا کر لیا ہے، بالخصوص اس وقت جب یہ کہا جائے کہ مجھے اس مسئلے میں اختلاف کا علم نہیں ہے۔
خلاصہ کلام یہ کہ: مذکوہ مسئلہ میں اجماع کا دعویٰ بے بنیاد ہے، علماے مذاہب اربعہ میں سے ابن حزم رحمہ اللہ سے ماقبل نہ کسی عالم نے اجماع ذکر کیا ہے اور نہ ہی ان کے بعد ہزار سال تک کسی عالم نے اس اجماع کو ثابت مانا ہے، جس کی وجہ یقینی طور سے یہی ہے کہ یہ ایک غیر ثابت شدہ اجماع ہے، جس کا دعویٰ بعض علما زور وشور سے کر رہے ہیں۔
حیرت ہوتی ہے ان طالب علموں پر جو اہل حدیث ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں اور ایک غیر ثابت شدہ شے سے نص صریح کو ٹھکراتے ہیں۔
رہا یہ مسئلہ کہ سلف میں سے اس رائے کے قائلین کا ذکر کسی کتاب میں نہیں ملتا تو اس کا جواب یہ ہے کہ حدیث پر عمل کرنے کے لئے یہ لازم نہیں ہے کہ سلف میں سے کسی نے اس کے بموجب عمل بھی کیا ہو، بلکہ حدیث فی نفسہ حجت ہے، کسی کے عمل کا ہونا اور نہ ہونا اس کی حجیت کو مشکوک نہیں بنا سکتا۔ (اس موضوع کو بالتفصیل جاننے کے لئے میرا مضمون:

“إياك أن تتكلم في مسألة ليس لك فيها إمام”

کا درست معنی ومفہوم،ملاحظہ فرمائیں)۔
جہاں تک تواتر عملی کا مسئلہ ہے تو در حقیقت یہ مغالطہ آرائی کی کوشش ہے، اس طرح کے الفاظ اگر مقلدین استعمال کرے تو ہم اسے کوسنے لگ جاتے ہیں اور آج ایک ایسے مسئلہ کو ثابت کرنے کے لئے جو کہ حدیث کے مخالف ہے، اسی تواتر عملی سے مغالطہ دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔
تواتر عملی کیا ہے؟
امام سیوطی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

التواتر العملي: وهو ما علم من الدين بالضرورة، وتواتر عند المسلمين أن النبي ﷺ فعله أو أمر به أو غير ذلك. وهو الذي ينطبق عليه تعريف الإجماع انطباقا صحيحا، مثل مواقيت الصلاة وعدد ركعاتها، وصلاة الجنازة، والعيدين وحجاب النساء من غير ذي محرم لها ومقادير زكاة المال إلى ما لا يعد ولا يحصى من شرائع الإسلام. (ألفية السيوطي في علم الحديث: 26).

تواتر عملی: دین کا وہ جس سے ہر شخص یقینی طور سے واقف ہو اور مسلمانوں کے نزدیک تواتر کے ساتھ یہ ثابت ہو گیا ہو کہ نبی اکرم ﷺ نے اس پر عمل کیا ہے یا اس کا حکم دیا ہے، یہی وہ شے ہے جو مکمل طور سے اجماع کی تعریف کے موافق ہے۔ جیسے اوقات نماز کا علم، رکعات کی تعداد کا علم، نماز جنازہ اور نماز عیدین کا علم، غیر محرم سے عورتوں کے پردے کا علم اور زکوٰۃ کی مقدار کا علم۔
اس تعریف سے یہ ثابت ہوا کہ وہ تواتر عملی جس کی حجیت تسلیم کی جاتی ہے وہ اجماع کی ہی صورت ہے، اجماع سے الگ ہٹ کر تواتر عملی کی کوئی صورت نہیں جو حجت اور معتد بہ ہو۔
آخری بات: نیز دو خطبہ اور ان کے درمیان بیٹھنے کو دیگر مذاہب والے اس لئے جائز کہتے ہیں کیوں کہ ان کے نزدیک عید گاہ میں منبر لے جانا یا منبر بنانا جائز ہے، جبکہ عید گاہ میں منبر لے جانے کی ابتدا مروان نے کی تھی، جس پر علما نے بدعت کا فتویٰ لگایا ہے، اور اسی وجہ سے علماے اہل حدیث منبر پر عید کا خطبہ بدعت گردانتے ہیں، لہذا جب منبر لے جانا بدعت ہوا تو بیٹھنے اور دو خطبے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
عيدين کے دو خطبے پر اجماع کی حقیقت
ابو احمد کلیم الدین یوسف حفظہ اللہ
جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ
بعض احباب عیدین میں دو خطبہ کی مشروعیت پر اجماع نقل کرتے ہیں، اور بر صغیر کے اہل حدیثوں کے ایک خطبہ پر عمل کو غلط گردانتے ہیں، سوشل میڈیا اور دیگر پلیٹ فارم پر اس سلسلے میں کافی بحث دیکھنے کو ملی، تمام بحث و مناقشہ اور علمی نکات کو ایک پہلو میں رکھ کر اس اجماع کی حقیقت پر گفتگو کی جائے جسے عیدین میں دو خطبے کے جواز کے قائلین نقل کرتے ہیں.
پہلی بات: عیدین کے دو خطبوں پر دو اہل علم سے اجماع نقل کیا جاتا ہے، ایک علامہ ابن حزم اور دوسرے امام ابن قدامہ کا رحمہما اللہ جمیعا..
باوجود تلاش بسیار مذکورہ دونوں اہل علم کے علاوہ مجھے کسی تیسرے اہل علم کا کلام اس اجماع کے سلسلے میں نہیں ملا..
سب سے پہلے ہم امام ابن قدامہ رحمہ اللہ کے نقل کردہ اجماع کے بارے میں بات کریں گے:
دوسری بات: ابن قدامہ رحمہ اللہ کے کلام کو متعدد مرتبہ پڑھنے، اس میں غور و فکر اور تامل کرنے، اور بعض ماہرین سے دریافت کرنے کے بعد بھی مجھے عیدین کے دو خطبہ پر اجماع کا کلام نہیں ملا.
تیسری بات: سب سے پہلے آپ ابن قدامہ رحمہ اللہ کی عبارت ملاحظہ فرمائیں:

وجُمْلَتُه أنَّ خُطْبَتَىِ العِيدَيْنِ بعد الصلاةِ، لا نَعْلَمُ فيه خِلافًا بين المُسْلِمِينَ، إلَّا عن بَنِى أُمَيَّةَ. وَرُوِىَ عن عثْمَانَ، وابنِ الزُّبَيْرِ، أنَّهما فَعَلَاهُ، ولم يَصِحَّ ذلك عنهما، ولا يُعْتَدُّ بِخِلَافِ بَنِى أُمَيَّةَ؛ لأنَّه مَسْبُوقٌ بالإِجْماعِ الذي كان قبلَهم، ومُخَالِفٌ لِسُنَّةِ رسولِ اللهِ ﷺ الصَّحِيحَة، وقد أُنْكِرَ عليهم فِعْلُهمْ، وَعُدَّ بِدْعَةً ومُخَالِفًا لِلسُّنَّةِ، فإنَّ ابنَ عمرَ قال: إنَّ النَّبِىَّ ﷺ وأَبَا بكرٍ، وعمرَ، وعثمانَ، كانوا يُصَلُّونَ العِيدَيْنِ قبلَ الخُطْبَةِ.

خلاصہ کلام یہ کہ عیدین کی نماز کے بعد دو خطبے کا اہتمام کیا جائے گا، اس سلسلے میں مسلمانوں کے مابین ہمیں کسی اختلاف کا علم نہیں ہے سوائے بنی امیہ، اور عثمان و عبد اللہ بن الزبیر رضی اللہ عنہما کے، مذکورہ دونوں صحابی سے مروی ہے کہ وہ دونوں (عیدین کی نماز سے قبل خطبہ دیتے تھے) لیکن ان سے یہ ثابت نہیں ہے، اور بنو امیہ کے اختلاف کی کوئی وقعت نہیں، کیوں کہ اس سے پہلے ہی اس مسئلہ (عید کی نماز کے بعد خطبہ دینے) پر اجماع واقع ہو چکا ہے، نیز یہ سنتِ رسول کے مخالف ہے، (اور بعض لوگوں نے نماز عیدین سے قبل خطبہ دینے پر) نکیر کی، اسے بدعت اور سنت کے مخالف قرار دیا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم، ابو بکر و عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم اجمعین خطبہ سے قبل ہی نماز عیدین ادا کیا کرتے تھے..
چوتھی بات: ابن قدامہ رحمہ اللہ کی مذکورہ عبارت سے بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ انہوں نے عیدین کے دو خطبہ پر اجماع نقل نہیں کیا، بلکہ خطبہ سے قبل نماز پڑھنے پر اجماع نقل کیا ہے، یہی وجہ ہے کہ بنو امیہ کے اختلاف پر رد کیا ہے، یعنی مروان بن عبد الملک رحمہ اللہ نے عید کی نماز سے قبل خطبہ دینے کا آغاز کیا تھا، اور ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے اس پر نکیر کی تھی…
اگر یہ اجماع عیدین کی دو خطبہ پر ہوتا تو:
ا- بنو امیہ کے اختلاف کو ذکر کرنے کی ضرورت نہیں تھی.
ب- ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کے نکیر کو ذکر کرنے کی بھی ضرورت نہیں تھی.
ج- عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث بھی ذکر کرنے کی ضرورت نہیں تھی…
کیوں کہ یہ تمام امور نماز سے قبل اور بعد میں خطبے سے متعلق ہیں نہ کہ عیدین کے دو خطبے کے متعلق.
معلوم یہ ہوا کہ ابن قدامہ رحمہ اللہ نے عیدین کے دو خطبہ پر اجماع نقل ہی نہیں کیا ہے، لیکن تعجب تو اس مزعومہ اجماع سے استدلال کرنے والوں پر ہوتا ہے کہ انہوں نے تقلیدا اس اجماع کو مانا ہے یا تحقیقا؟
اب ابن حزم رحمہ اللہ کے نقل کردہ اجماع کی طرف آتے ہیں:
سب سے پہلی بات: جن مؤلفات میں مجمع علیہ یا متفق علیہ مسائل کو ذکر کرنے کا اہتمام کیا گیا ہے، جیسے: مراتب الاجماع لابن حزم، الإجماع لابن المنذر، الإقناع فی مسائل الإجماع لابن القطان وغیرہ، ان میں اس اجماع کا سرے سے ذکر ہی نہیں ہے، یعنی متاخرین کے زمانے تک سوائے ابن حزم رحمہ اللہ کے کسی اور نے اس مسئلہ پر اجماع نقل نہیں کیا.
دوسری بات: ابن حزم رحمہ اللہ نے عیدین کے دو خطبوں پر صراحت کے ساتھ اجماع نقل نہیں کیا ہے، بلکہ ان کی عبارت میں احتمال ہے، ابن حزم رحمہ اللہ کا کلام پیش خدمت ہے:
“عیدین کی سنت یہ ہے کہ: گاؤں یا شہر والے کھلے میدان میں سورج طلوع ہونے کے بعد نماز ادا کریں، امام صاحب بغیر اذان و اقامت کے دو رکعت عید کی نماز پڑھائیں، بلند آواز سے قراءت کریں، پہلی رکعت میں سورہ فاتحہ کے ساتھ سورہ ق اور دوسری میں سورہ فاتحہ کے ساتھ سورہ قمر پڑھنا یا پہلی رکعت میں سورہ اعلی اور دوسری میں سورہ غاشیہ پڑھنا مستحب ہے، اگر قرآن کی دوسری سورتیں بھی پڑھی جائیں تو کافی ہوگا، پہلی رکعت میں تکبیر تحریمہ کے بعد اور سورہ فاتحہ سے قبل سات تکبیریں با آواز بلند کہی جائیں، اور دوسری رکعت میں سورہ فاتحہ سے قبل پانچ تکبیریں با آواز بلند کہی جائیں، زائد تکبیروں میں رفع الیدین نہیں کیا جائے، صرف انہیں مقامات پر رفع الیدین کیا جائے جہاں پر عام نمازوں میں کرتے ہیں، سورہ فاتحہ اور دوسری سورت پڑھنے کے بعد صرف رکوع کیلئے تکبیر کہے، پھر امام سلام پھیرنے کے بعد کھڑا ہو کر دو خطبے دے، اور دونوں خطبے کے درمیان بیٹھے، اور جب دونوں خطبہ ختم ہو جائے تو لوگ چلے جائیں، اگر عید کی نماز سے قبل خطبہ دے تو اسے خطبہ نہیں کہا جائے گا، اور عیدین کے خطبہ میں چپ رہنا واجب نہیں ہے…
مذکورہ باتیں ذکر کرنے کے بعد ابن حزم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

كُلُّ هَذَا لَا خِلَافَ فِيهِ إلَّا فِي مَوَاضِعَ نَذْكُرُهَا إنْ شَاءَ اللَّهُ تَعَالَى.

مذکورہ تمام مسائل میں کوئی اختلاف نہیں سوائے چند مسائل کے جن کا ہم ذکر کریں گے..
ابن حزم رحمہ اللہ نے اس قول کے بعد مذکورہ بالا مسائل میں سے چند اختلافی مسائل کو ذکر کیا ہے، لیکن ان اختلافی مسائل میں عیدین کے دو خطبے اور تکبیرات زوائد میں عدم رفع الیدین کو ذکر نہیں کیا ہے، تو کیا یہ کہا جا سکتا ہے کہ جس طرح ابن حزم رحمہ اللہ کے قول سے عیدین کے دو خطبہ کے اجماع پر استدلال کیا جاتا ہے اسی طرح تکبیرات زوائد میں عدم رفع الیدین کے اجماع پر بھی استدلال کیا جائے گا؟
کیوں کہ مذکورہ دونوں مسئلہ میں ابن حزم رحمہ اللہ نے کسی اختلاف کا ذکر نہیں کیا ہے!!!
اگر ہاں تو کس دلیل کی بنیاد پر اور اگر نہیں تو کس وجہ سے؟
تیسری بات: ابن حزم رحمہ اللہ نے اختلاف کے عدم وجود کی جانب اشارہ کرنے کیلئے جو جملہ استعمال کیا ہے وہ “لا خلاف فیہ” ہے، اور یہ نفی خلاف کو ذکر کرنے میں سب سے نچلے درجہ کی اور سب سے کمزور ترین عبارت ہے..
ا- اجماع کا ذکر لفظ اجماع یا اس کے مشتقات سے کرنا پہلے درجہ میں ہے، اس درجہ میں بھی مراتب ہیں.
ب- اجماع کا ذکر لفظ اتفاق سے کرنا دوسرے درجہ میں آتا ہے اور اس میں بھی مراتب ہیں.
ج- اجماع کا ذکر نفی خلاف سے کیا جاتا ہے یہ تیسرے درجہ میں آتا ہے، اس میں بھی مراتب ہیں، اور عبارت “لا خلاف فیہ” یا اس جیسی دیگر عبارتیں اس تیسری قسم کی سب سے نچلے مرتبہ کی کمزور ترین عبارتوں میں سے ایک ہیں….
خلاصہ کلام یہ کہ: حقیقت میں اس مسئلہ میں اجماع واقع ہی نہیں، کیوں کہ جن کتابوں میں علمائے کرام نے مجمع علیہ مسائل کو اکٹھا کیا ہے ان میں عیدین کے دو خطبوں پر اجماع کا ذکر ہی نہیں، نیز ابن قدامہ رحمہ اللہ کے کلام سے اجماع کا حوالہ دینا باحثین اور مؤلفین کی تقلید جامد کے سوا کچھ نہیں، اور رہی بات ابن حزم رحمہ اللہ کی تو انہوں نے صرف عیدین کے دو خطبوں پر اجماع نقل نہیں کیا ہے، بلکہ ان تمام مسائل پر اجماع نقل کیا جو انہوں نے اس باب میں ذکر کیا ہے، جب کہ اس باب میں چند مسائل مختلف فیہ بھی ہیں جیسے تکبیرات زائدہ وغیرہ، گویا کہ ابن حزم رحمہ اللہ کی عبارت محتمل ہے، اور اذا وجد الاحتمال بطل الاستدلال.
اس لئے موہوم اجماع کا سہارا لے کر سنت رسول پر عمل کرنے والوں کو تنقید کا نشانہ نہیں بنایا جائے..

ناقل : فضیلۃ الباحث کامران الہیٰ ظہیر حفظہ اللہ