سوال (1755)

کیا عید والے دن جو بلند آواز سے تکبیرات کہی جاتی ہیں، کیا یہ اجتماعی ذکر ہے ؟

جواب

اس حوالے سے بہت زیادہ افراط و تفریط پایا جاتا ہے کہ نماز عید سے پہلے تکبیر پڑھنا یا تکبیر پڑھنے کا کہنا یا مجمع کا تکبیر پڑھنا اس میں کافی افراط و تفریط کا معاملہ ہو رہا ہے ، جہالت کا دور دورہ ہے ، علم و سنت کو عام کرنے کی ضرورت ہے، موقع و محل کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے کوئی اسپیکر یا بغیر اسپیکر کے تکبیرات پڑھتا ہے، لوگوں سے بھی کہتا ہے کہ خاموش نہ بیٹھیں تکبیرات پڑھیں تو اس میں ان شاءاللہ خیر ہے ، کوئی حرج کی بات نہیں ہے، یہاں یہ فتویٰ لگانا کہ یہ اجتماعی ذکر ہے، بدعت ہے ، یاد رہے کہ پھر تو ایسے کوئی چیز نہیں رہے گی ، تکبیرات کے علاؤہ بھی کئی باتیں ہیں جیسا کہ جلدی قدم بڑھا کر آئیں، خواتین پردے کا اہتمام کریں وغیرہ
اس میں اس قدر سخت فتوی لگانا یہ نامناسب ہے، البتہ لوگوں میں یہ بات عام ہونی چاہیے کہ ہماری ذمے داری ہے کہ ہم تکبیرات پڑھیں، باقی کوئی عیدگاہ میں لوگوں کو توجہ دلانے کے لیے تکبیرات پڑھتا ہے تو میں نہیں سمجھتا ہوں کہ اس میں اس قدر سخت فتویٰ دیا جائے۔
باقی یہ صورتاً ذکر اجتماعي ہو جاتا ہے یہ حقیقتا نہیں ہوتا ہے، ویسی اجتماعی ذکر کی ہر صورت پر فتویٰ بھی محل نظر ہے۔
فرشتے مجالس ذكر تلاش کرتے ہیں ، تعلیم کے خاطر کچھ مسائل کو رواج دیا جا سکتا ہے۔ فافهم

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ

عید کے دن اسپیکر پر بلند آواز سے بہت دیر تک تکبیرات پڑھنا یہ اچھا عمل نہیں ہے، لیکن اس کو بدعت نہیں کہا جا سکتا ہے۔

فضیلۃ الشیخ سعید مجتبیٰ سعیدی حفظہ اللہ

سائل :
شیخ محترم اگر یہ اجتماعی ذکر کی وجہ سے جائز نہیں ہے تو پھر جو صحابہ کرام بازاروں میں نکل کر تکبیرات پڑھتے تھے اور لوگ ان کو سن کر پڑھتے تھے پھر کیا وہ اجتماعی ذکر نہیں بن جاتا ہے؟
جواب:
اجتماع کا بن جانا الگ بات ہے اور علی الاعلان اجتماع بنانا اس کا اعلان کرنا مجمع تشکیل دینا الگ مسئلہ ہے۔ ان کے تکبیرات کہنے سے تلقین تھی جو ان کے پڑھنے سے دلائی جاتی تھی۔ واللہ اعلم

فضیلۃ الباحث نعمان خلیق حفظہ اللہ