سوال (1802)

کیا عید کے دن نیا لباس اور نیا جوتا پہننا ضروری ہے ؟
ایک شخص ہے اس کے پاس مال و دولت بھی ہے ، لیکن وہ کہتا ہے میں پرانے کپڑے پہن کر ہی عید کی نماز کے لیے جاؤں گا اور پرانا جوتا ہی پہنوں گا کیونکہ اس طرح مجھے عاجزی پسند ہے کیا اس بھائی کا ایسا کرنا درست ہے اس کا ایسا کرنا عاجزی میں شامل ہوگا؟

جواب

عید اور جمعہ کے لیے حکم ہے ، اس حکم کے تحت نئے کپڑوں اور جوتوں کا اہتمام کرے ، یہ عید کی تیاری کا مسنون طریقہ ہے ، پھر میسر بھی ہو تو نہ کرنا سنت کے خلاف اور کنجوسی میں شامل ہوتا ہے ، بخل بھی منع ہے ، البتہ اپنے نجی فنکشنز کے لیے ایسا ضرور کرے ۔
مثلاً : شادی بیاہ و دیگر معاملات وغیرہ

فضیلۃ العالم اکرام اللہ واحدی حفظہ اللہ

سائل :
وہ حدیث بھیج دیں جس میں عید کے دن نیا لباس پہننے کا حکم ہے ؟
جواب :
ارشادِ باری تعالیٰ ہے ۔

“يٰبَنِىۡۤ اٰدَمَ خُذُوۡا زِيۡنَتَكُمۡ عِنۡدَ كُلِّ مَسۡجِدٍ وَّكُلُوۡا وَاشۡرَبُوۡا وَلَا تُسۡرِفُوۡا‌ ۚ اِنَّهٗ لَا يُحِبُّ الۡمُسۡرِفِيۡنَ” [سورة الاعراف : 31]

«اے آدم کی اولاد! ہر نماز کے وقت اپنی زینت لے لو»
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنھما فرماتے ہیں کہ

” َخَذَ عُمَرُ جُبَّةً مِنْ إِسْتَبْرَقٍ تُبَاعُ فِي السُّوقِ فَأَخَذَهَا، ‏‏‏‏‏‏فَأَتَى بِهَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ ابْتَعْ هَذِهِ تَجَمَّلْ بِهَا لِلْعِيدِ وَالْوُفُودِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ إِنَّمَا هَذِهِ لِبَاسُ مَنْ لَا خَلَاقَ لَهُ فَلَبِثَ عُمَرُ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ يَلْبَثَ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ أَرْسَلَ إِلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِجُبَّةِ دِيبَاجٍ، ‏‏‏‏‏‏فَأَقْبَلَ بِهَا عُمَرُ، ‏‏‏‏‏‏فَأَتَى بِهَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّكَ قُلْتَ إِنَّمَا هَذِهِ لِبَاسُ مَنْ لَا خَلَاقَ لَهُ وَأَرْسَلْتَ إِلَيَّ بِهَذِهِ الْجُبَّةِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ تَبِيعُهَا أَوْ تُصِيبُ بِهَا حَاجَتَكَ.[ صحيح البخاري : 948]

«عمر رضی اللہ عنہ ایک موٹے ریشمی کپڑے کا چغہ لے کر رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے جو بازار میں بک رہا تھا کہنے لگے: یا رسول اللہ! آپ اسے خرید لیجئے اور عید اور وفود کی پذیرائی کے لیے اسے پہن کر زینت فرمایا کیجئے۔ اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ یہ تو وہ پہنے گا جس کا (آخرت میں) کوئی حصہ نہیں۔ اس کے بعد جب تک اللہ نے چاہا عمر رہی پھر ایک دن رسول اللہ ﷺ نے خود ان کے پاس ایک ریشمی چغہ تحفہ میں بھیجا۔ عمر ؓ اسے لیے ہوئے آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا کہ یا رسول اللہ! آپ نے تو یہ فرمایا کہ اس کو وہ پہنے گا جس کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں پھر آپ نے یہ میرے پاس کیوں بھیجا؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ میں نے اسے تیرے پہننے کو نہیں بھیجا بلکہ اس لیے کہ تم اسے بیچ کر اس کی قیمت اپنے کام میں لاؤ»

قال السندي في حاشيته على النسائي [3/181] :
“مِنْهُ عُلِمَ أَنَّ التَّجَمُّلَ يَوْم الْعِيد كَانَ عَادَةً مُتَقَرِّرَةً بَيْنهمْ وَلَمْ يُنْكِرْهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّه تَعَالَى عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَعُلِمَ بَقَاؤُهَا” انتهى .

فضیلۃ العالم اکرام اللہ واحدی حفظہ اللہ