سوال (2194)
کیا عید کی نماز میں رفع الیدین کرنا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے؟
جواب
تکبیرات عیدین میں رفع الیدین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے ، جیسا کہ سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اﷲ عنہما بیان کرتے ہیں:
ﮐَﺎﻥَ ﺭَﺳُﻮﻝُ ﺍﻟﻠّٰﮧِ ﺻَﻠَّﯽ ﺍﻟﻠّٰﮧُ ﻋَﻠَﯿْﮧِ ﻭَﺳَﻠَّﻢَ ﺇِﺫَﺍ ﻗَﺎﻡَ ﺇِﻟَﯽ ﺍﻟﺼَّﻠَﺎۃِ ﺭَﻓَﻊَ ﯾَﺪَﯾْﮧِ، ﺣَﺘّٰﯽ ﺇِﺫَﺍ ﮐَﺎﻧَﺘَﺎ ﺣَﺬْﻭَ ﻣَﻨْﮑِﺒَﯿْﮧِ ﮐَﺒَّﺮَ، ﺛُﻢَّ ﺇِﺫَﺍ ﺍَٔﺭَﺍﺩَ ﺍَٔﻥْ ﯾَّﺮْﮐَﻊَ ﺭَﻓَﻌَﮩُﻤَﺎ، ﺣَﺘّٰﯽ ﯾَﮑُﻮﻧَﺎ ﺣَﺬْﻭَ ﻣَﻨْﮑِﺒَﯿْﮧِ، ﮐَﺒَّﺮَ ﻭَﮨُﻤَﺎ ﮐَﺬٰﻟِﮏَ، ﻓَﺮَﮐَﻊَ، ﺛُﻢَّ ﺇِﺫَﺍ ﺍَٔﺭَﺍﺩَ ﺍَٔﻥْ ﯾَّﺮْﻓَﻊَ ﺻُﻠْﺒَﮧٗ ﺭَﻓَﻌَﮩُﻤَﺎ، ﺣَﺘّٰﯽ ﯾَﮑُﻮﻧَﺎ ﺣَﺬْﻭَ ﻣَﻨْﮑِﺒَﯿْﮧِ، ﺛُﻢَّ ﻗَﺎﻝَ : ﺳَﻤِﻊَ ﺍﻟﻠّٰﮧُ ﻟِﻤَﻦْ ﺣَﻤِﺪَﮦٗ، ﺛُﻢَّ ﯾَﺴْﺠُﺪُ، ﻓَﻠَﺎ ﯾَﺮْﻓَﻊُ ﯾَﺪَﯾْﮧِ ﻓِﻲ ﺍﻟﺴُّﺠُﻮﺩِ، ﻭَﺭَﻓَﻌَﮩُﻤَﺎ ﻓِﻲ ﮐُﻞِّ ﺭَﮐْﻌَۃٍ ﻭَّﺗَﮑْﺒِﯿﺮَۃٍ ﮐَﺒَّﺮَﮨَﺎ ﻗَﺒْﻞَ ﺍﻟﺮُّﮐُﻮﻉِ، ﺣَﺘّٰﯽ ﺗَﻨْﻘَﻀِﻲَ ﺻَﻠَﺎﺗُﮧٗ ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز کے لیے کھڑے ہوتے، تو دونوں ہاتھوں کو بلند فرماتے حتی کہ جب وہ کندھوں کے برابر ہو جاتے، تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ’ اللہ اکبر ‘کہتے۔
پھر جب رکوع کا ارادہ فرماتے ،تو دونوں ہاتھوں کو اٹھاتے، حتی کہ وہ کندھوں کے برابر ہو جاتے، اسی حالت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم’ اللہ اکبر ‘ کہتے
پھر رکوع فرماتے۔
جب آپ رکوع سے اپنی کمر اٹھانے کا ارادہ فرماتے، تو دونوں ہاتھوں کو کندھوں تک اٹھاتے پھر ’سمع اللہ لمن حمدہ ‘ کہتے پھر سجدہ کرتے، لیکن سجدے میں رفع الیدین نہیں فرماتے تھے، البتہ ہر رکوع اور رکوع سے پہلے ہر تکبیر پر رفع الیدین فرماتے تھے، حتی کہ اس طرح آپ کی نماز مکمل ہو جاتی ”
[ﺳﻨﻦ ﺍٔﺑﻲ ﺩﺍﻭٗﺩ: 722 ، ﺍﻟﻤﻨﺘﻘٰﯽ ﻻﺑﻦ ﺍﻟﺠﺎﺭﻭﺩ: 178، ﻭﺍﻟﺴﯿﺎﻕ ﻟﮧٗ، ﻭﺳﻨﺪﮦٗ ﺣﺴﻦٌ]
اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ رکوع سے پہلے کہی جانے والی ہر تکبیر پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رفع الیدین فرماتے تھے۔ تکبیرات عیدین بھی چونکہ رکوع سے پہلے ہوتی ہیں، لہذا ان میں رفع الیدین کرنا سنت نبوی سے ثابت ہے۔
ائمہ حدیث نے اس حدیث کو تکبیرات عیدین میں رفع الیدین کرنے پر دلیل بنایا ہے۔
امام شافعی رحمہ اللہ:
ﺍﻣﺎﻡ ابو عبد اللہ محمد بن ادریس شافعی ﺭﺣﻤﮧ ﺍﻟﻠﮧ ( 150-204 ﮪ ) فرماتے ہیں:
ﻭَﯾَﺮْﻓَﻊُ ﯾَﺪَﯾْﮧِ ﻓِﻲ ﮐُﻞِّ ﺗَﮑْﺒِﯿﺮَۃٍ ﻋَﻠٰﯽ ﺟَﻨَﺎﺯَۃٍ ﺧَﺒَﺮًﺍ، ﻭَﻗِﯿَﺎﺳًﺎ ﻋَﻠٰﯽ ﺍَٔﻧَّﮧٗ ﺗَﮑْﺒِﯿﺮٌ ﻭَّﮨُﻮَ ﻗَﺎﺋِﻢٌ، ﻭَﻓِﻲ ﮐُﻞِّ ﺗَﮑْﺒِﯿﺮِ ﺍﻟْﻌِﯿﺪَﯾْﻦِ۔
“نماز جنازہ اور عیدین کی ہر تکبیر پر رفع الیدین کیا جائے گا، حدیث نبوی کی بنا پر اور قیاس کرتے ہوئے بھی کہ قیام “ﻧﻤﺎﺯِ کی ہر تکبیر پر رفع الیدین کیا جاتا ہے ہے”۔
[ﺍﻻٔﻡّ : 127/1]
ﺍﻣﺎﻡ ابن منذر رحمہ اللہ:
امام ابو بکر محمد بن ابراہیم بن منذر نیشاپوری رحمہ اللہ ( 242-319 ﮪ ) فرماتے ہیں:
ﻭَﻟِﺎَٔﻥَّ ﺍﻟﻨَّﺒِﻲَّ ﺻَﻠَّﯽ ﺍﻟﻠّٰﮧُ ﻋَﻠَﯿْﮧِ ﻭَﺳَﻠَّﻢَ ﻟَﻤَّﺎ ﺑَﯿَّﻦَ ﺭَﻓْﻊَ ﺍﻟْﯿَﺪَﯾْﻦِ ﻓِﻲ ﮐُﻞِّ ﺗَﮑْﺒِﯿﺮَۃٍ ﯾُّﮑَﺒِّﺮُﮨَﺎ ﺍﻟْﻤَﺮْﺉُ ﻭَﮨُﻮَ ﻗَﺎﺋِﻢٌ، ﻭَﮐَﺎﻧَﺖْ ﺗَّﮑْﺒِﯿﺮَﺍﺕُ ﺍﻟْﻌِﯿﺪَﯾْﻦِ ﻭَﺍﻟْﺠَﻨَﺎﺋِﺰِ ﻓِﻲ ﻣَﻮْﺿِﻊِ ﺍﻟْﻘِﯿَﺎﻡِ، ﺛَﺒَﺖَ ﺭَﻓْﻊُ ﺍﻟْﯿَﺪَﯾْﻦِ ﻓِﯿﮩَﺎ۔۔
“اس لئے بھی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قیام میں ہر تکبیر پر رفع الیدین بیان فرمایا ہے اور عیدین وجنازے کی تکبیرات قیام ہی میں ہیں ، لہذا ان تکبیرات میں رفع الیدین ثابت ہو گیا”۔
[ﺍﻻٔﻭﺳﻂ ﻓﻲ ﺍﻟﺴﻨﻦ ﻭﺍﻹﺟﻤﺎﻉ ﻭﺍﻻﺧﺘﻼﻑ: 428/5]
نیز فرماتے ہیں:
ﺳَﻦَّ ﺭَﺳُﻮﻝُ ﺍﻟﻠّٰﮧِ ﺻَﻠَّﯽ ﺍﻟﻠّٰﮧُ ﻋَﻠَﯿْﮧِ ﻭَﺳَﻠَّﻢَ ﺍَٔﻥْ ﯾَّﺮْﻓَﻊَ ﺍﻟْﻤُﺼَﻠِّﻲ ﯾَﺪَﯾْﮧِ ﺇِﺫَﺍ ﺍﻓْﺘَﺘَﺢَ ﺍﻟﺼَّﻠَﺎۃَ، ﻭَﺇِﺫَﺍ ﺭَﮐَﻊَ، ﻭَﺇِﺫَﺍ ﺭَﻓَﻊَ ﺭَﺍْٔﺳَﮧٗ ﻣِﻦَ ﺍﻟﺮُّﮐُﻮﻉِ، ﻭَﮐُﻞُّ ﺫٰﻟِﮏَ ﺗَﮑْﺒِﯿﺮٌ ﻓِﻲ ﺣَﺎﻝِ ﺍﻟْﻘِﯿَﺎﻡِ، ﻓَﮑُﻞُّ ﻣَﻦْ ﮐَﺒَّﺮَ ﻓِﻲ ﺣَﺎﻝِ ﺍﻟْﻘِﯿَﺎﻡِ ﺭَﻓَﻊَ ﯾَﺪَﯾْﮧِ ﺍﺳْﺘِﺪْﻟَﺎﻟًﺎ ﺑِﺎﻟﺴُّﻨّة
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز شروع کرتے وقت،رکوع جاتے وقت اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت رفع الیدین کرنے جوٹ سنت بنانا ہے۔
یہ ساری صورتیں قیام کی حالت مین تکبیر کی ہیں ۔لہذا جو بھی شخص قیام کی حالت میں تکبیر کہے گا، وہ اسی سنت سے استدلال کرتے ہوئے رفع الیدین کرے گا۔
[ﺍﻻٔﻭﺳﻂ: 282/4 ]
فضیلۃ الباحث کامران الہی ظہیر حفظہ اللہ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھتے تو رفع الیدین کرتے تھے۔
1: تکبیر الاولی
2: رکوع میں جاتے وقت
3: رکوع سے کھڑے ہونے کے بعد
4: دو رکعت پڑھ کر جب تیسری کے لیے کھڑے ہوتے۔
ان مقامات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے رفع الیدین کرنا ثابت ہے ، دلیل سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:
ان النبی صلی الله عليه وسلم کان یرفع یدیه حذو منكبيه اذا افتتح الصلاة و اذا كبر للركوع واذا رفع راسه من الركوع [متفق عليه]
مزید جز رفع الیدین از امام بخاری کا مطالعہ کریں۔
باقی رہا مسئلہ عیدین کی نماز میں تکبیرات زائدہ کا تو اس میں کوئی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین سے کوئی صریح دلیل منقول نہیں ہے۔
[ امام ابن حزم المحلي میں لکھتے 83، 84 /5 ] لم يصح قط ان رسول الله صلى الله عليه وسلم رفع فيه يديه ]
علامہ البانی رحمہ اللہ بھی ارواه الغليل میں کہتے ہیں کہ یہ مسنون نہیں ہیں۔
تاہم تکبیرات عیدین کے ساتھ رفع الیدین کرنے کی بابت محدثین کرام امام ابن المنذر اور امام بیہقي نے سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی اس روایت سے استدلال کیا ہے۔
[ويرفعها في كل ركعة و تكبيرة كبرها قبل الركوع ]
سلف صالحین میں سے ان محدثین کرام کی کسی نے بھی مخالفت نہیں کی ہے اور یہ استدلال قوی ہے اور بھی آئمہ محدثین کے اس بارے میں اقوال ملتے ہیں ، مثلا امام عطاء بن ابی رباح سے کسی نے پوچھا کیا امام نماز عیدین میں ہر تکبیر کے ساتھ رفع الیدین کرے تو انہوں نے جواب دیا کہ وہ رفع الیدین کرے اور لوگ بھی اس کے ساتھ ہاتھ اٹھائیں۔ [المصنف عبدالرزاق: 297 /3]
امام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں تکبیرات عیدین کے موقع پر ہاتھ اٹھانے چاہیے اگرچہ میں نے اس کے متعلق کچھ نہیں سنا۔
[ارواہ الغليل: 3/113]
امام شافعی رحمہ اللہ اور امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کا بھی یہی موقف ہے کہ تکبیرات عیدین میں ہاتھ اٹھانے چاہییں۔
[الام: 237/1]
لہذا تکبیرات عید کے ساتھ رفع الیدین کرنا بہتر ہے۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم
فضیلۃ الباحث امتیاز احمد حفظہ اللہ
بارك الله فيكم وعافاكم
اصول حدیث اور ائمہ علل کے منہج وتعامل کے مطابق اس روایت میں یہ زیادت “ﻭﻳﺮﻓﻌﻬﻤﺎ ﻓﻲ ﻛﻞ ﺗﻜﺒﻴﺮﺓ ﻳﻜﺒﺮﻫﺎ ﻗﺒﻞ اﻟﺮﻛﻮﻉ ﺣﺘﻰ ﺗﻨﻘﻀﻲ ﺻﻼﺗﻪ”غیر محفوظ اور شاذ ہے ، تفصیل فرصت میں ذکر کروں گا، باقی ائمہ محدثین و سلف صالحین اس مقام پر رفع الیدین کرنے کے قائل اور موقف رکھتے تھے اور کسی راوی کا اضافہ لگتا ہے، اس روایت ابن عمر کی زیادت غیر محفوظ اور خطاء پر مبنی ہونے پر تفصیل کسی فرصت میں کروں گا، جسے اس جواب میں شامل کیا جائے گا، کچھ پرسنل مصروفیت کے سبب تاخیر ہو سکتی ہے۔
فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ