سوال (1850)

کیا عید کی نماز میں عورت عورتوں کی جماعت کروا سکتی ہے ؟

جواب

خیر القرون میں عورتوں کا مردوں سے الگ رہ کر نماز عید ادا کرنے کا ذکر کہیں نہیں پڑھا، تاہم نماز پنجگانہ کی طرح اگر وہ نماز عید کا کسی وجہ سے الگ اہتمام کرلیں تو اجازت دی جا سکتی ہے۔

فضیلۃ الشیخ سعید مجتبیٰ سعیدی حفظہ اللہ

مرد امام کے پیچھے پڑھیں گی۔

فضیلۃ العالم اکرام اللہ واحدی حفظہ اللہ

سائل :
لیکن عید کی نماز کے لیے تو کھلے میدان میں نکلنے کا حکم دیا گیا ہے
جواب :
حکم نہیں ہے بلکہ عمل ہے۔

فضیلۃ الشیخ سعید مجتبیٰ سعیدی حفظہ اللہ

سیدہ ام عطیہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں :

“كُنَّا نُؤْمَرُ أَنْ نَخْرُجَ يَوْمَ الْعِيدِ حَتَّى نُخْرِجَ الْبِكْرَ مِنْ خِدْرِهَا حَتَّى نُخْرِجَ الْحُيَّضَ فَيَكُنَّ خَلْفَ النَّاسِ، ‏‏‏‏‏‏فَيُكَبِّرْنَ بِتَكْبِيرِهِمْ وَيَدْعُونَ بِدُعَائِهِمْ يَرْجُونَ بَرَكَةَ ذَلِكَ الْيَوْمِ وَطُهْرَتَهُ” [صحيح البخاري : 971]

«نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ہمیں عید کے دن عیدگاہ میں جانے کا حکم تھا۔ کنواری لڑکیاں اور حائضہ عورتیں بھی پردہ میں باہر آتی تھیں۔ یہ سب مردوں کے پیچھے پردہ میں رہتیں۔ جب مرد تکبیر کہتے تو یہ بھی کہتیں اور جب وہ دعا کرتے تو یہ بھی کرتیں۔ اس دن کی برکت اور پاکیزگی حاصل کرنے کی امید رکھتیں»

فضیلۃ العالم مرتضیٰ ساجد حفظہ اللہ

عورت کے لیے عام جماعت کروانے کی نص تو موجود ہے تو اسی پر اس کو بھی قیاس کرلیں۔ بارک اللہ فیکم

فضیلۃ الباحث حافظ شہریار آصف حفظہ اللہ