“عیدالاضحیٰ اور آج کا مسلمان”

عیدالاضحیٰ مسلمانوں کے لیے خوشی، شکرگزاری اور قربانی کا عظیم دن ہے۔ یہ دن ہمیں صرف جانور ذبح کرنے کی رسم یاد نہیں دلاتا، بلکہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام اور سیدنا اسماعیل علیہ السلام کی وہ بے مثال اطاعت اور قربانی یاد دلاتا ہے جس میں اللہ تعالیٰ کے حکم پر سب کچھ نچھاور کرنے کا جذبہ تھا۔ سوال یہ ہے کہ آج کا مسلمان اس عظیم قربانی سے کیا سیکھ رہا ہے؟ کیا ہم عیدالاضحیٰ کو صرف رسم و رواج تک محدود کر چکے ہیں؟ آئیے، اس پر غور کرتے ہیں۔

عیدالاضحیٰ کا پیغام:
قرآن مجید قربانی کی اصل روح یوں بیان کرتا ہے:

لَن يَنَالَ اللَّهَ لُحُومُهَا وَلَا دِمَاؤُهَا وَلَٰكِن يَنَالُهُ التَّقْوَىٰ مِنكُمْ (سورۃ الحج:37)

اللہ تعالیٰ کو نہ ان (قربانی کے جانوروں) کا گوشت پہنچتا ہے اور نہ خون، بلکہ اُسے تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے۔
یہ آیت واضح کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کو ظاہری نمود نہیں بلکہ دل کی نیت، تقویٰ، اور اطاعت درکار ہے۔ قربانی کا مقصد صرف جانور ذبح کرنا نہیں، بلکہ اپنے نفس، مال، خواہشات اور دنیاوی محبتوں کو اللہ کے تابع کرنا ہے۔

سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی سنت:
سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے اپنی پوری زندگی توحید، اطاعت اور قربانی کے لئے وقف کر دی۔ جب اللہ تعالیٰ نے ان سے ان کے بیٹے کی قربانی مانگی، تو انہوں نے بلا تردد کہا:

يَا بُنَيَّ إِنِّي أَرَىٰ فِي الْمَنَامِ أَنِّي أَذْبَحُكَ فَانظُرْ مَاذَا تَرَىٰ
(الصافات:102)

اے میرے بیٹے! میں خواب میں دیکھتا ہوں کہ میں تجھے ذبح کر رہا ہوں، تو بتا، تیرا کیا خیال ہے؟

قَالَ يَا أَبَتِ افْعَلْ مَا تُؤْمَرُ ۖ سَتَجِدُنِي إِن شَاءَ اللَّهُ مِنَ الصَّابِرِينَ

سیدنا اسماعیل علیہ السلام کا جواب تھا: “اے ابا جان! آپ کو جو حکم دیا گیا ہے اسے انجام دیجیے، آپ ان شاء اللہ مجھے صابروں میں پائیں گے۔”
یہی ہے قربانی کی اصل روح کہ حکمِ الہٰی کے سامنے اپنی ہر محبت کو قربان کر دینا۔

آج کا مسلمان: قربانی یا تماشا؟

افسوس کہ آج عیدالاضحیٰ ایک ظاہری مظاہرے اور ریشمی لباس و مہنگے جانوروں کے میلے میں بدل چکی ہے:
بڑے جانور خریدنا فخر کا ذریعہ بن چکا ہے، نیت خالص کم، دکھاوا زیادہ۔
جانوروں کو پالتو سمجھ کر ان سے کھیلنا، اور پھر قربانی کے وقت رونا — یہ ابراہیمی سنت نہیں، جذباتی غلط فہمی ہے۔
غریب پڑوسی، یتیم، بیوہ، اور بھوکے مسلمان گوشت کے منتظر رہتے ہیں جبکہ ہم فریزر بھرنے میں لگے ہوتے ہیں۔
قربانی کے گوشت کو بھی دوستی، رشتہ داری اور پسند و ناپسند کی بنیاد پر تقسیم کیا جاتا ہے، تقویٰ اور عدل کی بنیاد پر نہیں۔
ایسی عید، جس میں نہ تقویٰ ہو، نہ فقر و فاقہ کی یاد، نہ اطاعت و فرمانبرداری کی جھلک — وہ عید نہیں، صرف ایک تہوار بن کر رہ جاتی ہے۔
عیدالاضحیٰ ہمیں صرف جانور ذبح کرنے کی یادگار نہیں، بلکہ ایک زندہ سبق دیتی ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ کا حکم ہو تو اپنے بیٹے جیسی عزیز ترین شے کو بھی قربان کر دو۔ آج کے مسلمان کو چاہیے کہ وہ ابراہیمی قربانی کو رسم نہیں، نظامِ حیات بنائے۔ اپنے نفس، وقت، مال، اور خواہشات کو اللہ کے راستے میں قربان کرنے کا جذبہ پیدا کرے۔
تب ہی ہماری عید حقیقی معنوں میں “عید” ہوگی — خوشی بھی، عبادت بھی، قربانی بھی، اور تقویٰ بھی۔

اللهم اجعلنا من عبادك المخلصین الموحدین و اجعلنا من اتباع الملة الإبراهیمية۔
آمین یارب العالمـــین

یاسر مسعُود بھٹی
خادمُ العلم والعلماء

یہ بھی پڑھیں:مربی و مخدوم اساتذہ کرام کی نذر