سوال

کیا فرماتے ہیں علماء کرام کہ عید گاہ میں امام کی آمد سے پہلے کوئی شخص بلند آواز سے تکبیرات پڑھتا ہے اور لوگوں کو بھی تلقین کرتا ہے کہ بلند آواز سے تکبیرات پڑھتے رہیں! کیا یہ اجتماعی ذکر کی صورت نہیں؟

کیا ایسا کرنا جائز ہے یا ناجائز اور بدعت ہے؟

جواب

الحمد لله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!

سب لوگ اپنی اپنی تکبیرات پڑھتے ہیں کسی کے الفاظ کچھ ہوتے ہیں کسی کے کچھ، کسی کی آواز بلند ہوتی ہے کسی کی پست اور کوئی خاموش ہوتا ہے۔

سپیکر پہ مامور بندہ بس ترغیب دلا رہا ہوتا ہے نہ کہ اجتماعی ذکر کی کلاس لے رہا ہوتا ہے کہ جیسے میں پڑھ رہا ہوں ویسے ویسے میرے پیچھے پیچھے پڑھیں!

جو سپیکر میں پڑھتا ہے اس کے پڑھنے سے دوسروں کو رغبت ہوتی ہے وہ سب اپنے اپنے طور پر ہی پڑھتے ہیں۔

امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

“كان ابن عمر وأبو هريرة يخرجان إلى السوق فى أيام العشر يكبران ويكبر الناس بتكبيرهما”. [ارواء الغليل: 651]

’’سیدنا عبد الله بن عمر اور سيدنا أبو ہريرة رضی الله عنهم جس وقت عشرہ ذو الحجہ کے دوران بازار جاتے، تو بلند آواز سے تکبیرات کہتے تھے اور لوگ ان کی تکبیرات کے ساتھ تکبیریں کہتے‘‘۔

جیسا کہ صحابہ کرام کے اس امر سے بھی ثابت ہورہا ہے کہ عبداللہ بن عمر اور ابوھریرہ رضی اللہ عنھما جب تکبیرات کہتے تھے تو لوگ بھی انکے ساتھ کہنا شروع ہوجاتے تھے۔

لہذا یہ عمل جائز ہے۔ اس میں کوئی قباحت یا حرج والی بات نہیں ہے۔

وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين

مفتیانِ کرام

فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ عبد الحنان سامرودی حفظہ اللہ