سوال (3041)
ایک عیسائی مذہب سے تعلق رکھنے والی عورت ایک شخص کے گھر میں کام کرتی ہے اور وہ شخص مسلمان ہے، اب وہ زکوٰۃ ادا کرنا چاہتا ہے، اب آیا کہ وہ مسلمان شخص اس عیسائی مذہب سے تعلق رکھنے والی عورت کو زکوٰۃ دے سکتا ہے یا نہیں؟ جو اس کے پاس گھر میں کام کرتی ہے اور اس کا خاوند بھی بیمار ہے یا اسی طرح کسی مسلمان کا غیر مسلم کو زکوٰۃ دینا کیسا ہے؟
جواب
زکاۃ خالص مسلمانوں کا حق ہے، جو مسلمان اغنیاء سے وصول کی جاتی ہے اور فقراء مسلمین کی طرف لٹائی جاتی ہے، باقی “والمؤلفة قلوبهم” سے مراد نئے نئے مسلمانوں کی تالیف قلب مقصود ہے، جنہیں دین اسلام پر قائم رکھنا مقصود ہے
فضیلۃ الباحث اسامہ شوکت حفظہ اللہ
علماء کا اجماع ہے کہ کفار کو زکوۃ نہیں دی جا سکتی، محض “المؤلفۃ قلوبھم” اس سے استثناء ہیں۔
فضیلۃ الباحث حافظ محمد طاہر حفظہ اللہ
فرض زکوۃ پر صرف اہل اسلام سے مستحق لوگوں کا حق ہے البتہ نفلی صدقہ ونیکی کرنا ان غیر مسلوں سے جائز ہے جب وہ اقربا سے ہوں اور غیر حربی ہوں
آپ انہیں فرضی زکوۃ نہیں دے سکتے ہیں.
تفصیل ملاحظہ فرمائیں:
ﺃﺧﺒﺮﻧﺎ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﻋﺒﺪ اﻟﻠﻪ ﺑﻦ ﻋﺒﺪ اﻟﺮﺣﻴﻢ، ﺣﺪﺛﻨﺎ اﻟﻔﺮﻳﺎﺑﻲ، ﺣﺪﺛﻨﺎ ﺳﻔﻴﺎﻥ، ﻋﻦ اﻷﻋﻤﺶ، ﻋﻦ ﺟﻌﻔﺮ ﺑﻦ ﺇﻳﺎﺱ، ﻋﻦ ﺳﻌﻴﺪ ﺑﻦ ﺟﺒﻴﺮ، ﻋﻦ اﺑﻦ ﻋﺒﺎﺱ، ﻗﺎﻝ: ﻛﺎﻧﻮا ﻳﻜﺮﻫﻮﻥ ﺃﻥ ﻳﺮﺿﺨﻮا ﻷﻧﺴﺒﺎﺋﻬﻢ ﻣﻦ اﻟﻤﺸﺮﻛﻴﻦ ﻓﺴﺄﻟﻮا، ﻓﺮﺿﺦ ﻟﻬﻢ، ﻓﻨﺰﻟﺖ ﻫﺬﻩ اﻵﻳﺔ {ﻟﻴﺲ ﻋﻠﻴﻚ ﻫﺪاﻫﻢ ﻭﻟﻜﻦ اﻟﻠﻪ ﻳﻬﺪﻱ ﻣﻦ ﻳﺸﺎء ﻭﻣﺎ ﺗﻨﻔﻘﻮا ﻣﻦ ﺧﻴﺮ ﻓﻸﻧﻔﺴﻜﻢ ﻭﻣﺎ ﺗﻨﻔﻘﻮﻥ ﺇﻻ اﺑﺘﻐﺎء ﻭﺟﻪ اﻟﻠﻪ ﻭﻣﺎ ﺗﻨﻔﻘﻮا ﻣﻦ ﺧﻴﺮ ﻳﻮﻑ ﺇﻟﻴﻜﻢ ﻭﺃﻧﺘﻢ ﻻ ﺗﻈﻠﻤﻮﻥ}
[ اﻟﺒﻘﺮﺓ: 272]
[السنن الکبری للنسائی : 10986 صحیح]
ﺃﺧﺒﺮﻧﺎ ﺣﻤﻴﺪ ( هو ابن زنجويه) ﺃﻧﺎ ﻋﻠﻲ ﺑﻦ اﻟﺤﺴﻦ، ﻋﻦ اﺑﻦ اﻟﻤﺒﺎﺭﻙ، ﻋﻦ ﺳﻔﻴﺎﻥ، ﻋﻦ اﻷﻋﻤﺶ، ﻋﻦ ﺟﻌﻔﺮ ﺑﻦ ﺇﻳﺎﺱ، ﻋﻦ ﺳﻌﻴﺪ ﺑﻦ ﺟﺒﻴﺮ، ﻋﻦ اﺑﻦ ﻋﺒﺎﺱ ﻗﺎﻝ: ” ﻛﺎﻥ ﺃﻧﺎﺱ ﻣﻦ اﻷﻧﺼﺎﺭ ﻟﻬﻢ ﺃﻧﺴﺒﺎء ﻭﻗﺮاﺑﺔ ﻣﻦ ﻗﺮﻳﻈﺔ ﻭاﻟﻨﻀﻴﺮ، ﻓﻜﺎﻧﻮا ﻳﺘﻘﻮﻥ ﺃﻥ ﻳﺘﺼﺪﻗﻮا ﻋﻠﻴﻬﻢ، ﻳﺮﻳﺪﻭﻫﻢ ﺃﻥ ﻳﺴﻠﻤﻮا، ﻓﻨﺰﻟﺖ: {ﻟﻴﺲ ﻋﻠﻴﻚ ﻫﺪاﻫﻢ، ﻭﻟﻜﻦ اﻟﻠﻪ ﻳﻬﺪﻱ ﻣﻦ ﻳﺸﺎء، ﻭﻣﺎ ﺗﻨﻔﻘﻮا ﻣﻦ ﺧﻴﺮ ﻓﻸﻧﻔﺴﻜﻢ}
[ اﻟﺒﻘﺮﺓ: 272]
[الأموال لابن زنجويه : 2290 صحیح]
ﺣﺪﺛﻨﺎ ﺃﺑﻮ ﻣﻮﺳﻰ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ اﻟﻤﺜﻨﻰ، ﻗﺎﻝ: ﺣﺪﺛﻨﺎ ﺃﺑﻮ ﺃﺣﻤﺪ اﻟﺰﺑﻴﺮﻱ، ﻗﺎﻝ: ﺣﺪﺛﻨﺎ ﺳﻔﻴﺎﻥ، ﻋﻦ اﻷﻋﻤﺶ، ﻋﻦ ﺟﻌﻔﺮ ﺑﻦ ﺃﺑﻲ ﻭﺣﺸﻴﺔ، ﻋﻦ ﺳﻌﻴﺪ ﺑﻦ ﺟﺒﻴﺮ، ﻋﻦ اﺑﻦ ﻋﺒﺎﺱ، ﺭﺿﻲ اﻟﻠﻪ ﻋﻨﻬﻤﺎ، ﻗﺎﻝ: ﻛﺎﻧﻮا ﻳﻜﺮﻫﻮﻥ ﺃﻥ ﻳﺮﺿﺨﻮا ﻷﻧﺴﺎﺑﻬﻢ ﻭﻫﻢ ﻣﺸﺮﻛﻮﻥ ﻓﻨﺰﻟﺖ: {ﻟﻴﺲ ﻋﻠﻴﻚ ﻫﺪاﻫﻢ}
ﺣﺘﻰ ﺑﻠﻎ: {ﻭﻣﺎ ﺗﻨﻔﻘﻮا ﻣﻦ ﺧﻴﺮ ﻓﺈﻥ اﻟﻠﻪ ﺑﻪ ﻋﻠﻴﻢ}
ﻓﺮﺧﺺ ﻟﻬﻢ
[مسند البزار: 5042 صحیح]
ﺃﺧﺒﺮﻧﻲ ﺃﺑﻮ ﺑﻜﺮ اﻟﺸﺎﻓﻌﻲ، ﺛﻨﺎ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﻏﺎﻟﺐ، ﺛﻨﺎ ﺃﺑﻮ ﺣﺬﻳﻔﺔ، ﺛﻨﺎ ﺳﻔﻴﺎﻥ، ﻋﻦ ﺟﻌﻔﺮ ﺑﻦ ﺇﻳﺎﺱ، ﻋﻦ ﺳﻌﻴﺪ ﺑﻦ ﺟﺒﻴﺮ، ﻋﻦ اﺑﻦ ﻋﺒﺎﺱ ﺭﺿﻲ اﻟﻠﻪ ﻋﻨﻬﻤﺎ، ﻗﺎﻝ: ﻛﺎﻧﻮا ﻳﻜﺮﻫﻮﻥ ﺃﻥ ﻳﺮﺿﺨﻮا ﻷﻧﺴﺎﺑﻬﻢ، ﻭﻫﻢ ﻣﺸﺮﻛﻮﻥ، ﻓﻨﺰﻟﺖ {ﻟﻴﺲ ﻋﻠﻴﻚ ﻫﺪاﻫﻢ، ﻭﻟﻜﻦ اﻟﻠﻪ ﻳﻬﺪﻱ ﻣﻦ ﻳﺸﺎء}
[اﻟﺒﻘﺮﺓ: 272]
ﺣﺘﻰ ﺑﻠﻎ {ﻭﺃﻧﺘﻢ ﻻ ﺗﻈﻠﻤﻮﻥ}
[اﻟﺒﻘﺮﺓ: 272]
ﻗﺎﻝ: ﻓﺮﺧﺺ ﻟﻬﻢ
ﻫﺬا ﺣﺪﻳﺚ ﺻﺤﻴﺢ اﻹﺳﻨﺎﺩ ﻭﻟﻢ ﻳﺨﺮﺟﺎﻩ
[مستدرک حاکم : 3128]
مزید دیکھیے تفسیر الطبری،تفسیر ابن أبی حاتم الرازی وغیرہ
ﺃﺧﺒﺮﻧﺎ ﺣﻤﻴﺪ ﺃﻧﺎ ﺃﺑﻮ ﻧﻌﻴﻢ، ﺃﻧﺎ ﻋﺒﺪ اﻟﻠﻪ ﺑﻦ ﻣﺮﻭاﻥ( هو الخزاعي)، ﻗﺎﻝ: ﺳﺄﻟﺖ ﻣﺠﺎﻫﺪا ﻗﻠﺖ: ﺭﺟﻞ ﻣﻦ ﺃﻫﻞ اﻟﺸﺮﻙ، ﺑﻴﻨﻲ ﻭﺑﻴﻨﻪ ﻗﺮاﺑﺔ، ﻭﻟﻲ ﻋﻠﻴﻪ ﻣﺎﻝ، ﻓﺄﺩﻋﻪ ﻟﻪ؟ ﻗﺎﻝ: ﻧﻌﻢ، ﻭﺻﻠﻪ
[الأموال لابن زنجويه : 2292 ، صحیح]
امام ابن زنجویہ نے ایک باب یوں قائم کر کے اس کے تحت سلف صالحین کا موقف نقل کیا ہے
ﺑﺎﺏ: اﻟﺴﻨﺔ ﻓﻲ ﺃﻥ ﻻ ﻳﻌﻄﻰ ﻣﻦ اﻟﺰﻛﺎﺓ اﻟﻮاﺟﺒﺔ ﺃﺣﺪ ﻣﻦ اﻟﻤﺸﺮﻛﻴﻦ
مثلا:
أﺧﺒﺮﻧﺎ ﺣﻤﻴﺪ ﺃﻧﺎ ﻭﻫﺐ ﺑﻦ ﺟﺮﻳﺮ، ﺃﻧﺎ ﺷﻌﺒﺔ، ﻋﻦ ﻳﻮﻧﺲ ﺑﻦ ﻋﺒﻴﺪ، ﻋﻦ ﺃﻧﺲ ﺑﻦ ﺳﻴﺮﻳﻦ، ﻋﻦ اﺑﻦ ﻋﻤﺮ، ﺃﻧﻪ ﻗﺎﻝ: ﻻ ﻳﻌﻄﻰ ﻣﻦ اﻟﺰﻛﺎﺓ ﻣﺸﺮﻙ
[الأموال لابن زنجويه : 2280 صحیح]
ﺃﺧﺒﺮﻧﺎ ﺣﻤﻴﺪ ﺃﻧﺎ ﺃﺑﻮ ﻧﻌﻴﻢ، ﺃﻧﺎ ﺣﻤﺎﺩ ﺑﻦ ﺯﻳﺪ، ﻋﻦ ﺃﻳﻮﺏ، ﻋﻦ اﺑﻦ ﺳﻴﺮﻳﻦ ﻗﺎﻝ: ﺳﺌﻞ اﺑﻦ ﻋﻤﺮ ﻋﻦ ” اﻟﺮﺟﻞ، ﻳﻜﻮﻥ ﺑﺎﻟﺮﺳﺘﺎﻕ ﻓﻴﻌﻄﻲ ﺯﻛﺎﺗﻪ ﺃﻭ ﺻﺪﻗﺘﻪ اﻟﺪﻫﺎﻗﻴﻦ؟ ﻗﺎﻝ: ﻣﺎ اﻟﺪﻫﺎﻗﻴﻦ؟ ﻗﺎﻝ: اﻟﻜﻔﺎﺭ، ﻗﺎﻝ: ﻻ ﺗﻌﻂ ﺯﻛﺎﺗﻚ اﻟﻜﻔﺎﺭ
[الأموال لابن زنجويه: 2281 صحیح]
مزید یہی مقام دیکھیے
اس باب کے آخر پر یوں خلاصہ ہے
ﻭﻻ ﺑﺄﺱ ﺃﻥ ﺗﻮﺻﻞ ﺃﺭﺣﺎﻣﻬﻢ، ﻭﻳﺘﻄﻮﻉ ﻋﻠﻴﻬﻢ، ﻭﻳﻮﺻﻰ ﻟﻬﻢ ﻣﻦ ﻏﻴﺮ اﻟﻮاﺟﺐ
[الأمول لابن زنجويه: 2289]
ﺣﺪﺛﻨﺎ ﺃﺑﻮ اﻷﺣﻮﺹ، ﻋﻦ ﺇﺑﺮاﻫﻴﻢ ﺑﻦ ﻣﻬﺎﺟﺮ، ﻗﺎﻝ: ﺳﺄﻟﺖ ﺇﺑﺮاﻫﻴﻢ( هو النخعي)، ﻋﻦ اﻟﺼﺪﻗﺔ ﻋﻠﻰ ﻏﻴﺮ ﺃﻫﻞ اﻹﺳﻼﻡ ﻓﻘﺎﻝ: ﺃﻣﺎ اﻟﺰﻛﺎﺓ ﻓﻼ ﻭﺃﻣﺎ ﺇﻥ ﺷﺎء ﺭﺟﻞ ﺃﻥ ﻳﺘﺼﺪﻕ ﻓﻼ ﺑﺄﺱ
[مصنف ابن أبي شيبة : 10410]
ﺣﺪﺛﻨﺎ ﻭﻛﻴﻊ، ﻋﻦ ﺳﻔﻴﺎﻥ، ﻋﻦ ﺇﺑﺮاﻫﻴﻢ ﺑﻦ ﻣﻬﺎﺟﺮ، ﻋﻦ ﺇﺑﺮاﻫﻴﻢ، ﻗﺎﻝ: ﻻ ﺗﻌﻄﻬﻢ ﻣﻦ اﻟﺰﻛﺎﺓ ﻭﺃﻋﻄﻬﻢ ﻣﻦ اﻟﺘﻄﻮﻉ
[مصنف ابن أبي شيبة:10411 سنده لا بأس به في الآثار]
جبکہ دیگر ادلہ اس کی مؤید ہیں تو یہ بالکل صحیح ہے
ﺣﺪﺛﻨﺎ ﺃﺑﻮ ﻣﻌﺎﻭﻳﺔ، ﻋﻦ ﻣﺴﻌﺮ، ﻋﻦ ﻋﺒﺪ اﻟﻤﻠﻚ ﺑﻦ ﺇﻳﺎﺱ، ﻋﻦ ﺇﺑﺮاﻫﻴﻢ، ﻗﺎﻝ: ﻻ ﺗﻌﻂ اﻟﻤﺸﺮﻛﻴﻦ ﺷﻴﺌﺎ ﻣﻦ اﻟﺰﻛﺎۃ
[مصنف ابن أبي شيبة: 10412 صحيح]
هذا ما عندي والله أعلم بالصواب
فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ