سوال (4496)

فریق اول پلاٹ خریدتا ہے فریق دوم سے، فریق اول پلاٹ خریدنے کے بعد اس پر تعمیراتی کام بھی کروا دیتا ہے اور فریق دوم اس کو وہ جگہ لکھ کر بھی دیتا ہے اس کے نام بھی کر دیتا ہے، فریق دوم جس نے پلاٹ بیچا تھا اس کا بھائی آتا ہے اور وہآ کر دعوی کرتا ہے کہ یہ پلاٹ تو ہم سب کا ہے صرف اس کا نہیں ہے اس نے جو آپ کو ڈاکومنٹس بنا کر دیے ہیں وہ سارے کے سارے جعلی ہیں یہ پلاٹ تو ہمارے والد کی ملکیت ہے اور اس میں ہم سب کا حصہ ہے چنانچہ اصل کاغذات تو ہمارے پاس ہیں تو آپ ہمیں یہ ہمارا پلاٹ واپسی کریں تو فریق اول اب پریشان ہے کہ میں نے یہ پلاٹ خرید لیا تھا جگہ بنا لی تھی اب میرا اس میں کیا قصور ہے تو اہل علم اس مسئلے کا شرعی حل بتائیں اور اس پر ہماری رہنمائی فرمائیں۔

جواب

فریق اول نے پلاٹ خریدا، پیسے دیے، کاغذات لیے، اور تعمیر بھی کی۔ فریق دوم (بیچنے والے) نے ملکیت منتقل کی، لیکن بعد میں اس کا بھائی آیا اور کہا: یہ پلاٹ صرف فریق دوم کا نہیں بلکہ وراثتی ہے۔اصل کاغذات ہمارے پاس ہیں، اور یہ فروخت جعلی کاغذات پر ہوئی ہے۔ ملکیت کا ثبوت: اسلام میں مال یا زمین کی خرید و فروخت تب ہی جائز ہے جب بیچنے والے کو واقعی اس کی مکمل ملکیت حاصل ہو۔

“لَا تَبِعْ مَا لَيْسَ عِنْدَكَ” (ابی داود: 3503)

”اس چیز کو نہ بیچو جو تمہارے پاس نہیں“۔
اگر فریق دوم اس پلاٹ کا اکیلا مالک نہیں تھا، تو اس کو فروخت کرنے کا شرعی حق نہیں تھا، لہٰذا یہ بیع باطل یا فاسد ہو سکتی ہے۔
خریدار (فریق اول) کی نیت اور حالت کے مطابق اگر فریق اول نے یہ زمین نیک نیتی سے خریدی، مناسب تحقیق کی، اور اسے علم نہ تھا کہ یہ زمین مشترکہ ہے یا دستاویزات جعلی ہیں، تو وہ شرعاً مخدوش (مجرم) نہیں ہے۔

قال النبی ﷺ: “إِنَّمَا الْبَيْعُ عَنْ تَرَاضٍ”

“بیع رضامندی سے ہوتی ہے۔”(ابن ماجہ: 2185)
وراثتی زمین تمام ورثاء کی مشترکہ ملکیت ہوتی ہے جب تک تقسیم نہ ہو۔ اس میں سے کوئی ایک شخص تنہا فروخت کا مجاز نہیں ہوتا۔ لہٰذا اگر فریق دوم نے بغیر ورثاء کی اجازت کے پوری زمین فروخت کی، تو یہ بیع شرعاً غیر معتبر ہے۔
جہان تک تعمیرات اور اخراجات کا تعلق ہے تو فریق اول نے جو رقم دی، تعمیر کی، وقت صرف کیا وہ سب ضائع نہیں کیا جا سکتا۔ فقہاء کے مطابق اگر کسی نے غلط معلومات پر ملکیت خرید کر اس میں اصلاحات کی ہوں، تو اس کی قیمت یا معاوضہ دلوانا ضروری ہوتا ہے۔
شرعی حل اور رہنمائی:زمین کے اصل وراثتی کاغذات اور رجسٹریشن ریکارڈ کی عدالت یا متعلقہ محکمے سے تصدیق ضروری ہے۔ اگر ثابت ہو جائے کہ زمین سب کی مشترکہ وراثت ہے، تو بیع منسوخ سمجھی جائے گی اگر وہ نیک نیت سے خریدار تھا، تو اسے رقم کی واپسی، تعمیراتی اخراجات کا معاوضہ، یا زمین میں اس کے حصہ کی ادائیگی یا متبادل دلوانا شرعاً واجب ہے۔
اگر بیچنے والے نے دھوکہ دیا تو وہ شرعاً غاصب (زمین ہڑپنے والا) اور خائن ہے۔ نبی ﷺ نے فرمایا:

“مَنْ غَشَّنَا فَلَيْسَ مِنَّا” (صحیح مسلم: 102)

” جو ہمیں دھوکہ دے وہ ہم میں سے نہیں“۔
اور فرمایا:

“عَلَى الْيَدِ مَا أَخَذَتْ حَتَّى تُؤَدِّيَهُ”(ابی داود: 3561)

” ہاتھ جو کچھ لیتا ہے اس کا ضامن ہوتا ہے، جب تک اسے واپس کرے“۔
لہذا ثبوت اکٹھے کریں خریداری کے دستاویزات، رسیدیں، تعمیراتی اخراجات، گواہان وغیرہ۔متعلقہ ورثاء سے بات کریں اگر وہ مصالحت پر آمادہ ہوں تو تحریری معاہدہ کے ساتھ معاملہ نمٹا لیں۔ قانونی کاروائی بھی کی جا سکتی ہے اگر ضرورت ہو تو۔

فضیلۃ الشیخ فیض الابرار شاہ حفظہ اللہ

عمومی طور پر احادیث مبارکہ میں یہ بات آئی ہے کہ جو اپنی چیز دوسرے بندے کے پاس پائے تو وہ اس کا دوسرے کے مقابلے میں زیادہ حقدار ہے، اس تناظر میں بات ہو سکتی ہے، سوال کے پیش نظر میری رائے یہ ہے کہ کسی اچھے وکیل سے رابطے کرے کہ اس کا قانونی حل کیا ہے، قانوناً اس کو حل کیا جائے، دونوں فریق کو سامنے رکھا جائے تاکہ زیادتی نہ ہو۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ