سوال (4581)
ایک وراثت کا مسئلہ درپیش ہے برائے مہربانی وراثت کے اس مسئلہ کو حل فرمائیں۔
آج سے 20 سال پہلے وراثت کے حصے یہ تھے۔
کل پراپرٹی مالیت: 62 لاکھ
وارثین: 4 بھائی 3 بہنیں ایک والدہ
حصے ایسے بنائے گئے۔
4 بھائی 10×4=40 لاکھ یعنی ایک بھائی کے دس لاکھ
3 بہنیں 5×3=15 لاکھ یعنی ایک بہن کے 5 لاکھ
والدہ کے 7 لاکھ
ان حصوں میں سے جو حصے اس دور میں ایسے بانٹے گئے۔
1 بھائی کو 12 لاکھ کا مکان یعنی اصل حصے سے 2 لاکھ ذیادہ
ایک بھائی کو 15 لاکھ کا پلاٹ یعنی اصل حصے سے 5 لاکھ ذیادہ
اور دو بھائیوں کو 35 لاکھ کی مالیت کا ایک مکان یعنی اصل حصے سے 15 لاکھ ذیادہ
بہنوں نے والدہ کا زیور جس کی مالیت 3 لاکھ 30 ہزار تھی وراثت کے طور پر لیا یعنی ایک بہن کو ایک لاکھ 10 ہزار
والدہ کو جس بھائی کے پاس 15 لاکھ کی مالیت کا پلاٹ تھا بیچ کر 5 لاکھ والدہ کو نقدی دے دی گئی۔
بعد میں ایک بھائی نے جس کے پاس 20 سال پہلے 12 لاکھ کی مالیت کا پلاٹ تھا، پلاٹ بیچا جو 42 لاکھ کا بکا۔ تینوں بہنوں کو اڑھائی اڑھائی لاکھ یعنی ساڑھے 7 لاکھ دئیے۔
اب دو بھائی جن کے پاس 30 لاکھ کی مالیت کا گھر تھا، ان میں سے ایک بھائی فوت ہوگئے ہیں بہنوں نے اس بھائی کے حصے کو جو اس نے بہنوں کو دینا تھا بھتیجوں کیلئے چھوڑ دیا ہے، اب دو بھائی سے ایک جو بقید حیات ہے۔ بہنوں کا حصہ دینا چاہتا ہے، 20 سال پہلے جو 35 لاکھ کا مکان تھا جس میں والدہ کا 2 لاکھ اور بہنوں کا 13 لاکھ تھا اب ایک کروڑ 47 لاکھ کا بکا ہے۔
سائل پوچھنا چاہتا ہے کہ اب وہ بہنوں کو اس میں سے حصہ کیسے دے گا؟
جبکہ بہنیں ہر ایک، ایک لاکھ دس ہزار،اڑھائی لاکھ ایک بھائی سے اور فوت شدہ بھائی سے لینے والا حصہ معاف بھی کر چکی ہیں۔
جواب دے کر عند اللہ مأجور ہوں۔
جواب
اس سوال میں وراثتی اور اخلاقی دونوں امور موجود ہیں۔ بہرحال جو مجھے سمجھ آ رہا ہے اس کے مطابق مسئلہ کچھ ہوں ہے بنیادی اصول تو یہ ہے کہ جب کسی کا انتقال ہوتا ہے تو اس کا مال تمام وارثین میں شرعی حصوں کے مطابق تقسیم ہونا واجب ہوتا ہے۔
والد کی وفات کے بعد وارثین کی کیفیت یہ ہے
4 بھائی
3 بہنیں
والدہ ہیں
لہٰذا
والدہ کا حصہ = 1/8
باقی مال (87.5%) بیٹوں اور بیٹیوں میں 2:1 کے تناسب سے تقسیم ہوتا ہے۔
بیٹے کو بیٹی سے دوگنا ملتا ہے۔
عملا تقسیم کے مطابق
پرانا بٹوارہ (20 سال قبل):
کل مال = 62 لاکھ
4 بھائیوں کو 10×4 = 40 لاکھ
3 بہنوں کو 5×3 = 15 لاکھ
والدہ = 7 لاکھ
یہ تقسیم تقریباً درست تھی بشرط یہ کہ اس وقت کوئی اور وارث نہ ہو۔ مگر اس وقت کچھ بھائیوں کو ان کے اصل حصے سے زیادہ مال دیا گیا، اور کچھ بہنوں کو زیور اور نقدی کے ذریعے دیا گیا۔
اب وہ مکان جو 20 سال پہلے 35 لاکھ کا تھا وہ اب 1 کروڑ 47 لاکھ میں بکا ہے۔ دو بھائیوں نے اس مکان کو استعمال کیا:
ایک فوت ہو چکا
دوسرا بقید حیات ہے اور بہنوں کو ان کا حصہ دینا چاہتا ہے۔
بہنوں نے فوت شدہ بھائی کا حصہ معاف کر دیا۔
ایک لاکھ دس ہزار (زیور) + اڑھائی لاکھ (پلاٹ والا بھائی) پہلے ہی لے چکی ہیں۔
پہلے یہ دیکھا جائے:
اس وقت بیچنے والا مکان کس کی ملکیت میں تھا؟
اگر قانونی/عرفی یا باہمی طور پر وہ دونوں بھائیوں کی ملکیت تھا تو اس قیمت پر بھی ان دونوں کا حق تھا۔ مگر چونکہ اصل میں یہ مکان وراثتی تھا، اس لیے اس کی قیمت میں والدہ اور بہنوں کا حق بھی موجود ہے۔
اب مکان کی قیمت: 1 کروڑ 47 لاکھ
اس میں سے بہنوں کا تناسبی حصہ نکالا جائے گا۔ 20 سال پہلے اس مکان میں بہنوں کا حصہ = 13 لاکھ
مکان کی اُس وقت کی قیمت = 35 لاکھ
بہنوں کا تناسبی حصہ = (13/35) = 37.14%
اب نئی قیمت پر:
1 کروڑ 47 لاکھ × 37.14% = تقریباً 54.58 لاکھ
اس میں سے بہنوں نے پہلے ہی 7.5 لاکھ (اڑھائی × 3) لے لیا۔
اور ہر ایک کو زیور کا 1.10 لاکھ بھی ملا = 3.30 لاکھ
کل = 10.8 لاکھ
باقی: 54.58 – 10.8 = 43.78 لاکھ
چونکہ بہنوں نے فوت شدہ بھائی کا حصہ معاف کر دیا ہے، تو باقی بقید حیات بھائی کو چاہیے:
حالیہ بقید حیات بھائی کو کیا کرنا ہے؟
کل بقایا واجب الادا بہنوں کا حصہ = 43.78 لاکھ
یہ رقم تین بہنوں میں برابر تقسیم ہو گی۔
یعنی ہر بہن کو = 14.59 لاکھ تقریباً
اس بھائی کو اب 14.59 لاکھ × 3 = 43.78 لاکھ بہنوں کو دینے ہوں گے اگر وہ مکمل ادا کرنا چاہتے ہیں۔
جو ساتھی جمع تفریق میں ماہر ہیں وہ حساب کتاب کو چیک کر لیں۔
فضیلۃ الشیخ فیض الابرار شاہ حفظہ اللہ
اس میں کچھ غلطیاں موجود ہیں اور کچھ ابہام موجود ہیں۔
غلطیاں مندرجہ ذیل ہیں۔
1۔ ماں کا پورا آٹھواں حصہ نہیں کیا گیا لیکن یہ اتنی بڑی غلطی نہیں ہے بہت تھوڑا فرق ہے جیسا کہ شیخ فیض الابرار نے بھی لکھا ہے کہ تقریبا درست تقسیم ہے۔
2۔ دوسری غلطی یہ کہ کل پراپرٹی کی مالیت 62 لاکھ لکھی ہے اور تین مکان کی کل قیمت بھی اتنی ہے یعنی بارہ لاکھ جمع پندرہ لاکھ جمع پینتیس لاکھ۔ جو باسٹھ لاکھ ہی بنتے ہیں اب اس میں زیور تو شام ہی نہیں وہ تو لگتا ہے ویسے ہی والدہ کی پراپرٹی ہے پس اسکو تقسیم نہیں کیا جا سکتا۔
3۔ تیسری غلطی یہ کہ وراثت کی تقسیم تب ہوتی ہے جب پیسے دئے جا رہے ہوں پس جب مکان بیچے گئے تھے اس وقت ہر ایک کا حصہ نکالا جانا تھا یعنی بیس سال بعد جب تینوں مکان بیچے گئے تو اس وقت جو مکان کی قیمت لگی اس میں ہر ایک کا حصہ کرنا تھا نہ کہ بیس سال پہلے ہی بہنوں کا حصہ کر دیا مگر انکو دیا بیس سال بعد مکان بیچ کے۔ پس جب مکان بیچا گیا اسی وقت انکا حصہ نکال کر انکو دینا تھا جو نہیں کیا گیا یہ بھائیوں کی لاعلمی یا چالاکی ہے۔ واللہ اعلم
4۔ چوتھی غلطی یہ ہے کہ وراثتی مکان جب تک بیچ کر تقسیم نہیں کر دیا گیا اس وقت تک اسکا کرایہ سب کو دینا لازمی تھا جو نہیں دیا گیا۔
اسی طرح اس میں کچھ ابہامات ہیں۔
پہلا یہ کہ جو پندرہ لاکھ والا مکان بیچا ہے وہ کیا بیس سال پہلے ہی بیچ کر والدہ کو پانچ لاکھ دے دیا تھا یا اب بیس سال بعد بیچا ہے میرے خیال میں جیسے باقی مکان آج بیچے ہیں وہ بھی آج ہی بیچا ہو گا اور پندرہ لاکھ والا تقریبا پچاس لاکھ کا بیچا ہو گا کیونکہ بارہ لاکھ والا بیالیس لاکھ کا بیچا ہے پس میں نیچے کیلکولیشن دیتا ہوں جس میں یہ پندرہ لاکھ والا مکان پچاس لاکھ میں بیچ کر لکھا گیا ہے۔
شرعی لحاظ سے یہ ایک مکمل تقسیم کی گئی ہے اس میں جب جب مکان بکتا گیا اس وقت اسکی قیمت جتنی تھی وہ سب کے حصوں کے مطابق تقسیم کیا جاتا رہا۔
اس میں کل نسبتی مجموعہ 88 ہو گا اس میں والدہ کا 11/88 ہو گا اور ہر بیٹے کا 14/88 حصہ ہو گا اور ہر بیٹی کا 7/88 حصہ ہو گا۔
اس میں لفٹ سائیڈ پہ S1 سے مراد پہلا بیٹا اسی طرح دوسرا تیسرا اور D1 سے مراد پہلی بیٹی اسی طرح دوسری تیسری بیٹی اور M سے مراد ماں ہے۔
اس کے بعد ساتک والے کالم میں Due لکھا ہے یعنی شریعت میں اسکا جو حصہ بنتا تھا وہ لکھا ہے اس میں پھر تین مکان کو علیحدہ لکھا ہے کہ بارہ لاکھ والے میں ہر ایک کا کتنا بنتا تھا جب وہ بیچا گیا اور پندرہ لاکھ والے میں کیا تھا اور پینتیس والے میں کیا بنتا تھا۔
اسکے بعد ساتھ والے کالم میں Paid لکھا ہے جس میں ہر ایک کو ہر مکان میں بیچنے کے وقت کتنا دیا گیا ہے وہ لکھا ہے اور ٹوٹل بھی کیا ہوا ہے۔
اسکے بعد آخر والے دائیں طرف والے کالم میں فرق لکھا ہے کہ کس نے کم یا زیادہ لیا ہے جو سبز ہیں وہ کم لینے والے ہیں اور جو پیلے ہیں وہ زیادہ لینے والے ہیں اس آخری کالم کے مطابق ہر پہلے والے سے اتنے پیسے لے کر سبز والے کو بانٹ دیئے جائیں گے تو نیچے کچھ نہیں بچے گا اور صحیح تقسیم ہو جائے گی۔
اس میں جو بہنوں نے فوت ہونے والے بھائی کی اولاد کو چھوڑا ہے وہ نہیں حساب کیا گیا وہ بہنیں خود ہی اپنی مرضی سے اب جتنا چاہیں چھوڑ سکتی ہیں۔
اگر فوت ہونے والے بھائی کے لئے جو بہنوں نے چھوڑا ہے اسکو بھی حساب میں شامل کرنا چاہتے ہیں تو اوپر والی تقسیم تھوڑی سے تبدیل ہو جائے گی نیچے دیتا ہوں۔
اس میں تیسرے نمبر والا بیٹا جس کو کلر کیا گیا ہے وہ فوت ہوا ہے تو پینتیس لاکھ والے مکان میں بہنوں کو کھاتے میں آدھا حصہ ڈال دیا گیا ہے کہ انہوں نے اس فوت ہونے والے بھائی کے مکان کے بکنے میں اپنا آدھا حصہ چھوڑ دیا یعنی لے لیا جو کل تینوں بہنوں کا سترہ لاکھ بنتا تھا جو بہنوں کو ادائیگی میں شامل کر لیا ہے۔
یہ سوال چونکہ چوتھے بھائی کا تھا تو اس نے اب پینتیس لاکھ تقریبا دینا ہے جس کے حق دار تین لاکھ پہلا بھائی دس دس لاکھ تینوں بہنیں اور چوبین لاکھ والدی ہیں اب وہ اس پینتیس لاکھ کو مناسب لحاظ سے تقسیم کر دے یا صلح صفائی سے تقسیم کر دے یا پھر دوسرے بھائیوں سے بھی اگر نکلوا سکتا ہے تو سارا نکلوا کر سب کو پورا پورا دے دے۔ واللہ اعلم
فضیلۃ الباحث ارشد محمود حفظہ اللہ