سوال (2650)
“و رتل القرآن ” کے تحت شیخ عبدالسلام بھٹوی رحمہ اللہ مندرجہ ذیل روایت لے آئے ہیں۔
سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنھا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قراءت کے بارے میں فرماتی ہیں کہ
”ثُمَّ نَعَتَتْ قِرَاءَتَهُ فَإِذَا هِيَ تَنْعَتُ قِرَاءَةً مُفَسَّرَةً حَرْفًا حَرْفًا” [سنن الترمذي : 2923]
«پھر انہوں نے آپ کے قراءت کی کیفیت بیان کی اور انہوں نے اس کیفیت کو واضح طور پر ایک ایک حرف حرف کر کے بیان کیا»
اب یہ کہا جارہا ہے کہ ایک آیت کو دوسری آیت کے ساتھ ملانا ٹھیک نہیں ہے، اب آیا کہ جس طرح قراء کرام، بالخصوص مصری قراء کرام تلاوت کرتے ہیں، ایک ہی سانس میں کئی کئی آیات پڑھتے ہیں تو کیا ان اس طرح پڑھنا کیسا ہے؟
جواب
اہل علم کے فرمودات کی روشنی میں تلاوت کی تین چیزیں سامنے آئی ہیں۔
(1) : تحقیق
(2) : تدویر
(3) : حدر
ان سے خروج نہیں کرنا چاہیے، فتویٰ بھی اسی پر دیا گیا ہے، اس کے مطابق جو کچھ ہے، وہ صحیح ہے، باقی جو محافل قراءت میں ہو رہا ہے، یہ محل نظر ہے، یہ بات سب نے کی ہے کہ یہ صحیح نہیں ہے، نماز کی قراءت بتا دی گئی ہے، اگر کوئی گنجائش ہے تو نماز کے علاؤہ تھوڑی بہت ہے، ایک ہی سانس میں سورۃ الضحی پڑھنا پھر رگوں کا باہر آنا، اس قدر تکلف کرنا یہ محل نظر ہے۔
فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ