ایک کمینی سی شرارت

حالِ دل :

بحثیت قوم کسی کی خوبی اور کمالات کا کھلے دل سے اعتراف کرتے ہوئے اسے آگے بڑھنے کے مواقع فراہم کرنا ایک ایسا اخلاقی وصف ہے جو ناقدر و کم شناس قوموں اور زوال پزیر معاشروں میں آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں پایا جاتا…شکست و ریخت سے دوچار معاشروں میں نالائق افراد اپنی نالائقی پر پردہ ڈالنے کے لئے قابل اور ذہین افراد کا راستہ روکنے میں ہی اپنی بقا سمجھتے ہیں…اس کے لئے ہر جتن کیا جاتا ہے…کبھی خود سر اور مغرور ہونے کا الزام دھرنا…کبھی اس کے پاس لگا جمگھٹا دیکھ کر ” چور مچائے شور” کے مصداق گروپنگ کا شور مچانا…کبھی صاف گوئی کو بدتمیزی سے معنون کرنا…غلط بات نہ مانی جائے تو توہین کا مرتکب قرار دینا…یہ اور اس طرح کے دیگر الزامات ہمارے ان مخلصین کے بائیں ہاتھ کے کھیل ہیں جو وہ عرصہ دراز سے کامیابی سے کھیلتے آ رہے ہیں…آج خوانندگان محترم کے ساتھ ایک واقعہ اور ایک تجربہ سانجھا کرتا ہوں تاکہ انہیں پتا چلے کہ اس قماش کےلوگوں کی پہچان کیسے کی جاتی ہے.
پہلے واقعہ ملاحظہ فرمائیں :
ابو الکلام آزاد رحمہ اللہ کو پڑھنے کے بعد سب کی طرح میرا فیصلہ بھی لکھاری بننے کا تھا…اس شوق کی تکمیل کے لئے سترہ برس کی عمر میں ہی قلم و قرطاس سے چھیڑ خانی کا سلسلہ شروع کردیا جو تاحال جاری ہے…صوفی گلزار احمد صاحب رحمہ اللہ کے علاوہ
پروفیسر چوہدری محمد یاسین ظفر صاحب
حفظہ اللہ، برادر اکبر مولانا فاروق الرحمٰن یزدانی صاحب حفظہ اللہ اور برادر مکرم مولانا خضر حیات صاحب حفظہ اللہ نے ہمیشہ میری حوصلہ افزائی فرمائی…کچھ احباب نے کچھ اس انداز سے سرپرستی فرمائی کہ ان کے حکم کے موجب تحریر لکھ کر ان کے حضور پیش کی جاتی تو وہ ساری تحریر کے بخیے ہی ادھیڑ دیتے…کبھی اشعار کے برمحل استعمال پہ اعتراض تو کبھی تشبیہات و تلمیحات اور اشاروں، کنایوں پر
ناشائستگی کا الزام…کبھی عبارت سے پارسائی خراب ہونے کا اندیشہ تو کبھی جملے تقوی و طہارت کی راہ میں رکاوٹ…ایک روز مجھے ایک کمینی سی شرارت سوجھی…میں نے شیخ عثيمين رحمہ اللہ کے ایک مضمون کا ترجمہ کرکے ایک ناصحِ ناداں کو نظرِ ثانی کے لیے پیش کردیا…موصوف نے میری دو عدد گناہ گار آنکھوں کے سامنے نظر ثانی کی بجائے نگاہِ غلط انداز ڈالتے ہوئے یک قلم اس تحریر کو ناقابلِ اشاعت قرار دیتے ہوئے اس پر ” کاٹا” پھیر کر داد و تحسین عطا فرمائی…آہ فآہ ثم آہ :
ہوئی جن سے توقع خستگی کی داد پانے کی
وہ ہم سے بھی زیادہ خستۂ تیغ ستم نکلے

اب تجربہ ملاحظہ ہو :
واٹس ایپ گروپس اور دیوار چہرہ پر کبھی” حاصل مطالعہ ” تو کبھی اپنا کچھ لکھا تحریر کیا جاتا ہے جوکہ میری نازک خیالی کا ہی ثمرہ ہوتا ہے…اب ” بڑے بڑے میاں، چھوٹے میاں سبحان اللہ” کے مصداق بڑوں کے تربیت یافتہ لونڈے لپاڑے ” سرقہ” سے لطف اندوز ہوتے ہیں اور بڑی آن بان سے ارسال کردہ پیغامات کو اپنے نام سے معنون کرتے ہیں…کچھ عرصہ تو خاموشی سے سب کچھ دیکھا بلکہ برداشت کیا…اب اس کا حل یہ نکالا کہ بعض الفاظ کی ہجے غلط لکھ دی جائے یا بعض الفاظ ہی غلط لکھ دیے جائیں تاکہ مکھی پر مکھی مارنے والوں کی علمی حقیقت طشت از بام ہو اور ہم ان نادانیوں سے لطف اندوز ہوتے ہوئے اک
” کمینی سی شرارت” کا مزہ لے سکیں.

نثر نگار : حافظ عبد العزيز آزاد

یہ بھی پڑھیں: سیرتِ سیدنا عثمانؓ