سوال (4813)

ایک شخص فوت ہوا ورثاء میں بیوہ، والد، والدہ اور پانچ بہنیں ہیں، کل رقم ایک کروڑ دس لاکھ روپے ہیں، بیوہ کو کتنی رقم ملے گی اور باقیوں کو کتنی رقم ملے گی؟

جواب

فان لم یکن له ولد و ورثه ابواه فلامه الثلث
ولهن الربع مما ترکتم ان لم یکن لکم ولد

ان دو آیتوں میں اسکی تقسیم موجود ہے، یعنی بیوہ کو چوتھا حصہ ماں کو ثلث یا پھر ثلث الباقی اور باقی باپ کا عصبہ کے طور پہ۔

فضیلۃ الباحث ارشد محمود حفظہ اللہ

بیوہ کو چوتھا حصہ والدہ کو چھٹا حصہ باقی بطور عصبہ والد کو اور بہنوں کو کچھ بھی نہیں ملے گا۔
ایک کروڑ دس لاکھ میں سے بیوہ کو 27,50,000 والدہ کو 18,33,333 والد کو 64,16,667
بیوہ اور والدہ کا حصہ تو وراثت میں طے شدہ ہے، باقی والد بہنوں کی نسبت زیادہ حقدار ہے تو أقرب ہونے کے ناطے والد کو وراثت ملے گی اور بہنیں محروم ہوں گی۔

فضیلۃ الباحث طارق وہاڑی حفظہ اللہ

محترم پیارے بھائی اوپر آیت لکھی ہے۔

فان لم یکن له ولد وورثه ابواه فلامه الثلث

پس جب اولاد نہ ہو تو ماں کو تیسرا ھصہ اور باپ عصبہ ہو گا۔ ہاں ماں کا تیسرا صلص الباقی ہو گا یا نہیں اس میں کچھ اختلاف ہے ویسے درست ثلث الباقی ہی ہے۔ واللہ اعلم
آپ نے ماں کو چھٹا لکھا ہے یہ درست نہیں ہے، یہ میں نے شروع میں دو آیتیں لکھی تھیں۔
اسکے مطابق بیوی کو تو ہر صورت 2750000 ملے گا۔
البتہ ماں کو اگر ثلث الباقی ملے تو وہ بھی 2750000 بنے گا۔
البتہ اگر ماں تو خالی ثلث ملے تو وہ 3666666 ملے گا۔
باقی پاب کو ملے گا۔

فضیلۃ الباحث ارشد محمود حفظہ اللہ

آیت مبارکہ کے جو الفاظ آپ نے لکھے اسی آیت مں اس کے بالکل ساتھ والے الفاظ ہیں فان کان لہ اخوۃ فلامہ السدس اگر میت کے بہن بھائی موجود ہوں تو والدہ کا چھٹا حصہ ہے،

فان لم یکن لہ ولد و ورثہ ابواہ فلامہ الثلث

کا ترجمہ یہ ہے کہ: اگر میت کی اولاد نہ ہو اور ورثاء میں صرف والدین ہوں تو ماں کا تیسرا حصہ
(فان کان لہ اخوۃ فلامہ السدس) اگر میت کے بہن بھائی موجود ہوں تو والدہ کا چھٹا حصہ ہے

فضیلۃ الباحث طارق رشید وہاڑی حفظہ اللہ

8۔ فَاِنْ كَانَ لَه اِخْوَةٌ:

یہ ماں باپ کی تیسری حالت کا بیان ہے، یعنی اگر میت کی کوئی اولاد نہ ہو، ماں باپ کے علاوہ بھائی بھی ہوں (خواہ ماں باپ دونوں سے یا صرف ماں سے یا صرف باپ سے) تو باپ کی موجودگی میں انھیں حصہ تو نہیں ملے گا، البتہ وہ ماں کا حصہ تہائی سے چھٹا کر دیں گے اور اگر ماں کے ساتھ سوائے باپ کے کوئی دوسرا وارث نہ ہو تو بقیہ سارا ۶؍۵ حصہ باپ کو مل جائے گا۔ یاد رہے کہ ’’اِخْوَةٌ ‘‘ کا لفظ جمع ہے اور یہ جمہور علماء کے نزدیک دو کو بھی شامل ہے، لہٰذا اگر صرف ایک بھائی ہو تو وہ ماں کا تہائی سے چھٹا حصہ نہیں کر سکتا۔ ( ابن کثیر)

فضیلۃ الباحث ارشد محمود حفظہ اللہ

جمع کا صیغہ بغیر تخصیص کے ہو تو اس میں مذکر و مونث دونوں شامل ہو سکتے ہیں لہذا یہاں اخوۃ میں بھائی اور بہنیں دونوں شامل ہیں عبدالسلام بھٹوی صاحب کی تفسیر میں بھی بہن کا انکار موجود نہیں ہے اس کے علاوہ صلاح الدین یوسف صاحب صاحب کی تفسیر بھی یہی ہے کہ موجودہ صورت میں ماں کا چھٹا حصہ ہے اور اسی طرح ماہر وراثت الشیخ ابو نعمان بشیر صاحب نے بھی یہی بات لکھی ہے۔
مزید علماء کرام اور شیوخ عظام سے بھی درخواست ہے کہ اس مسئلہ میں رہنمائی فرما دیں

فضیلۃ الباحث طارق رشید وہاڑی حفظہ اللہ