سوال (1083)
بندہ عمرہ ادا کر چکا ہے ، تیس دن کا قیام ہے ، دوسری یا تیسری بار جب بھی عمرہ کرنے کا ارادہ کرے گا تو احرام کہاں سے باندھے گا ؟
جواب
قريب ترین حل پر جاکر جہاں میقات ہو، وہاں سے احرام باندھ کر آئے اور عمرہ کرلے۔
عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا أَنَّهَا قَالَتْ يَا رَسُولَ اللَّهِ اعْتَمَرْتُمْ وَلَمْ أَعْتَمِرْ فَقَالَ يَا عَبْدَ الرَّحْمَنِ اذْهَبْ بِأُخْتِكَ فَأَعْمِرْهَا مِنْ التَّنْعِيمِ فَأَحْقَبَهَا عَلَى نَاقَةٍ فَاعْتَمَرَتْ [صحيح البخاری:1518]
’’عائشہ رضی اللہ عنہا کہا یا رسول اللہ! آپ لوگوں نے تو عمرہ کرلیا لیکن میں نہ کرسکی۔اس لیے آنحضور ﷺ نے فرمایا: “عبدالرحمٰن اپنی بہن کو لے جا اور انہیں تنعیم سے عمرہ کرالا” چنانچہ انہوں نے عائشہ رضی اللہ عنہا کو اپنے اونٹ کے پیچھے بٹھا لیا اور عائشہ رضی اللہ عنہ نے عمرہ ادا کیا ہے ‘‘۔
میقات مندرجہ ذیل ہیں :
(1) : ذوالحلیفہ : اہل مدینہ کے لیے اور اس راستے سے داخل ہونے والے سب کے لیے ہے۔
(2) : جحفہ : اہل شام کے لیے اور اس راستے سے داخل ہونے والوں کے لیے ہے ۔
(3) : ذات عرق :اہل عراق کے لیے اور اس راستے سے داخل ہونے والوں کے لیے ہے ۔
(4) : قرن المنازل : اہل نجد کے لیے اور اس راستے سے داخل ہونے والوں کے لیے ہے ۔
(5) : یلملم : اہل یمن کے لیے اور اس راستے سے داخل ہونے والوں کے لیے ہے ۔
میقات سارے ہی مکہ مکرمہ سے باہر ہیں، اور آپ مسجد عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا سے احرام باندھ سکتے ہیں، اور جن مواقیت کا میں نے ذکر کیا ہے ان میں سے کسی پر جا کر احرام باندھ کر عمرہ کرنا افضل ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
فضیلۃ الباحث عبد الخالق سیف حفظہ اللہ
اماں جی ہی سے موقوفا وارد ہے کہ جب وہ عمرہ کے لئے تشریف لاتیں تو میقات پر جاتیں۔
(1) اس سے ثابت ہوا ایک سفر میں ایک سے زائد عمرے ادا کرنا جائز ہے۔
(2) اماں جی میقات پر جاتیں۔
سلف سے دونوں طرح وارد ہے۔
بعض تنعیم کو خاص موقع کی وجہ سے خاص کرتے(یعنی حائضہ عورت کے ساتھ) اور بعض وہاں سے مطلقا عمرہ کے قائل تھے۔
ہر دو کے اقوال مصنف ابن ابی شیبہ و مصنف عبدالرزاق میں موجود ہیں۔
اسی پر بعد کے آئمہ کے ہاں اختلاف واقع ہوا۔
امام شافعی تنعیم(مسجد عائشہ) سے جو حدود حرم سے باہر ہے سے احرام باندھنے کے قائل ہیں۔
افضل و بہتر میقات پر جانا ہے۔
کم از کم حدود حرم سے باہر جائے اور احرام باندھ کر حدود میں داخل ہو جائے اور عمرہ ادا کرے۔
ذات عرق کو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے مقرر فرمایا۔
فضیلۃ الباحث اسامہ شوکت حفظہ اللہ
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا بیان کرتی ہیں :
“أن النبيَّ ﷺ وقَّتَ لأهلِ العراقِ ذاتَ عرقٍ”
[حاشية بلوغ المرام لابن باز ، أخرجه البيهقي في معرفة السنن والآثار : ٩٤٠٩)واللفظ له، أخرجه أبو داود : ١٧٣٩ باختلاف يسير، والنسائي : ٢٦٥٣ مطولاً باختلاف يسير]
فضیلۃ االباحث عبد الخالق سیف حفظہ اللہ
یہ حدیث معلول ہے صحیح بات یہ ہے کہ اسے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے مقرر فرمایا تھا اور بعد میں اسی پر عمل ہے بعض علماء نے اس کے میقات ہونے پر اجماع نقل کیا ہے۔
فضیلۃ الباحث واجد اقبال حفظہ اللہ
العلة؟
فضیلۃ الباحث عبد الخالق سیف حفظہ اللہ
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے اس کو منکر قرار دیا ہے . امام مسلم رحمہ اللہ فرماتے ہیں “ذات عرق ” کے بارے میں ایک بھی حدیث ثابت نہیں ہے .امام دار قطنی رحمہ اللہ فرماتے ہیں (ذات عرق اہل عراق کا میقات ہے) یہ محل نظر ہے.امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں محدثین کے نزدیک ان احادیث میں سے کوئی بھی ثابت نہیں.امام ابن منذر رحمہ اللہ فرماتے ہیں ذات عرق کے بارے میں ہم کوئی صحیح حدیث نہیں پاتے. شیخ المعلمی الیمانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں امام مسلم رحمہ اللہ کا صنیع یہ تقاضا کرتا ہے کہ شاید ان کے نزدیک یہ حدیث مرفوعا ثابت نہیں ہے.
فضیلۃ الباحث واجد اقبال حفظہ اللہ
ذات عرق ميقات أهل العراق بالاجماع وقت اصحاب رسول الله ۔
فضیلۃ الباحث داؤد اسماعیل حفظہ اللہ
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ذات عرق کو میقات مقرر کرنا ثابت نہیں ، عراق عہد رسول میں موجود نہ تھا اور نہ وہاں اسلام پہنچا تھا ، اور نہ وہاں سے حجاج کا آنا ثابت ہے ، یہ عہد عمر میں ہوا اور عمر رضی اللہ عنہ نے ہی ذات عرق کو میقات مقرر کیا ، روایات کی علل اوپر تفصیلا ارسال کر دی گئی ہیں ۔
فضیلۃ الباحث اسامہ شوکت حفظہ اللہ