سوال (1316)
ایک شخص نے شدید غصے کی حالت میں اپنی بیوی کو ایک طلاق چھ ماہ پہلے دی ہے ، پھر رجوع کر لیا ہے ، پھر گزشتہ ہفتے میں دوسری طلاق دی اور آٹھ دن گزرنے کے بعد تیسری طلاق دے دی ہے ، دوسری اور تیسری طلاق ایک ہی طہر میں دی ہے ، اب دونوں پشیمان ہیں ، کیا رجوع ہو سکتا ہے ؟
جواب
ہم سلفی علماء کبار و صغار بالخصوص برصغیر پاک و ہند کا امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے دور سے لے کر آج تک یہ فتویٰ رہا ہے کہ ایک طہر میں بندہ اگر ایک سے زیادہ طلاق دے تو بغیر رجوع کے طلاق واقع نہیں ہوتی ہے ، یعنی پہ در پہ طلاق دے ، بھلے بیچ میں دو دن کا وقفہ ہو ، ہمارے ہاں جو مجلس کا تعین کیا گیا ہے ، وہ ایک حیض کہہ لیں یا ایک طہر کہہ لیں ، یعنی ایک طلاق ایک طہر میں ہو ، دوسری طلاق دوسرے طہر میں تو پھر شمار کی جاتی ہے ، عام طور پر ابھی تک یہی فتویٰ چل رہا تھا ، اور چل رہا ہے ، اور آگے بھی ان شاءاللہ چلے گا ، لیکن اب کچھ اس طرح کی باتیں سامنےآ رہی ہیں کہ مجلس اور محفل بدل جائے تو حکم بھی بدل جائے گا ، اور یہ بات بھی ہے کہ رجوع کے بغیر دوسری اور تیسری واقع نہیں ہوتی ہے ، یہ بھی ایک موقف دیکھنے میں آیا ہے ، بہرحال ہمارے ہاں مجلس سے مراد یہی لیا گیا تھا کہ مجلس سے مراد ایک ماہانہ ایام ہیں یعنی جس کو ہم حیض کہتے ہیں ، اس پر فتویٰ بہرحال دینا چاہیے ، جمہور سلفی حضرات کا یہی موقف ہے ۔
علامہ رئیس ندوی رحمہ اللہ کا “تنویر الآفاق فی مسئلۃ الطلاق” کا ایک دفعہ مطالعہ کرنا چاہیے ، اس میں یہ بحث ہے کہ ہمارے ہاں ایک مجلس سے مراد کیا ہے ۔
فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ
6 ماہ پہلے دی طلاق کے بعد رجوع کتنے عرصہ بعد کیا ہے ؟
فضیلۃ العالم اکرام اللہ واحدی حفظہ اللہ
دوسری طلاق کے بعد رجوع نہیں کیا ہے ؟
دو تین دن بعد طلاق واقع ہو چکی ہے ، دوسری کے بعد رجوع کیے بغیر تیسری دی ہے ، مجلس کی تبدیلی ہو گئی تو تیسری بھی ہو گئی ، البتہ بعض بغیر رجوع کے طلاق واقع نہیں سمجھتے ہیں ۔
فضیلۃ العالم اکرام اللہ واحدی حفظہ اللہ
سائل : شیخ بعض علماء نے ایک مجلس کا معنی پوری عدت لی ہے ، نیز انہوں نے حدیث رکانہ کو داؤد بن حصین عن عکرمہ کی وجہ سے ضعیف کہا ہے ۔
قال علي بن المديني: ما روى عن عكرمة فمنكر الحديث.
وقال أيضا : مرسل الشعبي أحب إلى من داود ، عن عكرمة ، عن ابن عباس۔
ابو داؤد: أحاديثه عن عكرمة مناكير ، وأحاديثه عن شيوخه مستقيمة
جواب :
جی جی ایسا بھی ہے۔
فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ
اللہ تعالیٰ نے سورہ طلاق کے شروع میں طلاق کا جو طریقہ بیان کیا اور اس کے بعد عدت کا حکم دیا ہے ، طلاق کے بعد عدت کا آغاز شرعی حکم سے ہوتا ہے، عورت عدت پوری کرے۔
دوران عدت اگر کوئی طلاق دیتا ہے تو پہلی طلاق کی عدت کس شرعی حکم سے ختم ہو گی؟
اگر پہلی طلاق کی درمیان میں عدت ختم نہیں ہوئی تو دوسری طلاق کی عدت کب شروع ہو گی؟ حالانکہ طلاق کے بعد عدت کا حکم ہے۔
اگر سورہ طلاق کی روشنی میں اصول طے کیا جائے تو شرعی حکم میں بھی خرابی نہیں آتی اور اللہ تعالیٰ نے جو زوجین کیلیے سوچ بچار کی رعایت رکھی ہے اس سے بھی مکمل استفادہ کا موقع مل سکتا ہے۔
باقی مجلس کی بحث تو وہ کوئی اصطلاحی لفظ کسی نص میں نہیں آیا، یہ لفظ ہمارا ہی طے کیا ہوا ہے۔
اس طریقہ کار کی تائید سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے بھی ثابت ہے۔ ابن ابی شیبہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
(( حَدَّثَنَا وَكِيْعٌ، عَنْ إِسْرَائِيْلَ، عَنْ أَبِيْ إِسْحَاقَ، عَنْ أَبِي الْأَحْوَصِ، عَنْ عَبْدِ اللّٰهِ قَالَ مَنْ أَرَادَ الطَّلاَقَ الَّذِيْ هُوَ الطَّلاَقُ فَلْيُطَلِّقْهَا تَطْلِيْقَةً، ثُمَّ يَدَعُهَا حَتّٰی تَحِيْضَ ثَلاَثَ حِيَضٍ )) [مصنف ابن أبي شیبۃ، الطلاق، باب ما یستحب من طلاق السنۃ : 4؍5، ح : ۱۸۰۳۶ ]
’’عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا : ’’جو شخص طلاق دینا چاہے، جو اصل طلاق ہے، وہ عورت کو ایک طلاق دے، پھر اسے اس کے حال پر چھوڑ دے یہاں تک کہ اسے تین حیض آ جائیں۔‘‘
امید ہے اہل علم اس پر مزید غور وخوض کریں گے۔
فضیلۃ العالم عبد الرحیم حفظہ اللہ
“ایک طلاق کے بعد رجوع کئے بغیردوبارہ طلاق دینا”
امام مالک رحمہ اللہ کہتے ہیں کی طلاق مسنون کی شرط ہے کہ دوران عدت دوسری طلاق نا دے۔
امام ابوحنیفہ کہتےہیں کہ اگر ہر طہر میں ایک طلاق دے تو یہ طلاق مسنون ہو گی۔
دراصل اختلاف اس وجہ سے ہے کہ کیا طلاق سنت کی شرائط میں یہ شرط بھی داخل ہے کہ وہ رجوع کے بعد حالت زوجیت میں طلاق ہو یا یہ شرط نہیں ہے؟
جن فقہاء کے نزدیک یہ شرط نہیں ہے وہ دوران عدت طلاق دینے کو حرج نہیں سمجھتے اور جن فقہاء کے نزدیک یہ شرط ہے وہ کہتے ہیں کہ دوران عدت طلاق دینا طلاق مسنون نہیں ہے۔
البتہ اس بات میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ اگر وہ طلاق دے دےتو واقع ہو جائے گی۔(بدایة المجتھد:کتاب الطلاق)
ارشاد باری تعالٰی ہے
الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ …………
یہ طلاق (رجعی) دو بار ہے، پھر یا تو اچھے طریقے سے رکھ لینا ہے، یا نیکی کے ساتھ چھوڑ دینا ہے۔۔۔
اس آیت میں اللہ تعالی نے فرمایا کہ طلاق رجعی یعنی وہ طلاق جس کے بعد آدمی رجوع کر سکتا ہے وہ دو بار ہےمطلب کہ اگر پہلی طلاق دی ہے تو اس کے بعد (دوران عدت)رجوع کا حق حاصل ہےلیکن اگر اس دوران بھی طلاق ہی دینی ہے توپھر طلاق رجعی کا کیا مطلب ہوا۔۔۔اب یہاں چند باتیں غور طلب ہیں ۔
1⃣یہاں سے معلوم ہورہا ہےکہ عدت کا مقاصد میں سے ایک مقصد بلکہ مقصدِ عدت ہی یہ ہےکہ خاوند بیوی رجوع کر لیں اور خود رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اپنی ازواج میں سے کسی کو طلاق دی اور دوران عدت ہی رجوع کر لیا ۔
[ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ طَلَّقَ حَفْصَةَ ثُمَّ رَاجَعَهَا ] [ أبو داوٗد، الطلاق، باب في المراجعۃ : ۲۲۸۳، وقال الألباني صحیح ]
’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حفصہ( رضی اللہ عنھا ) کو طلاق دے دی، پھر ان سے رجوع کر لیا۔‘‘
ورنہ اللہ تعالی یہ بھی کہ سکتے تھے کہ طلاق کے بعد رجوع کا حق حاصل نہیں ہے بلکہ دوبارہ نکاح ہو گا یا اس کے اور کوئی متبادل صورت لیکن اللہ تعالی نے الطلاق مرتان کا لفظ بول کر دو بار اسے یہ حق دیا ہے کہ وہ عورت سے دوسری بار طلاق دینے کے بعد بھی رجوع کر سکتا ہے مقصد یہ مزید لڑائی اور جھگڑے کی طرف نا جائیں اور اگر اس کے بعد بھی عدت کے اندر طلاق دینی ہے تو پھر یہ مقصد ہی فوت ہو گیا اور رائیگاں چلا گیا ۔
2️⃣دوسری بات اس آیت کے اگلے حصے میں موجود ہے
فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ …..
مطلب کہ طلاق کے بعد یا تو اچھے طریقے سے رکھو مطلب کہ عدت کے اندر اندر رجوع کر لو یا پھر اچھے طریقے سے چھوڑ دو اچھے طریقے سے چھوڑنے کا مطلب یہ ہے کہ عدت پوری کرے اور گھر چلی جائے اور دوران عدت طلاق دینا ان میں سے کسی زمرے میں بھی نہیں آتا نا ہی وہ وہ امساک بالمعروف ہے اور ناہی تسریح باحسان ہے تو گویا عدت کے اندر دوسری طلاق دینا اس آیت کی واضح خلاف ورزی ہے۔
3️⃣تیسری بات یہ کہ اللہ تعالی نے فرمایا
يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَطَلِّقُوهُنَّ لِعِدَّتِهِنَّ وَأَحْصُوا الْعِدَّةَ وَاتَّقُوا اللَّهَ رَبَّكُمْ لَا تُخْرِجُوهُنَّ مِنْ بُيُوتِهِنَّ وَلَا يَخْرُجْنَ إِلَّا أَنْ يَأْتِينَ بِفَاحِشَةٍ مُبَيِّنَةٍ وَتِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ وَمَنْ يَتَعَدَّ حُدُودَ اللَّهِ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَهُ لَا تَدْرِي لَعَلَّ اللَّهَ يُحْدِثُ بَعْدَ ذَلِكَ أَمْرًا
اے نبی! جب تم عورتوں کو طلاق دو تو انھیں ان کی عدت کے وقت طلاق دو اور عدت کو گنو اور اللہ سے ڈرو جو تمھارا رب ہے، نہ تم انھیں ان کے گھروں سے نکالو اور نہ وہ نکلیں مگر یہ کہ کوئی کھلی بے حیائی (عمل میں) لائیں۔ اور یہ اللہ کی حدیں ہیں اور جو اللہ کی حدوں سے آگے بڑھے تو یقینا اس نے اپنے آپ پر ظلم کیا۔ تو نہیں جانتا شاید اللہ اس کے بعد کوئی نئی بات پیدا کر دے۔
اس آیت میں وضاحت یہ کہ اپنی بیویوں کو طلاق دینے کے بعد ان کو گھر سے نہیں نکالنا بلکہ ان کو گھر میں ہی رکھنا ہے مگر یہ کہ وہ کوئی واضح بے حیائی ا رتکاب کریں اور پھر فرمایا کہ یہ اللہ کی حدود ہیں معلوم ہوا کہ گھر سے نہیں نکالنا مگر کیوں نہیں نکالنا؟ اس کی بھی کوئی وجہ ہو گی یقینا ۔۔۔ایک وجہ یہ بھی ہے کہ خاوند بیوی ایک گھر میں ہی رہیں گے تاکہ کسی بھی پہلو پر وہ رجوع کر سکیں کسی فرد کو دوسرے کی کوئی بات بھلی لگے تو وہ اس سے اس بات پر خوش ہو کر ناراضی کو ختم کر دے اور رجوع کر لے لیکن اگر وہ عدت میں بھی طلاق ہی دے گا تو بیوی کو عدت میں گھر رکھنے کا یہ مقصد فوت ہو جائیگا۔
4️⃣ایک اورقباحت یہ بھی ہے کہ اگر خاوند بیوی کو دوران عدت طلاق دےد یتا ہے جبکہ وہ ابھی پچھلی طلاق کی عدت گزار رہی ہے تو اس طرح عورت کو زیادہ عرصہ عدت گزارنا پڑے گی اور وہ تنگی محسوس کرے گی اور یہ بھی امساک بالمعروف اور تسریح باحسان کے مخالف ہے اگر خاوند بیوی کو رکھنا ہی نہیں چاہتا وہ عدت کے بعد گھر جاسکتی ہے رجوع نا کرے لیکن اس کو پھر طلاق پر طلاق دینالغو ہےجیسے ملاعَنہ کو طلاق دینا لغو ہے۔
فضیلۃ الباحث عبداللہ حسن حفظہ اللہ
ایسا قول سیدنا علی رضی اللہ سے بھی آیا ہے۔
اس پر علماء نے باب قائم کیا “ما یستحب من طلاق السنة وكيف هو” لیکن اگر سنت طریقے کی مخالفت کرے تو طلاق واقع ہو گی یا نہیں جہاں پھر آراء مختلف فیہ ہوتی ہیں!
فضیلۃ الباحث اسامہ شوکت حفظہ اللہ