سوال (5770)
جسے ایمان میں شک ہو جائے وہ کیا کرے۔ اس سے کیا مراد ہے؟
جواب
ایمان میں شک ہو جائے تو شک کو دور کر دیں. یعنی ایسے کام کریں، جن سے ایمان مضبوط اور شک دور ہو. الفاظ بولیں جیسا کہ آمنت بالله و ملائکته… تمام ارکان ایمان اسی طرح دہرائیں.
عبادات پر توجہ دیں، برائیوں سے دور ہونے کی کوشش کریں.
فضیلۃ العالم حافظ خضر حیات حفظہ اللہ
شک ایک وسوسہ ہے۔ وسوسہ ایک خیال ہے۔ خیال محض ایک خیال ہے۔ وہ حقیقت نہیں ہے۔ حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ خیال، وسوسہ یا شک ہمیشہ حقیقت کے روپ میں سامنے آتا ہے۔ وہ آپ سے یہ جھوٹ بولتا ہے کہ میں حقیقت ہوں، مجھے حقیقت مانو، میری ہدایات کے مطابق عمل کرو ورنہ میں تمھیں گھبرایٹ میں مبتلا کروں گا۔ وہ آپ کو خوفزدہ کرتا ہے۔ اب آپ کو کیا کرنا ہے۔ سب سے پہلے آپ اپنے ذہن کو خیال اور حقیقت میں فرق کرنا سکھائیں گے۔ آپ بار بار خود سے کہیں گے کہ جو کچھ تم سوچ رہے ہو وہ حقیقت نہیں ہے۔ وہ محض ایک خیال ہے۔ اس کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔ اس کے بعد آپ رک جائیں گے اور رد عمل نہیں دیں گے جس کا مطلب یہ ہے کہ آپ وسوسے کے بارے میں نہیں سوچیں گے، آپ اس کا جواب نہیں دیں گے۔ آپ اس سے نہیں لڑیں گے۔ یہ سوچ کر نہیں گھبرائیں گے کہ مجھے یہ خیال کیوں آ گیا۔ یاد رکھیں ہمارے خیالات معاف ہیں جب تک ہم ان پر عمل نہ کریں۔ آپ وسوسے کی کسی ہدایت پر عمل نہیں کریں گے بلکہ اس کے خلاف عمل کریں گے۔ ساتھ ہی ایمان باللہ پر مبنی مثبت جملوں کا ارادہ کریں گے۔ یاد رکھیں اگر آپ نے وسوسے کا جواب دینے کی کوشش کی تو وہ آپ کو جواب در جواب میں الجھا کر مزید پریشان کرے گا۔ مزید براں وسوسے کو خود سے الگ کریں۔ یہ کہیں کہ یہ میری ذاتی سوچ نہیں ہے۔ یہ وسوسہ ہے جس کا میں غلام نہیں ہوں۔ میں صرف اللہ کا بندہ ہوں جس نے مجھے بتایا ہے کہ گمان سب سے بڑا جھوٹ ہوتا ہے۔ اس سب کے نتیجے میں آپ کو گھبراہٹ ہوگی لیکن آپ اسے برداشت کریں۔ ٹھنڈا پانی پی لیں۔ واک پر چلے جائیں۔ کسی کام میں مصروف ہو جائیں۔ یہ وسوسے کی پیدا کی ہوئی مصنوعی گھبراہت ہے جو خود ہی کم ہو جاے گی۔
اگر خیالات بہت زیادہ اور بار بار آ رہے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ کا دماغ اوور ڈرائیو کر رہا ہے۔ یعنی اسے ساٹھ کی سپیڈ پر جانا چاہیے لیکن وہ ایک سو بیس کی سپیڈ پر بھاگ رہا ہے۔ اس کے لیے پھر میڈیسن ہے۔ Flouxitine 20mg روزانہ ایک گولی دو مہینے استعمال کریں۔
یہ کیسے پتہ چلا کہ وہ وسوسہ ہے اور وہ آپ کی ذاتی سوچ نہیں ہے۔ وہ اگر آپ کی اپنی سوچ ہوتی تو آپ پریشان نہ ہوتے۔ آپ گھبراتے نہیں۔ آپ گھبرا رہے ہیں جو ثبوت ہے اس بات کا کہ وہ آپ نہیں ہیں۔
فضیلۃ العالم حافظ قمر حسن حفظہ اللہ
معوذتین مسنون اوقات میں مسنون عدد میں پڑھی جائیں، آیت الکرسی مسنون اوقات میں پڑھنے کا اہتمام کیا جائے۔
فضیلۃ الشیخ فیض الابرار شاہ حفظہ اللہ
اس طرح سورہ ھود اور سورہ ضحی صبح شام پڑھ لیا کریں۔
فضیلۃ العالم حافظ قمر حسن حفظہ اللہ
بھائی سوال میں ابہام ہے۔ پہلے پوچھا جسے ایمان میں شک ہو جائے وہ کیا کرے؟
آگے لکھتے ہیں کہ اس سے کیا مراد ہے؟
اب ابہام دوسرے جملہ میں ہے اگر دوسرے جملہ کا معنی ہے کہ پہلے جملہ سے کیا مراد ہے تو پھر پہلا جملہ سوال نہیں رہتا اور دوسرے جملے کے جواب کی ضرورت ہی نہیں کیونکہ پہلا جملہ بالکل کلیئر ہے۔
اگر دوسرے جملے میں پوچھا ہے کہ ایمان سے کیا مراد ہے تو پھر یہ دو سوال بنیں گے۔
پہلا کہ ایمان پہ شک ہو تو کیا کرے، دوسرا ایمان سے کیا مراد ہے۔
پہلے کا جواب یہ ہے کہ ایمان میں انسان کو شک تب ہو گا جب ایمان کی اسکے سامنے کوئی شکل ہو گی کہ ایمان کیا ہوتا ہے اور اسی میں دوسرے سوال کا جواب بھی آجاتا ہے پس پہلے ایمان کی شاخیں و اجزا بتانا چاہوں گا۔
ایمان کی کئی شاخیں ہیں ان میں اللہ ہی ایمان لانا رسولوں پہ کتابوں پہ فرشتوں پہ آخرت پہ تقدیر پہ ایمان لانا ہے اسی طرح اور کئی شاخیں ہیں۔
اسی طرح ایمان کے اجزا بھی ہیں جو تین ہیں۔
پہلا تصدیق بالقلب دوسرا اقرار بالسان تیسرا عمل بالجوارح ہے۔
اب امام بخآری نے ایک باب باندھا ہے کہ العلم قبل العمل والقول کہ عمل اور قول سے پہلے علم حاصل کرنا لازم ہے۔ تو آپ کو پہلے تو اوپر ایمان کی شاخوں اور اس کے اجزا کا مکمل شرعی علم ہونا چاہیے کہ اللہ پہ ایمان لانا کیا ہے رسولوں پہ کیسے لانا ہے وغیرہ۔
پھر دیکھنا ہے کہ آپ نے کون سی شاخ میں کمی چھوڑی ہے اور کس جز کے لحاظ سے اس ایمان کی شاخ میں کمی چھوڑی ہے جو آپ کو محسوس ہو رہی ہے۔
مثلا ایک نئے بریلوی سے اہل حدیث کو اللہ کے اکیلے مشکل کشا ہونے پہ شک ہو سکتا ہے ایک شیعہ کو صحابہ کے عدول ہونے پہ شک ہو سکتا ہے ایک نو مسلم کو کتابوں پہ شک ہو سکتا ہے اور ایک اھل حدیث مسلمان کو عمومی طور پہ آخرت پہ شک ہو سکتا ہے۔
پس اگر آ پکو پہلے یہ تعین کرنا ہے کہ آپ کو شک کس معاملے میں ہے۔
معاملے کا تعین ہو جانے کے بعد آپ کو یہ تعین کرنا ہے کہ یہ شک علم کی کمی کی وجہ سے ہے جیسے ولا الضالین کو تھا تو گمراہ لوگوں کی دلیلوں کا مستند علما سے توڑ پوچھنا چاہیے مثلا مرزا کی صحابہ کے خلاف دلیلوں کا توڑ یا جاوید غامدی کی حدیث کے خلاف دلیلوں کا توڑ وغیرہ۔
اور اگر مسئلہ علم کی کمی نہیں بلکہ نفس کا ہو یعنی آخرت کے یقین کا ہو تو پھر تین اہم کام کیے جائیں جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کیے، پہلا کام ثابت قدمی کے لیے قرآن اور صحابہ کے قصے پڑھیں۔
دوسرا طریقہ ثابت قدمی کا یہ ہے کہ اپنی کمپنی درست کریں جیسا کہ بخاری کی مشہور عطر والے اور بھٹی والے کی مثال بتا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سمجھایا ہے۔
تیسری چیز اللہ سے راتوں کو اٹھ کر دعا ہے کہ اللہ کے فضل کے اور توفیق کے بغیر یہ کچھ بھی ممکن نہیں
امید ہے کچھ فائدہ ہو گا۔
فضیلۃ العالم ارشد حفظہ اللہ