انجینئیر محمد علی مرزا کی گرفتاری اور مختلف مکاتبِ فکر کے علما کے مختلف احساسات
——————————————
علم اور فن ہر دو حالتوں میں راہِ حق ان کے ماہرین و اساتذہ سے ہی حاصل ہوتا ہے، اگر کوئی یہ دعویٰ کرتا ہے کہ وہ علم کو بغیر کسی مربی یا استاذ کے محض کتب کے مطالعہ سے حاصل کر سکتا ہے تو یہ بات اپنی نہاد میں کوئی حقیقت نہیں رکھتی اور یہ ایک بدیہی نیریشن ہے۔
اب جاننا یہ ہے کہ علمِ شرعی کن اساتذہ و علما سے لیا جائے؟ تو اس کے لیے تین نکاتی معیار یا کسوٹی قابلِ التفات و توجہ ہے۔
1۔ وہ عالم یا استاذ اپنے ساتھ تمام انسانیت کے معلم جناب محمد رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم تک واضح اور با ربط سند (سلسلہ) رکھتا ہوا اور اپنے کسی شیخ سے تعلیم و تدریس کا اجازہ بھی رکھتا ہو۔
2۔ وہ معلم و شیخ اس زبان(عربی) سے بھرپور واقف ہو کہ جس میں ہماری ہدایت کے سرچشمے کا نزول ہوا۔
3۔ وہ ان اہلِ علم سے محبت کا دعویدار ہو جو قرآن و سنت کی پیروی کو حرزِ جاں سمجھتے ہوں
(کیوں کہ ہمیشہ یہی دکھنے میں آیا ہے کہ اللّٰہ رب العزت گمراہ شخص سے علمائے حق کے متعلق زہر اگلوا ہی دیتے ہیں)
یہ تین نکاتی معیار و کسوٹی ہمیں قرآن و حدیث کی واضح نصوص اور سبیل المومنین سے معلوم ہوتا ہے۔
رب تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿ وَمَن يُشَاقِقِ الرَّسُولَ مِن بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدَىٰ وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيلِ الْمُؤْمِنِينَ نُوَلِّهِ مَا تَوَلَّىٰ وَنُصْلِهِ جَهَنَّمَ ۖ وَسَاءَتْ مَصِيرًا﴾
[سورة النساء: 115]
اور جو کوئی رسول کی مخالفت کرے، اس کے بعد کہ اس” کے لیے ہدایت خوب واضح ہوچکی اور مومنوں کے راستے کے سوا (کسی اور) کی پیروی کرے ہم اسے اسی طرف پھیر دیں گے جس طرف وہ پھرے گا اور ہم اسے جہنم میں جھونکیں گے اور وہ بری لوٹنے کی جگہ ہے“۔
قرآن کے اس واضح فرمان سے ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ سبیل المومنین کی پیروی مسلمان پر واجب و ضروری ہے اور یہ “مومنین“ قرونِ مفضلہ کے سلف صالحین ہیں تو جو شخص ان کے مجمع علیہ مسئلے یا عقیدے کی مخالفت کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے اس کے باطل عقیدے کی طرف دھکیلتے اور رہ نمائی کرتے ہیں تاکہ وہ بدعتی اور گمراہ شخص توبہ کی بھی توفیق نہ دیا جائے اور یہی “نولہ ما تولیٰ“ کی تعبیر ہے۔
ہم جب مرزا جہلمی اور ان جیسے چرب اللسان خطبا کی زندگیوں اور حالتوں کا بہ غور جائزہ لیتے ہیں تو ہمارے لیے یہ حقیقت آشکار ہوتی ہے کہ یہ سبیل المؤمنین کی اتباع تو کجا، اس مذکورہ بالا تین نکاتی معیار پر بھی پورا نہیں اترتے۔
اہل السنہ کا بریلوی اور دیوبندی حضرات سے تو بنیادی اختلاف تقلید و اجتہاد اور فہمِ سلف کا ہے، لیکن ان جیسے جہال کی تو بنیاد ہی جہل و ہٹ دھرمی کا آمیختہ ہے۔
جو شخص سلف کے اس مجمع علیہ عقیدے کی دھجیاں قرآن و حدیث کا نام لے کر بکھیرتا ہے کہ “صحابہ کے خلاف زبانِ طعن دراز کرنا بلا اختلاف کفر ہے“جبکہ وہ مذکورہ بالا تین نکاتی معیار پر نہ اترنے کے سبب سے استدلال و استنباط کی استعداد اور صلاحیت سے بالکل عاری اور بے بہرہ ہے۔ تو ہم اس کی اس ہٹ دھرمی کو کیا نام دیں۔۔؟
اب یہ اس کی زبان کا پھسلاؤ ہو یا رب تعالی کی طرف سے اس کی ضد اور صحابہ سے عناد کی سزا، یہ رب تعالیٰ ہی بہتر جانتے ہیں، لیکن علما کا اس پر سخت ایکشن کا مطالبہ اور بھی کئی وجوہ سے درست اور صائب ہے۔
کیوں کہ بعد ازیں ایسے جہال احادیث(صحیح مفاہیم کے بغیر) کے نمبرز اور زبان کی روانی کا ہتھیار لیے اہل السنہ کے اعتدال اور توازن کی ساکھ کو نقصان پہنچانے کے لیے سر اٹھاتے رہیں گے۔
یہ امت پہلے ہی جمہوریتِ فاسدہ، سیکولرزم اور انسانیت سوز دیگر مظالم نیز غیر فطری و غیر اسلامی فرقوں کی تاب نہ لاتے ہوئے انقلاب اور دغابازی سے امیدیں وابستہ کر بیٹھی ہے اور ان کے سامنے اس تمام تر خرابی کا مجرم علما کو بنا کر پیش کیا گیا ہے۔ اسی لیے جو شخص بھی اس امت کے نوجوانوں کو چند میمز، جگتوں اور فحش مضامین سے لیس نیم دینی گفتگو کر کے بہلانے کی کوشش کرتا ہے، یہ ناامید نوجوان اصلاح کی امید رکھتے اس کے سامنے اپنی جبینوں کو جھکا لیتے ہیں اور اسی بات کا فائدہ ان جیسے نام نہاد علمی کتابی لوگ اٹھاتے ہیں۔
ہمیں ان تمام حالات میں اس بات کا واضح درس میسر آتا ہے کہ ہم علما ربانیین کو قرآن و سنت پر عمل کرتے ہوئے مضبوطی سے تھام لیں اور اپنے اندر علما و مشائخ کے اخلاقی و فکری تفاوت کو ہضم کرنے کی صلاحیت کو اجاگر کریں تاکہ کوئی بیان کا “جادو“ ہم پر کارگر ثابت نہ ہو سکے۔
واللہ المستعان
عبدالرحیم
یہ بھی پڑھیں:دھویں میں گُھٹی سانسیں



