سوال (4268)

ہمارے معاشرے میں اکثر دیکھا جاتا ہے جب کسی شخص کا کوئی قریبی فوت ہو جاتا ہے تو وہ کچھ دن بعد یا کچھ ماہ، سال، بعد جلسہ کرواتا ہے اور اس کا مقصد ہوتا ہے ایصال ثواب جو اس کا قریبی فوت ہو گیا ہے اس کو وہ ثواب پہنچے اور اکثر کچھ اشتہارات کے نیچے لکھا بھی ہوتا ہے، ایصال ثواب برائے فلاں شخص پھر آخر میں فوت ہونے والے کے لیے دعا بھی کروائی جاتی ہے، قرآن و حدیث کی روشنی میں درست مؤقف کیا ہے؟

جواب

بدعت کی تعریفات میں سے یہ بھی ہے کہ دین میں نیا کام ایجاد کرکے اس کو عبادت کا درجہ دیا جائے، نبی کریم ﷺ کے زمانے میں بھی فوتگیاں ہوئی تھی، نبی کریم ﷺ سے بڑھ کر اپنے فوت شدگان کو ثواب پہنچانے والا کوئی نہیں، جب نبی کریم ﷺ سے یہ طریقہ ثابت نہیں تو پھر ہم کون ہوتے ہیں کرنے والے۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ

سائل: شیخ محترم ایک اور سوال تھا کہ اگر کوئی پانی کی سہولت میسر کرتا ہے (یعنی فلٹر والا پانی )اور اس کا ارادہ ہوتا ہے؟ اس کا ثواب میرے باپ کو پہنچے تو کیا اس طرح کا عمل کوئی ثابت کی۔ جس سے مرنے والے کی طرف ایصال ثواب منسوب کیا جائے۔
جواب: اس کی ضرورت ہی نہیں ہے، یہ اللہ تعالیٰ کا نظام ہے کہ اولاد کوئی بھی نیکی کرے والدین کو اتنا ثواب ملتا ہے جتنا ثواب اولاد کو ملتا ہے، بشرطیکہ والدین نے اولاد کو نیکی پر لگایا ہو یا کم سے کم والدین ان کے نیکی کے راستے میں رکاوٹ نہ بنے ہوں۔

فضیلۃ الشیخ عبد الرزاق زاہد حفظہ اللہ